27 فروری 2019کی صبح پاک فضائیہ کے شاہینوں کا شکار بننے اور اپنے طیارے کے تباہ ہونے کے بعد ہوا کے دوش پر ہلکورے کھاتاہوا بھارتی فضائیہ کے نمبر51 سکواڈرن کا کمانڈنگ آ فیسر ، ونگ کمانڈر ابھینندن پیرا شوٹ کے ذریعے آزاد کشمیر میں بھمبر کے مقام پر اترا۔ ابتدائی ساعتوں میں تو بھارتی پائلٹ نے مزاحمت دکھاتے ہوئے اور اپنے قریب آتے نوجوانوں پر پستول تان کر انہیں دھمکانے کی کوشش کی، تاہم یہ سلسہ زیادہ طوالت اختیار نہ کر سکا اور جلد ہی وہاں موجود عوام نے اس پر غلبہ حاصل کر لیا۔ یہ ابھینندن کی خوش قسمتی رہی کہ میجر معز کی قیادت میں پاک آرمی کی ٹیم موقع پر پہنچ گئی جس نے اسے نہ صرف اپنی تحویل میں لے لیا بلکہ اس کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا۔
بعدازاں ونگ کمانڈر ابھینندن کو نہ صرف ہر طرح کی طبی امداد دی گئی بلکہ ایک ذمہ دار ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے جنیوا کنونشن کی روشنی میں اس کا مکمل خیال رکھا گیا ۔ اسی موقع پر پاکستانی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ابھینندن کا کہا تاریخی جملہThe tea is fantastic زبان زد عام ہو گیا اور پاکستان کی فتح کا استعارہ بن گیا۔
آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں کامرانی نہ صرف میدانِ جنگ میں نصرت حاصل کرنے کا نام ہے بلکہ اپنی فتح اور بیانیے کو کامیابی سے دوسروں تک پہنچانا بھی ہے۔ اسی لیے میدانِ جنگ میں ہاری گئی بہت سی جنگیں، عیار دشمن میڈیا کے محاذ پر فقط اس وقت جیت جاتا ہے، جب وہ دنیا کوحقائق سے دور اپنا نقطہ نظر بیچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔
چانکیہ فلسفے کا علمبردار بھارت ازل سے اسی نظریے پر یقین رکھتا ہے کہ جھوٹ کو اتنی بار دہرایا جا ئے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔اپنی ندامت پر تلملائے بھارت نے اِس بار بھی بہت کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح حقائق کو مسخ کرے اور اپنے بھاری بھرکم نیوز چینلز، بالی وڈ سکرپٹ اور سوشل میڈیا کی مدد سے نہ صرف دنیا کو گمراہ کرے بلکہ اپنے عوام کے سامنے بھی ہزیمت سے بچے۔ تاہم چائے کی اس ایک چسکی نے اس کی ہر طرح کی دروغ گوئی کو بھک سے اڑا دیا۔ یہاں تک کہ ونگ کمانڈر ابھینندن کے سینے پر ایک دیومالائی کہانی گھڑ کر سجایا گیا اعلی ترین فوجی اعزاز ویر چکرا بھی بھارت کی جگ ہنسائی کم نہ کر سکا۔
جہاں ہر پاکستانی تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے دشمن کی غلط بیانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کے فریب کا شکار نہیں بنا، وہاں ضروری ہے کہ اسے ماضی کے دریچوں میں لے جایا جائے اور بھارتی بزدلی کی کچھ مزید کہانیوں اور پاکستانی چائے سے اس کی دیرینہ محبت کے کچھ واقعات سے آشنا کروایا جائے تاکہ انہیں اپنی افواج پر فخر ہو اور وہ بھارتی میڈیا کے پراپیگنڈے کا ہرممکن سطح پر بدرجہ اتم جواب دے سکیں۔
بیشتر پاکستانیوں کے شاید علم میں نہیں مگر ونگ کمانڈر ابھینندن بھارتی فضائیہ کا پہلا پائلٹ نہیں ہے جو اس طرح سے پاکستان کا مہمان بنا ہے۔ اس سے پیشتر بھی بھارتی ہوابازوں کی ایک طویل فہرست ہے جو پاکستانی چائے کی طلب لیے ہمارے در پر آئے ۔ اس لیے بھارتی نغمے ہی کے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملاقات ایک بہانہ ہے، پیار کا سلسہ پرانا ہے۔
آئیے ان میں سے کچھ واقعات اور بھارتی سورمائو ں کی بہادری کے کچھ کارہائے نمایاں کا احاطہ کریں تاکہ آپ ان سے لطف اندوز ہوسکیں۔
بھارتی کینبرا (Canberra) کا روات، راولپنڈی میں شکار10 اپریل، 1959 بروز عید الفطر جب پاکستانی قوم عید منا رہی تھی کہ بھارتی فضائیہ نے ہماری شادمانیوں کو ہماری بے پروائی سمجھتے ہوئے ، برطانیہ سے حاصل کیے گئے اپنے نئے کینبرا جاسوس طیاروں کو پاکستان کے خلاف آزمانے کا فیصلہ کیا۔بھارتی طیارہ سیریل نمبر71591جسے سکواڈرن لیڈر جگدیش چندرا گپتا اور فلائٹ لیفٹیننٹ ایس این رام پال اڑا رہے تھے، کو بھارتی فضائیہ نے پاکستانی علاقوں کی جاسوسی کا مشن دیا۔ بھارتی فضائیہ کو نہ صرف یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستانی ریڈار کو اس کی خبر نہیں ہو گی، بلکہ وہ اس کج فہمی میں بھی مبتلا تھے کہ کینبرا طیارے جو کہ50ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں، اس تک پہنچنے کی کسی پاکستانی طیارے کی استطاعت نہیں ہے۔
تاہم بھارتیوں کی یہی بھول ان کے لیے تباہی کا پروانہ ثابت ہوئی۔ کینبرا طیارہ جیسے ہی پاکستان کی حدود میں داخل ہوا، پاکستانی ریڈار نے اس کی آمدکو جانچ لیا اور اس کی فوری اطلاع ائیر ڈیفنس ڈیوٹی پر تعینات نمبر15 سکواڈرن کو دے دی جو سیبر طیاروں سے لیس تھے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس اور فلائٹ لیفٹیننٹ نصیر بٹ فوری اپنے طیاروں پر پہنچے اور دشمن کے تعاقب میں ہوا میں پرواز کر گئے۔ بھارتی طیارے کو جیسے ہی پاکستانی شاہینوں کی آمد کا علم ہوا اس نے فوری واپس بھارت کی جانب دوڑ لگا دی۔ تاہم فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس نے انتہائی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کینبرا طیارے کو نشانہ بنایا جو روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا۔ بھارتی پائلٹ سکواڈرن لیڈر جگدیش گپتا اور فلائٹ لیفٹیننٹ ایس این رام پال جہاز سے کود گئے اور پاکستان کی قید میں آگئے۔ فلائٹ لیفٹیننٹ محمد یونس کو بعدازاں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔
یہ واقعہ بھارت کے لیے بین الاقوامی طور پر انتہائی شرمندگی کا باعث بنا جس کے جواب میں بھارتی حکومت نے بہت سی کمزور تاویلات تراشیں، تاہم بات نہ بنی۔ بھارتی پائلٹوں کو پاکستانی چائے سے تواضع کے ایک روز کے بعد واپس بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔سکواڈرن لیڈر جگدیش چندراگپتا بطور گروپ کیپٹن بھارتی فضائیہ سے1976 میں ریٹائر ہوئے جبکہ فلائٹ لیفٹیننٹ ایس این رام پال نے بطور ونگ کمانڈر1971 میں بھارتی فضائیہ چھوڑی۔
رانا لال جی کا طوفانی (Ouragan) طیارہ
اپریل سے جون 1965 کے اوائل میں رن آف کچھ کی متنازع ساحلی پٹی کے علاقے میں پاکستان اور بھارت کی زمینی افواج کے مابین سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ ان جھڑپوں میں دونوں ممالک کی فضائی افواج نے براہ راست شرکت نہیں کی تھی، تاہم پاک فضائیہ کو یہ ذمہ داری تقویض کی گئی تھی کہ اس تناظرمیں وہ بھارتی فضائیہ کی نقل و حمل پر مکمل نظر رکھے اور اسے کسی بھی جارحانہ قدم اٹھانے اور تنازع کا حصہ بننے سے روکے رکھے۔
24 اپریل 1965 کو بھارتی فضائیہ کے نمبر 51 سکواڈرن کا ایک اوریگان (طوفانی طیارہ)سیریل نمبر IC-698 جو کہ فلائٹ لیفٹیننٹ رانا لال چند سکہ اڑا رہا تھا، جام نگر ائیربیس سے پرواز کر تا ہوا پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوگیا۔ پاک فضائیہ کے بدین ریڈار نے جہاز کی آمد کو جانچتے ہوئے فوری پاک فضائیہ کے اعلی حکام کو خبر دی، جس پر ماڑی پوربیس سے دو سیبر طیاوں کو دشمن کے تعاقب میں پرواز کا حکم ملا۔ سیبر طیاروں نے کمال مہارت سے کچھ ہی لمحے میں دشمن کو جا گھیرا۔ اس وقت تک بھارتی طیارہ پچاس میل پاکستانی حدود کے اندر آ چکا تھا اور اس کا رخ کراچی کی جانب تھا ۔ جہاز زمین سے فقط دو ہزار فٹ کی بلندی پر تھا۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھارتی طیارے پر میزائل فائر کرنے سے قبل آخری انتباہ کے طور اس کے سامنے سے پرواز کرتے ہوئے اپنی پوزیشن بنائی ہی تھی کہ بھارتی پائلٹ نے سراسیمگی کے عالم میں اپنے ہوائی جہاز کے لینڈنگ گیئر (پہیے)کھول دیے جو فضائی سرنڈر یعنی ہتھیار ڈالنے کا بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ طریقہ کار ہے۔
بھارتی پائلٹ نے اپنے جہاز کو بدین کے قریب جھنگ شاہی گائوں کے قریب ایک کھلے میدان میں اتار دیا۔ اس لینڈنگ کے دوران جہاز کو کچھ نقصان بھی پہنچا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ رانا لال چند سکہ کو قیدی بنا لیا گیا جہاں اس کی دیگر آئوبھگت کے علاوہ چائے سے بھی مدارت کی گئی۔ بھارتی پائلٹ کو بعدازاں 14 اگست 1965 کو پاکستان کے 18 ویں یوم آزادی کے موقع پر خیر سگالی کے طور پر رہا کیا گیا۔تاہم بھارتی اوریگان طیارہ پاکستان نے اپنے پاس رکھ لیا۔
بھارتی پائلٹ رام لال چند سکہ کو بہادری کے اس عظیم الشان مظاہرے پر فقط تین ماہ بعد اکتوبر 1965 میں ہی بھارتی فضائیہ سے برخواست کر دیا گیا۔
سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ اور پاکستانی F-104 کی دہشت
3 ستمبر1985کو پاک بھارت جنگ کے باقاعدہ آغاز سے قبل دونوں ممالک کے درمیان جوں جوں حالات کشیدہ ہو رہے تھے، پاک فضائیہ نے بھی اپنی فضائی پٹرولنگ میں اضافہ کر دیا تھا۔ اس دوران اکھنور کی فضائوں میں سرگودھا میں تعینات سکواڈرن کے دو سیبر طیارے جنہیں فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف خان اور فلائنگ آفیسر عبدالخالق اڑا رہے تھے، دشمن کے چار نیٹ (Gnat) طیاروں کے مدمقابل آگئے۔ ان دو سیبر طیاروں کے علاوہ نمبر 9 سکواڈرن کا ایک F-104 طیارہ جسے فلائنگ آفیسر عباس مرزا اڑا رہے تھے، فضا میں موجود تھا۔
پاک فضائیہ کے سیبر طیاروں پر دشمن کی عددی برتری کے باوجود پاکستانی شاہینوں نے دشمن کو للکارا۔ تاہم اسی دوران فلائنگ آفیسر عبدالخالق کے طیارے کے ایک فیول ٹینک کے پھنس جانے کے باعث فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف خان نے انہیں پیچھے ہٹنے کا کہا اور تنہا دشمن کے مدِمقابل آگئے۔ اس معرکے کے دوران جب انتہائی چابک دستی سے وہ دشمن کے ایک طیارے پر اپنا میزائل لاک کر چکے تھے کہ اسی لمحے دشمن کی مدد کو نمودار ہونے والے دو مزیدجیٹ طیاروں میں سے ایک طیارے نے عقب سے ان پر گولیوں کا برسٹ فائر کر دیا۔ ان گولیوں نے فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف خان کے طیارے کے پچھلے حصے کو نقصان پہنچا دیا ۔
اسی دوران سکیسر ریڈارکنٹرولر نے حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے F-104 طیارے پر موجود فلائنگ آفیسر عباس مرزا کو میدان جنگ میں اترنے کا کہا۔ آواز سے تیز رفتار F-104 طیارے کی آمد کے ساتھ ہی بھارتی طیاروں میں کھلبلی مچ گئی اور انہوں نے دم دبا کر بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ فلائنگ آفیسر عبدالخالق اور فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف خان دشمن کے بھاگنے پر واپس لوٹ آئے اور دونوں جہاز سرگودھا ائر بیس پر بحفاظت لینڈ کر گئے۔
دوسری طرف دشمن کے دہشت زدہ طیارے جہاں واپس بھارت کی جانب سرپٹ بھاگ رہے تھے، وہاں اس کا ایک طیارہ جسے سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ سکند اڑا رہا تھا ، اس بدحواسی کے عالم میں پاکستان ہی کی جانب بھاگ پڑا۔ اس دوران سکیسر ریڈارکنٹرولر نے ایک مزید F-104طیارے کو جسے فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ اڑا رہے تھے،جھڑپ کے مقام پر پہنچنے کا کہا۔ جب تک حکیم اللہ وہاں پہنچے بھارتی طیاروں کا نام و نشان تک نہ تھا ما سوائے سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ سکند کے جہاز کے جس کا پاکستانی F-104 طیارے کو دیکھ کر مکمل پتا پانی ہوگیا۔ بھارتی طیارے نے اپنی رفتار آہستہ کر لی اور پھر سیالکوٹ کے قریب پسرور کے مقام پر ایک غیر استعمال شدہ رن وے پر لینڈ کر گیا۔ سکواڈران لیڈر برج پال سنگھ سکند کو وہاں موجود پاکستان آرمی کی یونٹ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
بعدازاں سکواڈرن لیڈر برج پال سنگھ سکند نے اپنی شرمندگی زائل کر نے کی خاطریہ تاویل گھڑی کہ چونکہ اس کے جہاز کے تمام سسٹمز نے جس میں ریڈیو، کمپس، گنز اور پیٹرول کی مقدار بنانے کا آلہ وغیرہ شامل ہیں ، اچانک جواب دے دیا تھا، اس لیے اس کے پاس پاکستان میں اپنا جہاز اتارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس یہ تھی کہ دراصل بھارتی پائلٹ کا حوصلہ جواب دے چکا تھا۔ اس بات کی واضح تصدیق بعد میں اس وقت ہوگئی جب پاک فضائیہ کے فلائٹ لیفٹیننٹ حاتمی اس بھارتی طیارے کو سرگودھا ائر بیس پرواز کر کے لے کر آئے اور انہوں نے جہاز کے ہر سسٹم کو مکمل درست پایا۔
جہاں بھارتی پائلٹ کو بعدازاں جنگی قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کر دیا گیا وہاں بھارتی طیارہ جنگی ٹرافی کے طور پر پاکستان نے رکھ لیا۔ یہ طیارہ آجکل پاک فضائیہ کے میوزیم کراچی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سکوڈران لیڈر برج پال سنگھ سکند اس بزدلی، غیر پیشہ ورانہ پن اور دروغ گوئی کے باوجود بعدازاں ترقی کرتے ہوئے بھارتی فضائیہ سے ائر مارشل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
فلائٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا کی مہمان نوازی
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1999 کے وسط میں اس وقت جھڑپوں کا آغاز ہوا جب کارگل کے متنازع مقام پر بھارتی فوج کی خالی کی گئی چوکیوں پر مجاہدین قابض ہوگئے اور بھارت کے غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے علاقے کے چھ میل اندر ایک نئی فارورڈ لائن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تلملائے اور شرمندہ دشمن نے 26 مئی 1999 کو بھارتی فضائیہ کوبھی اس تنازع میں جھونک دیا۔ بھارتی طیاروں کی جانب سے بعض مقامات پر ایل او سی کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر فضائی حدود کی خلاف ورزی جاری رکھی گئی تو پاکستان جوابی کارروائی پر مجبور ہو جائے گا۔
27 مئی 1999 کو بھارتی فضائیہ کے نمبر9 سکواڈرن کا ایکMig-27 طیارہ جسے فلائٹ لیفٹیننٹ کمبم پتی ناچی کیتا اڑا رہا تھا، لگ بھگ دن کے سوا گیارہ بجے ایل او سی کی خلاف ورزی کرتے پایا گیا۔ پاکستان آرمی ایئر ڈیفنس کے کیپٹن فہیم ٹیپو کی زیرِقیادت ان کے گنر نائیک شفقت علی نے فوراً دشمن کے جہاز کو ٹریک کیا اور اپنے عنزہ میزائل سے اسے پلک جھپکتے میں مار گرایا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ کمبم پتی ناچی کیتا کا جلتا ہوا جہاز نہ صرف پاکستانی علاقے میں گرا، بلکہ جہاز سے کودنے کے بعد پیراشوٹ کے ذریعے وہ خود بھی پاکستانی حدود میں گرا جہاں اسے تحویل میں لے لیا گیا۔
کچھ لمحوں کے توقف کے بعد دو مزید بھارتی MiG-21 طیارے پاکستانی فضائی حدود میں گھس آئے اور پاکستانی چوکیوں پر حملے کے لیے پوزیشن بنانے لگے۔ یہ دیکھتے ہوئے حوالدار بشارت نے بجلی کی سی رفتار سے دشمن کے جہاز کو ٹریک کیا اور ایک MiG-21 طیارے کو 1,500 میٹر کی بلندی پر اپنے میزائل سے مار گرایا۔ اس جہاز کا ملبہ بھی پاکستان کی حدود میں دس سے بارہ کلومیٹر اندر گرا۔بھارتی فضائیہ کے نمبر 17 سکواڈرن کا پائلٹ سکواڈرن لیڈر اجے آہوجا ہلاک ہوگیا۔ دوسرا Mig-21 طیارہ بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ یاد رہے کہ ان دو جہازوں کے علاوہ بھارتی فضائیہ کا ایک Mi-17 ہیلی کاپٹربھی اسی روز تباہ کیا گیا۔
فلائٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا نے کم و بیش ایک ہفتے پاکستان کی میزبانی اور خاص طور پر ہماری چائے کا لطف اٹھایا اور پھر خیر سگالی کے جذبے کے تحت اس کو 4 جون 1999 کو رہا کر دیا گیا۔ چونکہ کوئی بھارتی عہدے دار یا سفارتی عملہ اپنے پائلٹ کو وصول کرنے نہیں آیا، اس لیے اسے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی تحویل میں دے دیا گیا جس نے اسے سرحد پار بھارت کے حوالے کر دیا۔
جہاں اپنی فطری عیاری اور دروغ گوئی سے مجبور ہو کر بھارتی حکام نے ہر دفعہ اپنے پائلٹ وصول کرنے کے بعد پاکستان پر ان پر تشدد اور جسمانی اذیت کے بے بنیاد اور بے سروپا الزامات لگائے، وہاں یہ تمام پائلٹ اپنے دل میں یہ بات اچھی طرح جان کر واپس گئے کہ ان کے مقابل وہ قوم ہے جو نہ صرف یہ کہ اعلیٰ ترین روایات کی امین ہے بلکہ اپنے دشمن قیدیوں سے حسنِ سلوک اور کشادہ دلی اس کے اسلاف کی روشن تاریخ ہے اور بے سبب تو نہیں کہ ہر کچھ توقف کے بعد ہماری چائے کا کوئی نہ کوئی طالب ہماری چوکھٹ پر آموجود ہوتا ہے۔ ||
یہ تحریر 159مرتبہ پڑھی گئی۔