ویسے تو ریحان ایک ذہین بچہ تھا مگر تھوڑا سست بھی تھا۔پڑھائی میں اچھا تھا لیکن اپنی چیزوں کا خیال رکھنا اسے بالکل پسند نہ تھا۔اس کا اسکول بیگ ہر وقت کتابوں اور کاپیوں کے علاوہ پنسلوں، ربڑ ،اسکیل اور کلرزسے بھرارہتا۔ ایک پانی کی بوتل بھی اس میں ہر وقت موجود ہوتی۔اپنے بیگ اور ان چیزوں کے بارے میں اس کا رویہ پریشان کن تھاکیونکہ وہ اسکول سے آکر بیگ کو ایک کونے میں لاپروائی سے پھینک دیتا۔ وہ کتابوں کے صفحات موڑ دیتا، کاپی پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچتا۔اسے پنسل چبانے کی عادت بھی تھی ۔اور تو اور پانی کی بوتل کو تو وہ کھولتا ہی نہیں تھا!
رات کا وقت تھا۔چاندنی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھی۔ ریحان گہری نیند میں تھا کہ اچانک بیگ کے اندر سے سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔پہلے تو ہلکی آوازیں آئیں لیکن پھر جیسے پورا بیگ چیخنے لگا!
غصے میںریاضی کی کتاب بولی، ’’بس بہت ہوگیا!میںمشکل سوالوں میں روزانہ ریحان کی مدد کرتی ہوں مگر وہ مجھے ہمیشہ سب سے نیچےرکھتاہے۔ میرے صفحات مڑ چکے ہیں اور ایک دن تو اس نے مجھ پر پانی بھی گرا دیا تھا!‘‘
اردو کی کتاب کا لہجہ بھی سخت تھا، ’’ہاںبھئی ...تم ٹھیک کہتی ہو! وہ مجھے بھی بغیر ہاتھ دھوئے اٹھاتا ہے۔ میرے صفحات پر توچاکلیٹ کے داغ بھی ہیں!‘‘
کاپی بھی شکایت کرنے لگی، ’’میرے ساتھ تو حد ہوگئی! ریحان مجھ پر ٹیڑھا میڑھا لکھتا ہے۔ صفحے پھاڑ دیتا اور کبھی کبھی مجھے زمین پر بھی گرا دیتا ہے!‘‘
’’پنسل کو بھی دُکھ تھا۔ وہ بولی، ’’میں لکھنے کے لیے بنی ہوں مگر وہ مجھے چبانے میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے! میر ا سائز کم ہوتا جا رہا ہے!‘‘
ربڑ بھی کم ناراض نہ تھی، ’’میری بھی سنو! میں بیچاری ہر روز استعمال ہوتی ہوں۔ ریحان مجھے ہر جگہ چھوڑ دیتا ہے۔ایک دن میںبنچ کے نیچے تھی، دوسرے دن کسی اور کے بیگ میں جا پہنچی!‘‘
اسکیل بھی منہ بنا کر بولا، ’’اور میرا کیا؟ میں سیدھی لائنیں کھینچنے کے لیے بنا ہوں مگر وہ الٹی سیدھی خراشیں ڈالتا ہے، کبھی تومجھے ٹیڑھابھی کر دیتا ہے!‘‘
پانی کی بوتل بھی چلائی، ’’اور میں.... مجھے تو وہ کھولتا ہی نہیں! پورا دن میں بھری رہتی ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ میں ریحان کو تروتازہ رکھوں گی مگر وہ مجھے نظرانداز کردیتا ہے!‘‘
یہ سن کر بیگ کا چہرا بھی لال پیلا ہوگیا، ’’ہاں! اور میں! ریحان مجھ میں اتنی چیزیں بھر دیتا ہے کہ میری زِپ مشکل سے بند ہوتی ہے۔ میں روز اس کا بوجھ اُٹھاتا ہوں مگر وہ مجھے کبھی صاف تک نہیں کرتا!ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اب ہم کسی نہ کسی طرح اپنے جذبات سے ریحان کو آگاہ کریں گے! ‘‘
اگلی صبح جب ریحان نے بیگ کھولا، تو عجیب بات ہوئی!
ریاضی کی کتاب نے خود کو چھپا لیا اور اردو کی کتاب نے خود کو بند کر لیا جیسے وہ کھلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کاپی کے صفحات بھی ایک دوسرے سے چپک گئے جیسے وہ ریحان سے ناراض ہوں ۔
پنسل کا سرا اتنا نرم ہو گیا کہ وہ لکھ ہی نہیں پا رہی تھی۔ربڑ نظر ہی نہ آئی! اور تو اور اسکیل بھی ٹیڑھا ہو گیا، جیسے کہ وہ سیدھی لائنیں کھینچنے سے انکار کر رہا ہو جبکہ پانی کی بوتل نے ڈھکن ایسا سخت کر دیا کہ کوئی اسے کھول نہ سکے۔
ریحان اپنے بیگ کی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ گیا! وہ بار بار اپنی چیزیں دیکھتا مگر کچھ بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ پریشان ہو کر امی کے پاس گیا اوربیگ کی ساری کیفیت ان کے گوش گزار کردی۔
امی نے مسکرا کر کہا،’’بیٹا، کیا تم نے کبھی اپنی چیزوں کا خیال رکھا ہے؟ کیا تم نے کبھی کتابوں کا احترام کیا ہے؟ کیا دوسری چیزوں کی قدر کی؟
یہ سنتے ہی ریحان کو احساس ہوا کہ وہ واقعی بہت لاپروا ئی کا مظاہرہ کرتارہا ہے۔اس نے اپنی اس عادت پرشرمندگی کا اظہار کیا۔ ’’میں نے واقعی اپنی چیزوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا! مگر اب میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی ہر چیز کا خیال رکھوںگا!‘‘
یہ سنتے ہی سب چیزیں خوش ہو گئیں۔ریاضی کی کتاب خود بخود کھل گئی، اردو کی کتاب نے اپنے صفحات کھول دیے، کاپی ٹھیک ہو گئی، پنسل کا چہرا کھل اُٹھا، ربڑ بھی اچانک بیگ کے ایک کونے سے نکل آئی، سکیل خوش ہوگیا اوربوتل بھی جھومنے لگی۔
ریحان نے فوراً بیگ صاف کیا، کتابوں کو ترتیب سے رکھا، پنسل کو چبانا چھوڑ دیا اور سب سے اہم بات، پانی کی بوتل سے گھونٹ بھر کر بولا،’’اب میں تم سب کا خوب خیال رکھوں گا!‘‘
ریحان کی عادتیں بدل گئی تھیں۔ وہ اپنی چیزوں کی قدر کرنے لگا تھا۔اس تبدیلی پربیگ کے اندر خوشی کا سماں تھا۔سب چیزیں دمک رہی تھیں۔ ساتھیو!ہمیں بھی اپنی اسکول کی چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
تبصرے