سپاہی معراج احمد ربانی شہید(ستارہ بسالت) کی داستانِ جنوں
بھکر صوبہ پنجاب کاایک ضلع ہے ، اس کے مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے اور دریاکے اُس پارصوبہ خیبرپختونخوا کاضلع ڈیرہ اسماعیل خان واقع ہے۔یہ خطہ تعمیر و ترقی کے لحاظ سے تو پسماندہ ہے لیکن اس کے ذرّے ذرّے سے وطن کی محبت کے نغمے پھوٹتے ہیں۔لوگ تعلیم یافتہ،باشعور اور امن پسند ہیں۔یہاں کے باسیوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوایاہے تودوسری جانب اس خطے کے سجیلے جوانوں نے اپنے لہوسے اپنے وطن کی مانگ بھی سجائی ہے ۔اس خطہ مردم خیز کے مجاہدوں،غازیوں اورشہیدوں کی بہادری کی داستانیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ آنے والے دنوں میں کئی اہم سنگ میل طے کر کے دفاع وطن کی نئی راہیں متعین کرسکتی ہیں اور وطن دشمن قوتوں کی چالیں ناکام بنا سکتی ہیں۔
سپاہی معراج ربانی شہید کاتعلق بھی بہادروں کی اسی قبیل سے تھا ۔معراج ربانی نے کرم ایجنسی میں آپریشن المیزان میں دادِشجاعت دیتے ہوئے اپنی جان وطن پر قربان کی۔معراج شہید کی والدہ، بہن اور بھائی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ان کے سپوت نے مملکت خداداد کی بقاء اور سا لمیت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔سپاہی معراج ربانی جسمانی طورپر بھی مضبوط تھا اور اس کا ایمان اور جذبہ حب الوطنی بھی بڑا پختہ تھا۔وہ جب بھی چھٹی آتا اپنے دوستوں میں بیٹھ کر فخریہ طور پر اپنے فوجی کارنامے بیان کرتا۔اپنے فرض سے لگن اس کی بہت سی تصویروں میں بھی نمایاں نظرا تی ہے ، وہ سبزہلالی پرچم،فوجی یونیفارم اور ہتھیاروں کے ساتھ تصویریں بنانا فخر سمجھتا تھا۔ اس نے محض تنخواہ اور نوکری کی خاطر فوجی زندگی اختیار نہیں کی تھی بلکہ اس کا بے پناہ جذبہ حب الوطنی ہی اسے پاک فوج میں لایاتھا۔
سپاہی معراج ربانی شہیدکی ضعیف والدہ اوران کے بڑے بھائی محمدعتیق ربانی اپنے بہادر بھائی اور بیٹے کی داستان فخر سے بیان کرتے ہیں ۔عتیق ربانی جب اپنے بھائی کی یادیں تازہ کرتے ہیں تو بہت پُرجوش ہوجاتے ہیں۔ان کا جذبہ دیکھنے اور ان کے الفاظ سننے لائق ہوتے ہیں۔جب راقم بھکرشہر کے سینئر صحافی پروفیسر عبدالعزیز انجم کے ہمراہ شہیدکے گھر پہنچا تو شہیدکی فیملی نے پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ انہیں اس بات پر بہت خوشی محسوس ہورہی تھی کہ ہم ماہنامہ''ہلال''کے لیے ان کے شہید بیٹے کی داستان قلمبند کرنے آئے ہیں۔
عتیق ربانی نے بتایاکہ معراج ربانی شہید 1986ء میں 28رجب کوبھکر شہر کے محلہ عید گاہ جنوبی میں پیداہوئے۔ والدنے اسی مہینے کی نسبت سے ان کانام معراج احمد ربانی رکھا۔بھکر شہر کے اس خاندان کے جد امجد معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ حافظ غلام محمد تھے۔اس خاندان کے بزرگوں نے بھکر کی سب سے قدیم عیدگاہ جنوبی اور اندرون شہر میں قدیم مسجد ابوبکر صدیق کی بنیاد رکھی ۔ حضرت خواجہ حافظ غلام محمد کا مزار مبارک بھی عید گاہ جنوبی کے احاطہ میں موجود ہے۔سپاہی معراج ربانی ایک مشہور دینی گھرانے سے بھی تعلق رکھتے تھے اور اس گھرانے نے فن پہلوانی میں بھی بہت نام کمایا۔آپ کے والد گرامی کانام غلام جیلانی پہلوان تھا ۔انہوں نے بھکر،میانوالی اور گردو نواح میں فن پہلوانی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔وہ ایک معروف پہلوان تھے اور ان کااپنااکھاڑ ہ بھی تھا۔علاقے کے پہلوان ان کا بے حد احترام کرتے اورانہیں استاد غلام جیلانی پہلوان کہہ کرپکارتے۔ 1995ء میں معراج شہیدکے والد استاد غلام جیلانی پہلوان کاانتقال ہواتوگھرکی ساری ذمہ داری شہید کے بڑے بھائی محمد عتیق ربانی پرآن پڑی۔انہوں نے بڑ ی محنت اورشفقت کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کی تربیت بالکل اپنے بچوں کی طرح کی۔عتیق ربانی بتانے لگے کہ معراج شہید بچپن سے ہی بہت دلیرتھا۔اس کے بہت سے واقعات ہیں، وہ شرارتیں بھی کرتالیکن اس کی شرارتیں کسی کو تنگ کرنے والی اورتکلیف پہنچانے والی نہیں تھیں۔وہ خود داربھی بہت تھا،ا س نے مجھ سے کبھی ایک روپیہ نہیں مانگا، والد صاحب کی وفات کے بعد وہ خود ہی چھوٹی موٹی محنت مزدوری کرتا اور تعلیم بھی حاصل کرتا۔ وہ سکول جاتا اور واپس آکر لکڑیاں جمع کرکے فروخت کرتا ، آٹے کی چکی پر بھی کام کرتا،وہ اپنے جیب خرچ کی خاطرایساکیاکرتاتھا ہم نے کبھی اسے مجبور نہیں کیاکہ وہ محنت مشقت کرے۔وہ اسی طرح پڑھتا بھی رہا اور ساتھ کام بھی کرتا رہا،اس نے انجمن پرائمری سکول سے پانچویں کا امتحان پاس کیااورگورنمنٹ ایم سی ہائی سکول بھکر سے میٹرک کاامتحان پاس کیا۔وہ اپنی مرضی کامالک تھا۔وہ ایسی شرارتیںکرتاتھاکہ ان میں بھی اس کی بہادری اور پھرتی کاعنصر نمایاںہوتا۔ فن پہلوانی میں بھی اس گھرانے کا ایک نام تھاتو معراج ربانی جب اپنے والد کے اکھاڑہ میں پہلوانوں کودیکھتا تواس کا بھی دل کرتا کہ وہ ایک پہلوان بنے ۔وہ بھی وزن اٹھاتا اور خوب ورزش کرتا ۔
معراج ربانی کے چچا محمد رمضان قمر نے 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان کے محاذپر حصہ لیا تھا،وہ جنگی قیدی بنے اور تین سال بھارت کی قیدمیں رہے۔سپاہی معراج ربانی اپنے بہادر چچا سے بھی بہت متاثرتھا، وہ اکثران کے پاس بیٹھ جاتا اور ان سے جنگ اور قیدکے حالات سنتا اور پھر کہتاکہ میں بھی چاچوکی طرح پاک فوج میں جائوں گااور جنگ میں حصہ لوںگا۔
یہ 2006ء کی بات ہے کہ معراج کے ایک دوست خضرخان بلوچ نے اسے بتایاکہ بھکرشہر میں آرمی کی ٹیم آئی ہوئی ہے اور نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیاجارہاہے۔خضربلوچ اسے اپنے ساتھ بھرتی کیمپ میں لے گیا۔شہیدکے بھائی عتیق ربانی کہنے لگے کہ :''جب میں گھرسے نکلاتو جی پی او کے پاس مجھے یہ دونوں جوان ملے ،یہ پسینے میں شرابور تھے ،میںنے پوچھا آپ لوگ کہاںگئے تھے؟ خضر بتانے لگاکہ ہم فوجی بھرتی کا ٹیسٹ دینے گئے تھے ،میں فیل ہوگیاہوں اورمعراج ربانی سلیکٹ ہو گیا ہے۔اس وقت معراج بہت خوش تھا ۔چند دن بعد اس کاکال لیٹر آگیا ، اس نے رخت سفر باندھا اور ایبٹ آبادمیں پاک فوج کے ٹریننگ سنٹر میں جا پہنچا ۔تربیت کے بعد اس نے 23بلوچ رجمنٹ جوائن کی۔سپاہی معراج نے ساڑھے سات برس میں لاہور،اوکاڑہ،بدین،بنوں اور کرم ایجنسی میں خدما ت انجام دیں۔کرم ایجنسی میں اس نے دو سال تک دہشت گردوںکے خلاف کئی معرکوں میں حصہ لیا ۔ جب وہ چھٹی آتاتو گھروالوں اور دوستوں کو لڑائی کے حیرت انگیزواقعات سنایاکرتا۔وہ آخری بار چھٹی آیا تو اس نے بہن بھائیوں اوروالدہ کوجنگ کے بہت سے واقعات سنائے ۔جب میں گھر آیاتومیں نے اسے کہا:''بیٹا آپ والدہ کو ایسی داستانیںنہ سنایا کرو کیونکہ وہ آخر ماں ہے ،جب آپ چلے جاتے ہیں تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو جاتی ہے''۔
محمد عتیق ربانی بتا رہے تھے کہ کیپٹن حسن مثنیٰ شہید،کیپٹن خرم جنجوعہ اورکیپٹن عبدالوہاب سپاہی معراج شہید کی بہت تعریف کرتے ۔کیپٹن حسن مثنیٰ شہید نے کہاتھا کہ معراج شہیدجیساجوا ن ہماری یونٹ میں نہیں ہے۔ایک مرتبہ معراج اورکیپٹن حسن مثنیٰ شہید نے عصر کی نماز اکھٹے پڑھی اورکیپٹن حسن نے معراج سے کہا کہ دعا کرو کہ اللہ ہمیں شہادت نصیب فرمائے۔پھر اسی رات کیپٹن حسن مثنیٰ شہید ہو گئے اور معراج ربانی بھی شہید ہو گیا۔شہید کے بہن بھائی بتانے لگے کہ معراج ربانی آخری چھٹی گزار کر 16 مئی 2013کو گھر سے کرم ایجنسی روانہ ہوااور31مئی2013ء کو ان کی شہادت ہوئی۔ روانگی سے قبل اس کا جذبہ بہت بلند تھا،اس نے ایک دن قبل اپنی بہت سی تصویریں اور ویڈیوز اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کیں۔فوجی یونیفارم اور مختلف اسلحہ کے ساتھ اس کی بہت سی تصویریں تھیں جو اس نے خود ہی فریم کروا کر اپنے ڈرائنگ روم میں آویزاں کردی تھیں۔
پاک فو ج کے افسروں اور جوانوں کی زبانی شہادت کی تفصیلات یہ معلوم ہوئیں کہ انہوںنے کرم ایجنسی میں دہشت گردوں کی ایک چوکی پر قبضہ کرنا تھا، رات بھر لڑائی جاری رہی۔دہشت گرد پیچھے ہٹ رہے تھے اور ہمارے جوان آگے بڑھ رہے تھے۔دہشت گرد مورچہ چھوڑ کر بھاگے تو معراج ربانی اپنے چار فوجی ساتھیوں کے ہمراہ اس مورچے کے اندر گیاتو دوسری جانب سے دہشت گردوںنے راکٹ فائر کیاجس کی زد میں آکر معراج کے چار ساتھی شدید زخمی ہوگئے۔محمدعتیق ربانی نے بتایا کہ معراج کے ایک ساتھی کمانڈو حبیب اللہ بھی تھے،میں ان سے منگلا کینٹ میں ملا۔حبیب اللہ نے تقریباًدوگھنٹے اپنی بہادری کی تعریفیں کیںکہ میں کرم ایجنسی میں ایسے لڑا اوریہ کارنامے انجام دیے لیکن میں حیران رہ گیا کہ انہوںنے کہا ربانی صاحب !آپ کا بھائی مجھ سے بھی زیادہ بہادر تھا۔وہ بتانے لگے کہ اس معرکے میں اتنی زیادہ گولیاں اور راکٹ چل رہے تھے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا،اگر ہم مورچے سے ذرا بھی باہرنکلتے تو دشمن کی گولیوںکانشانہ بن جاتے لیکن جب ہمارے چار ساتھی شدیدزخمی ہوئے اوران زخمیوں کی آوازیں آرہی تھیں تومعراج کہنے لگاکہ ہمیں اپنے ساتھیوں کو باہر نکالناچاہیے۔یہ کہہ کر وہ کرالنگ کرتے ہوئے مورچے کی جانب بڑھااوراس نے تقریباًایک گھنٹے کی بھرپورمشقت اور گولیوں کی بارش میں اپنے تین ساتھیوں کو بحفاظت باہر نکالا۔جب وہ چوتھے ساتھی کو اٹھانے گیاتو ایک گولی کی زد میں آگیا۔معراج شہیدکو پیٹ میں گولی لگی ، وہ گولی اس قدرکاری نہ تھی کہ اس سے موت واقع ہوجاتی لیکن چونکہ مورچہ دورتھا اور لڑائی بھی شدید تھی تو معراج کو بروقت طبی امداد نہ مل سکی۔ اس نے اپنا رومال اپنے پیٹ پر باندھ کر خون روکنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوااور اس کی شہادت واقع ہوگئی۔اسی غیر معمولی بہادری پر صدر پاکستان نے انہیں ستارہ بسالت سے نوازا۔
شہید کے بھائی عتیق ربانی بتانے لگے کہ : جب مجھے 23بلوچ رجمنٹ کرم ایجنسی کی جانب سے فون آیا کہ آپ کا بھائی شدیدزخمی ہے اور ہم اسے بھکر لارہے ہیں۔میں سمجھ گیا تھا کہ یہ مجھے تسلی دے رہے ہیں اور معراج جام شہادت نوش کرچکاہے۔میں نے پاک فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے صحیح بات بتادیں کیونکہ جو زخمی ہوتا ہے اسے ہسپتال منتقل کیاجاتا ہے گھر نہیںلایاجاتا ، پھر انہوں نے میراحوصلہ دیکھتے ہوئے بتایا کہ جی ہاں! آپ کے بھائی شہید ہوچکے ہیں۔ماں توپھر ماںہوتی ہے۔جب معراج ربانی کی شہادت کی خبر اس کی ضعیف والدہ تک پہنچی تو آنسوؤں کاایک سیلاب ان کی آنکھوں سے امڈ آیا لیکن انہوں نے روتے ہوئے کہا:'' اللہ تیرا شکر ہے کہ میں اب شہیدبیٹے کی ماں کہلائوں گی''۔شہید کے چھوٹے بھتیجے محمدعلی حمزہ نے بتایا کہ :''میرے چاچو بہت بہادر تھے، وہ میرے ساتھ بہت پیار کرتے تھے ، وہ میرے ایک اچھے دوست بھی تھے۔میر ی خواہش ہے کہ میں بھی اپنے چاچوکی طرح پاک فوج کا حصہ بنوں''۔
شہید کی والدہ اوران کے بہن بھائی کہنے لگے کہ معراج ربانی تو سارے گھر کی آنکھ کاتاراتھا۔جب بھی چھٹی آتابہن بھائیوں کے ساتھ خوب دل کی باتیں کرتا اور سینہ تان کر اپنے واقعات سناتا۔ہمیں صرف اپنے شہید بیٹے پر فخرنہیں بلکہ پاکستان کے ہر اس فوجی اورعام شہری پربھی فخرہے جس نے ملک کی خاطر اپنی جان قربان کی ۔ سپاہی معراج احمد ربانی شہید کاجنازہ اٹھاتو پورا شہر امڈ آیا۔عوام نے اور پاک فوج نے ہمیں اتنی زیادہ عزت دی کہ ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ آج پیارے بھائی کو جدا ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں لیکن اب بھی لوگ ہمیں نہیں بھولے۔پہلے ہماراگھرانہ صوفیائے کرام اوردین کے حوالے سے معروف تھا،فن پہلوانی میں بھی ہماراگھر نمایاںتھا اور اب اسے شہید کا گھرانہ بھی کہاجاتا ہے،یہ بڑااعزاز ہے جو ہمارے حصے میں آیاہے۔معراج ربانی نے اپنے وطن کی خاطر جان قربان کرکے بھکر شہر اور اپنے محلے کانام پورے ملک میں روشن کردیا ہے۔وہ صرف اپنے گھر اورخاندان کی ہی نہیں پورے شہر کی آبروتھا۔معراج ربانی شہید کی غیر معمولی بہادری پر انہیں23مارچ 2015ء کو ستارہ بسالت عطاء کیا گیا۔ یہ اعزاز شہید کے بھائی عتیق احمدربانی نے صدر مملکت ممنون حسین سے ایک پروقار تقریب میں وصول کیا۔معراج ربانی کو قبرستان عیدگاہ جنوبی میں اپنے والدکے پہلو میں سپرد خاک کیاگیا۔شہیدکے اہل خانہ نے بڑے جذبے کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کاخوبصورت مزار تعمیر کیاہے۔مزارکاشاندارگنبد اور اس پر لہراتا سبز ہلالی پرچم بہت دورسے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ||
مضمون نگار شعبۂ صحافت سے وابستہ ہیں اور ایک قومی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 382مرتبہ پڑھی گئی۔