قومی و بین الاقوامی ایشوز

  ایف اے ٹی ایف:گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں واپسی کاسفر

  یہ 17جون کی شام تھی،پوری قوم کی نگاہیں جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ہونیوالے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس پرجمی تھیں۔ نیوزچینلز اوراخبارات کے نیوز روم میں سب الرٹ بیٹھے ،برلن سے بڑی اوراچھی خبرسننے کے لیے بے تاب تھے۔انٹرنیشنل نیوزایجنسیز لائیو فیڈ دے رہی تھیں۔ذمہ داران کی دن رات کی محنت آخرکاررنگ لے آئی۔ ایف اے ٹی ایف(فیفٹ) کے صدرڈاکٹرمارکس نے نیوزبریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے تمام شرائط پوری کردی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو سال میں ہم نے 5بار انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا جائزہ لیا، پاکستان نے دونوں ایکشن پلان پر وقت سے پہلے عملدرآمد کیا۔ اُسے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ایف اے ٹی ایف کاوفد کروناکی صورتحال دیکھتے ہوئے اس سال اکتوبرمیں پاکستان کادورہ کرے گااوراپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔اس رپورٹ کے بعد پاکستان کوگرے لسٹ سے نکال دیاجائے گا۔



     اجلاس کے دوران ہونیوالی کارروائی اورملاقاتوں سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کوگرے لسٹ سے نکالنے کی خوشخبری سنائے گا۔ سوشل میڈیااورالیکٹرانک میڈیا پردعوؤں،تبصروں اورکریڈٹ لینے کامقابلہ بھی جاری تھا۔حقائق کیاہیں یہ سب کومعلوم ہیں۔


پچھلے سال اٹھارہ جولائی 2021ء کوبھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے اجلاس میں یہ دعویٰ کیاتھاکہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے بھارت کی کوششوں کاہاتھ ہے۔ان کے مطابق بھارتی وزیراعظم مودی نے یہ یقینی بنایاہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہے۔کچھ اس قسم کے دعوے بعض دوسرے بھارتی رہنماؤں نے بھی کیے ۔ 


   دنیاکے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس وقت معاشی دباؤ کا شکار ہے، ہمارے لیے یہ خبرٹھنڈی ہوا کاایک جھونکا ہے۔جس طرح ایک کامیابی بہت سی کامیابیوں کوجنم دیتی ہے اسی طرح ایک اچھی خبرسے بھی بہت سی اچھی خبریں نکلتی ہیں۔ یہ اتنی بڑی خبرتھی کہ وزیراعظم شہبازشریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلیفون کیا اورایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے متعلق شرائط مکمل ہونے کے اعلان پر مبارکباد دی۔انہوں نے جی ایچ کیو میں ''کور سیل ''کے قیام کے سپہ سالار کے فیصلے کو سراہا۔وزیراعظم  نے  تمام متعلقہ عہدیداروں کو بھی ٹیلی فون کیے اور اس اہم کامیابی پر مبارک باددی۔
     ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں 206 ارکان اور مبصرین کی نمائندگی کرنے والے مندوبین نے شرکت کی۔ مبصرین میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور ایگمونٹ گروپ آف فنانشل انٹیلی جنس یونٹس شامل تھے۔
    بدقسمتی سے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اس عالمی فورم کوبھی پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا۔اس کی پوری کوشش تھی کہ پاکستان کوگرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈال دیاجائے۔اس وقت پاکستان کے دوست ممالک  چین، ترکی اور ملائشیا نے پاکستان کا مکمل ساتھ دیا۔کامیاب خارجہ پالیسی کے باعث مزید دس ممالک کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔پاکستان مخالف بھارتی میڈیا دن رات پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے میں مصروف تھا،پاکستان دشمنی میں بھارتی نیوزچینلزنے صحافت کے تمام اصولوں اوراخلاقیات کی دھجیاں اڑادیں،بعض متعصب انڈین اینکرز نے تواپنے تبصروں میں پاکستان کوبلیک لسٹ کرہی دیاتھا۔ لیکن جب برلن سے اچھی خبریں آناشروع ہوئیں اورایف اے ٹی ایف کے مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کوگرے لسٹ سے نکالنے کاگرین سگنل دیاگیا توبھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ پاکستان مخالف سیاست دانوں کو  توگویاسانپ ہی سونگھ گیا۔بھارت کی تمام سفارتی کوششیں اورسازشیں ناکام ہوگئیں۔میں یہ بتاتاچلوں کہ پچھلے سال اٹھارہ جولائی 2021ء کوبھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے بھارتیہ جنتاپارٹی کے اجلاس میں یہ دعویٰ کیاتھاکہ پاکستان کے گرے لسٹ میں ہونے کے پیچھے بھارت کی کوششوں کاہاتھ ہے۔ان کے مطابق بھارتی وزیراعظم مودی نے یہ یقینی بنایاہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں رہے۔کچھ اس قسم کے دعوے بعض دوسرے بھارتی رہنماؤں نے بھی کیے ۔ 


 سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کی  رپورٹ کے مطابق  ٹیرر فنانسنگ کے 27 اور منی لانڈرنگ کے 7پوائنٹس پر عمل درآمد یقینی بنا کر پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا ہے۔ افواج پاکستان نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا، حکومت اور قومی اداروں نے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا،بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے لیکن پاک فوج نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا،جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیاجس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تحت ٹیرر فنانسنگ کے 27میں سے 27پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔


    گرے لسٹ میں ہونے کے باعث پاکستان کوجن مشکلات اورخطرات کاسامناتھا،یقین ہے کہ پاکستان جلد ان سب سے نکل آئے گا۔پاکستان کومعاشی فائدہ بھی پہنچے گا۔گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کاسفرمشکل تھا لیکن پاکستانی قوم نے یہ مرحلہ کامیابی سے عبورکیا۔پاکستان کی یہ جیت تمام اداروں اورافراد کی ایک ٹیم کی طرح  دن رات کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت گرے لسٹ میں ہمارے دوست ممالک متحدہ عرب امارات اورترکی سمیت تئیس ممالک  شامل ہیں۔ گرے لسٹ میں شامل ممالک کی سخت نگرانی کی جارہی ہوتی ہے، مشکلات اس وقت بڑھتی ہیں جب گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرکے بہت سی پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ایف اے ٹی ایف براہ راست توپابندی عائد نہیں کرتاتاہم اس کے ممبرممالک پابندیاں عائد کردیتے ہیں۔
    گرے لسٹ سے نکلنے کے بہت سے فوائد ہیں۔اس کاایک بڑافائدہ تویہ ہے کہ پاکستان کی ساکھ بہترہوگی،بینکنگ اورمالیاتی نظام مضبوط ہوگا دنیا کاہم پراعتماد بڑھے گا، پاکستان کومنی لانڈرنگ کے الزامات سے بھی نجات مل جائے گی۔اس وقت پاکستان کوغیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس بات کے امکانات روشن ہیں کہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری آئے گی اورغیرملکی کمپنیوں کااعتماد بڑھے گا۔گرے لسٹ میں ہونے سے پاکستان کی مشکلات مسلسل بڑھ رہی تھیں۔ سرمایہ کاروں کے لیے ایل سی کھولنامشکل ہوگیاتھاجس کی وجہ سے ایکسپورٹ میں بھی رکاوٹیں آرہی تھیں۔ وائٹ لسٹ میں آنے کے بعد پاکستان کاشمار بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح ذمہ دار ریاست میں ہوگاجہاں منی لانڈرنگ کی کوئی گنجائش نہیں۔


اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر2019 میں جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا گیا۔سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف پانچ نکات پر پیش رفت ہوئی تھی۔اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا اور ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا۔


     سرکاری خبررساں ادارے اے پی پی کی  رپورٹ کے مطابق  ٹیرر فنانسنگ کے 27 اور منی لانڈرنگ کے 7پوائنٹس پر عمل درآمد یقینی بنا کر پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا ہے۔ افواج پاکستان نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا، حکومت اور قومی اداروں نے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا،بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے لیکن پاک فوج نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا،جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیاجس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تحت ٹیرر فنانسنگ کے 27میں سے 27پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر34 نکات پر مشتمل تھے۔اینٹی منی لانڈرنگ اورکاؤنٹرٹیررسٹ فنانسنگ پر مبنی اس ایکشن پلان کوچار سال کی مسلسل کوششوں  کے بعدمکمل کیا گیا اور پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن کیا۔ اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر2019 میں جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا گیا۔سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف پانچ نکات پر پیش رفت ہوئی تھی۔اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا اور ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا۔ اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کروایا۔ جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیا،پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں۔ایف اے ٹی ایف پلان کے مطابق اس رپورٹنگ سائیکل میں ضبط کیے گئے اثاثوں کی تعداد اور مالیت میں خاطر خواہ اضافہ ظاہر کیا جس میں 71فیصد اثاثے ضبط کیے گئے، 85فیصد اثاثوں کی مالیت میں اضافہ ہوا۔جی ایچ کیو میں قائم سیل نے اپنی قومی رسک اسسمنٹ (2019 NRA)کے عمل کو اپنے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے خطرات اور اس کی بنیاد پرجامع پلان مرتب کیا۔گزشتہ چارسال  کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ میں کمی آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اینٹی منی لانڈرنگ(AML) اور کاؤنٹر ٹیررسٹ فنانسنگ(CFT) قوانین میں مسلسل بہتری ہے جس میں مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات وضع کیے گئے۔گزشتہ 2 سال میں مجموعی پیشرفت میں پاکستان نے غیر رسمی،باضابطہ قانونی معاونت کرتے ہوئے اسٹینڈ ایلون منی لانڈرنگ ایکٹ (2020)کونافذ کیا اور 26,630 شکایات پر کارروائی کی گئی۔ ایف بی آر نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس اور جیولرز کی طرف سے اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر ٹیررسٹ فنانسنگ کے حوالے سے غیر مالیاتی کاروبارکے لئے ایک سپیشل ڈائریکٹوریٹ (ڈی این ایف بی پی) قائم کیا۔



ایف بی آر نے بڑے پیمانے پر22000 سے زائد کیسز 351 ملین کے مالی جرمانے عائد کیے۔ ایف بی آر نے 1,700 سے زائدمختلف غیر قانونی کاروبار کی آف سائٹ نگرانی مکمل کی اورساتھ ہی ساتھ رئیل سٹیٹ سیکٹر کو بھی قانون کے دائرے میںلایاگیا۔ سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے بھی انفورسمنٹ ایکشن مکمل کرلیے۔
سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 146,697 کیسز کا جائزہ لیا اور 2,388 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے۔منی لانڈرنگ کی تحقیقا ت میں گزشتہ ایک سال کے دوران 123فیصداضافہ ہوا۔وفاقی اور صوبائی حکام کی جانب سے دہشت گردی  کے لیے مالی معاونت (ٹی ایف) اورٹارگٹڈ فنانشل سینکشنز (ٹی ایف ایس) کے لیے  جامع لائحہ عمل دیا۔
    اس اجلاس کے سلسلے میں اُس وقت جرمنی کے شہر برلن میں موجود وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھرکاکہناتھا کہ'' بین الاقوامی برادری نے متفقہ طور پر ہماری کوششوں کو سراہا ہے، ہماری کامیابی چار سال کے مشکل سفر کا نتیجہ ہے، پاکستان اس رفتار کو جاری رکھنے، معیشت کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے، آج تمام پاکستانیوں کے لیے خوشی کا دن ہے، قوم کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، فیٹف نے پاکستان کو تمام نکات پر کلیئر کردیا ہے جس کے بعد  ایف اے ٹی ایفپروسیجر کے تحت پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے، توقع ہے اکتوبر تک گرے لسٹ سے نکلنے کا عمل مکمل ہوجائے گا''۔
   پاکستان کو فروری 2018ء میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے گرے لسٹ میں شامل کردیاگیاتھا۔ صدر ایف اے ٹی ایف ڈاکٹر مارکس نے بتایا کہ پاکستان نے دیے گئے تمام اہداف مکمل کر لیے ہیں۔ یہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے اچھا ہو گا، گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے تمام پوری شرائط پوری کر دی ہیں، ایف اے ٹی ایف کا وفد کرونا کی صورتحال دیکھ کر جلد پاکستان کا دورہ کرے گا،  پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 34 نکات  پرعملدرآمد کر لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ'' رکن ممالک نے کارکردگی کو سراہا، گزشتہ دو سال میں ہم نے 5بار انسداد دہشت گردی کے اقدامات کا جائزہ لیا، پاکستان نے دونوں ایکشن پلان پر وقت سے پہلے عملدرآمد کیا، اُسے مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان نے اس امر کا مظاہرہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں کے مرکزی رہنماؤں کے خلاف تحقیقات اور ان کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ تحقیقات کے حوالے سے بھی پاکستان میں ایک مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔''
    آخرمیں اپنے پڑھنے والوں کومختصراً ایف اے ٹی ایف کے بارے میں بھی بتادیتاہوں، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ایک عالمی ادارہ ہے،یہ سات ممالک امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان کی کوششوں سے بنایاگیا۔اس کے قیام کا فیصلہ 1989ء میں فرانس میں منعقدہ اجلاس میں کیا گیاتھا، بعد میں  جی سیون اتحاد کے ممبران کی تعداد 16 ہوئی جو اب بڑھ کر 39 ہوچکی ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظیمیں شامل ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیا پیسیفک گروپ کا حصہ ہے، اس تنظیم کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ممالک تک ہے۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات کرنا تھا، امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ  دہشت گردی کے لیے فنڈز کی فراہمی کی روک تھام کے لیے بھی مشترکہ اقدامات کیے جائیں  جس کے بعد اکتوبر 2001 میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012 میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عملدرآمد کروانے کی ذمہ داری اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔
ایف اے ٹی ایف ہویاکوئی بھی عالمی فورم ،پاکستان ان کی مکمل حمایت کرتاہے اوراقوام متحدہ کے جانب سے کیے جانے والے تمام فیصلوں اورقراردادوں کوتسلیم کرتاہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دعوؤں کے باوجود عالمی فورمز پر تمام ممالک کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیاجاتا۔بعض ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے۔ طاقت ورممالک کے لیے قوانین کچھ اورہیں اورکمزورممالک کے لیے کچھ اور۔عالمی اداروںکوان ممالک کے خلاف بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جوپاکستان میں دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کررہے ہیں،بلوچ علیحدگی پسندوں کوتربیت،اسلحہ اورپیسہ فراہم کررہے ہیں۔بھارت  مقبوضہ کشمیرمیں جوظلم ڈھارہاہے عالمی برادری کوکچھ اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے، اب کچھ پابندیاں اس بدمست بھارت پربھی لگادینی چاہئیں۔ ||


مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]


 

یہ تحریر 544مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP