جنگِ ستمبر 65 کے براڈ کاسٹر منظور قریشی کے حوالے سے خدیجہ محمود شاہدکی تحریر
منظور قریشی صاحب ریڈیو پاکستان ، پھر پاکستان ٹی وی کا ایک اہم ترین نام رہاہے۔ پاکستان ٹی وی سینٹر سے بطورجی ایم ریٹائر ہونے کے بعد ہم انہیں مختلف چینلزپر دیکھ رہے ہوتے ہیں ان کی پوری زندگی مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اپنے پروفیشن کے ساتھ ساتھ جس طرح انہوں نے شوبز میں نام بنایا اس کی مثال نہیں ملتی۔ہماری پرانی نسل منظور قریشی کو حسینہ معین کی معرکةالآراء سیریل کرن کہانی کے ہیرو کے طور پر جانتی ہے اور اس کے علاوہ باقی ڈراموں میں اداکاری اور ہدایت کاری کے لیے لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ منظور قریشی جنگِ ستمبر کے 1965 کے براڈ کاسٹراور غازی رہ چکے تھے۔ جیسے ہی مجھے یہ پتہ چلا بس قریشی صاحب سے ٹائم لیااور کریک کلب کی کافی شاپ چلے گئے۔
ان سے جو گفتگو ہوئی وہ ہلال کے قارئین کے لیے حاضر ہے۔
ہلال: جنگ ستمبرکے حوالے سے کون سی یادیں آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں؟
منظورقریشی 65 :سے پہلے آپ کو دوسال پیچھے جاناپڑے گا۔ کالج میںفنکشن میں ہوسٹ ہوتے ہیں تو میں کالج کے فنکشن میں ہوسٹ ہوا کرتا تھا۔ ایک بار مہمانوں میں ممتاز مرزا مرحوم بھی آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ دیکھنے میں اچھے لگتے ہو، بولتے اچھا ہو، کل ریڈیو آجانا میرے پاس، بس میں پھر اگلے دن ریڈیو میں چلا گیا اور تیسرے دن میں School Broadcast پروگرام کرنے لگا۔ نصاب میں جو پروگرام ہوتے تھے ان پر پروگرام کیاجاتا تھا۔ ہر پروگرام کے دس روپے ملتے تھے۔ ہفتہ وار ایک پروگرام ملتا تھا ہم خوش تھے۔ دو تین سال اسی طرح گزرے، ایک دن پتہ چلا کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔ اس دوران بلیک آئوٹ شروع ہوجاتا تھا۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ پروگرام کا ٹائم بڑھا دیاگیا ہے۔ میں اس وقت حیدر آباد کی بات کررہا ہوں۔ یہ اچھا خاصا ایشو بن گیاتھا۔ کیونکہ اس وقت جنرل آڈیشن ہو نہیں سکتے تھے۔سکیورٹی کلیئرنس کا وقت نہیں تھا تولہٰذاانہی لوگوں کو موقع دیاگیا جو اس وقت کام کررہے تھے۔ ان میں میں بھی شامل تھا یوں میں بھی انائونسربن گیا۔ انائونس منٹ کا بھی ایک خاص قسم کا لہجہ ہوتا ہے آپ کو چاق چوبند رہنا پڑتا ہے کیونکہ یہ وہی لہجہ ہے جو ایک عام شہری بھی سن رہا ہے اور خندق میں بیٹھا ایک سپاہی بھی، آپ کا لہجہ ہی بتا دیتا ہے کہ خبر کی نوعیت کیا ہے۔
جس زمانے میں ہمارے نیوز ریڈر انور بہزاد، شمیم اعجازاور شکیل تھے ان کا لہجہ تھا کہ''یہ ریڈیو پاکستان ہے، اب آپ خبریں سنیے، ہمارے چاق چوبند ہوا بازوں نے ٹھیک ٹھیک نشانے لگا کے دشمن کو پسپا کردیا۔''
ان کی آواز میں جذبہ ہوتا تھا رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔ پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا لیکن پھر بھی لوگ چوکنے ہوتے تھے، دن میں ہم نکلتے تودیکھتے تھے کہ لوگوں نے فوجی بھائیوں کے لیے تحائفاکٹھے کیے ہوئے ہیں، دالیں ، آٹا چینی، پتی ، بسکٹ ، پھر محاذ پر یہ چیزیں بھیجی جاتی تھیں۔
ستمبرکی دوپہر گرم اوررات ٹھنڈی ہوتی ہے، شہروں میں سے رضائیاں، کمبل، کھیس یہ سبمتعلقہ حکام کو پہنچا دیے جاتے تھے۔
جتنے دن کی جنگ تھی ان دنوں کہیں کوئی چوری ڈکیتی کوئی لوٹ مار نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر شخص زمین کے ایک ایک ذرے کا محافظ ہے۔
ہلال: سر آپ کا اندازِ تخاطب کیا تھا۔
منظور قریشی : یہ ریڈیو پاکستان حیدر آباد ہے۔
ہلال: تو سر نام نہیں بتاتے تھے؟
منظورقریشی : نہیں، نام آخر میں بتاتے تھے۔میں نغمے سنواتا تھا اور ایک نغمہ تو لوگ فرمائش کرکر کے سنتے تھے۔''جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی۔''
فوجی بھائیوں کے لیے تحائف کا ڈھیر لگا رہتا تھا۔ہر شہری حصہ لے رہا تھا۔خاص طور پر دوبڑے واقعات ہیںایک توجب دوار کا پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا تھا ۔( یہ بتاتے ہوئے منظور صاحب خود تو خاموش ہوگئے لیکن آنکھوں نے وہ کہانی بیان کردی کہہمارے سپوتوں نے ثابت کریا کہ ایمان کی قوت ہو، قوم کی دعائیں ہوں تو پھرہمیں کوئی مات نہیں دے سکتا)
انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہاں فوراً تصویریں بھیجنے کا رواج نہیں تھا اور پھر 7 ستمبر معرکوں کا معرکہ جب ایم ایم عالم نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے 5جہاز مارگرائے۔ منظور صاحب کے لہجے میں اس وقت جوش اور آنکھوں میں جذبات سے لبریز آنسو تھے اس ہیرو کے لیے۔ جو جشن منائے گئے تھے، مٹھائی کی دکانیں خالی ہوگئیں، راہ گیر خرید کر بانٹ رہے تھے۔ یہ دل کی خوشی تھی۔
ہلال: تو اس وقت آپ کے کیا احساسات تھے، جب آپ یہ خبر سنا رہے تھے؟
منظور قریشی: میں جب بھی ریڈیو سٹیشن سے پروگرام کرکے نکلتا تھا توایسے محسوس ہوتا تھا کہ ایک محاذ تو میں بھی فتح کرکے آیا ہوں۔
عوام کو بھی یہی پیغام دیناچاہتا ہوں کہ آپ کا حصہ ختم نہیں ہوا جیسے سرحدوں پر افواج کے لوگ کبھی آسمانوں میں کہیں پانیوں میں آپ کی حفاظت کررہے ہیں اس سے دو گنی ذمہ داری آپ پربھی ہے۔ ||
مضمون نگارمیڈیا سائیکالوجسٹ اور رائٹر ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 168مرتبہ پڑھی گئی۔