قومی و بین الاقوامی ایشوز

ہر پاکستانی رد الفساد کا سپاہی

22فروری سے آپریشن رد الفساد ملک بھر میں جاری ہے۔فسادیوں اور ان کے سہولت کاروں پر کاری ضرب لگانے کے لئے جس آپریشن کا آغاز کیا گیا اس کے ابتدائی مراحل کے ثمرات پاکستانی عوام کو ملنا شروع ہوگئے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات اچانک بڑھ گئے تھے جو اب بہت حد تک ختم ہو گئے ہیں۔ جس کے پیچھے پاک فوج‘ انٹیلی جنس اداروں، پولیس اور رینجرز کی شب و روز کی محنت کارفرما ہے۔


آپریشن رد الفساد کے تحت فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بارڈر مینجمنٹ، ملک سے ناجائز اسلحے اور بارودی مواد کا خاتمہ، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور دہشت گردوں اور خارجیوں کی کمین گاہوں کے خاتمہ پر بھی مثبت پیش رفت جاری ہے۔
آپریشن رد الفساد کے آغاز میں ہی دو مزید چیزیں سامنے آئیں جن سے فوج نبرد آزما ہے وہ ہے انتہا پسندی اور افواہ سازی۔ سوشل میڈیا پر جعلی سرکلر کے ذریعے یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ پنجاب میں پشتونوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ہمارے خودساختہ دانشور بنا کسی تحقیق کے اس سرکلر کو اچھالتے رہے اور دو صوبوں کے درمیان نفرت کو ہوا دیتے رہے۔ہمارے کچھ میڈیا کے بہن بھائی جن کے پاس خبروں کی کمی ہوتی ہے وہ بھی جعلی خبروں کو اچھالنا شروع ہوگئے۔


بعد ازاں یہ بھی پتہ چل گیا کہ سرکلر جعلی ہے پھر بھی پنجاب پولیس نے معذرت کی۔ لیکن اس جعلی سرکلر کی آڑ میں پاکستان اور پاکستان کے عسکری اداروں پر بے تحاشہ کیچڑ اچھالا گیا۔
یہ واقعہ یہاں پر اس بات کو عیاں کرگیا کہ جنگ اور آپریشن اب صرف زمین پر نہیں ہوتے بلکہ جنگیں اب سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاپر بھی لڑی جارہی ہیں۔کسی بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرتے وقت یہ بات پیشِ نظر رکھی جائے کہ اس کے مخالف سوشل میڈیا اور دوسرے میڈیا پر کیا کہا جا رہا ہے؟ تنقید برائے تنقید اور ملک کو بدنام کرنے کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ان کے پیچھے کون سی لابی ہے؟ فنڈنگ کہاں سے آتی ہے؟ اس پر بھی ایک رد الفساد کی اشد ضرورت ہے۔


دوسرا اہم پہلو جو رد الفساد کے آغاز کے بعد سامنے آیا وہ ہے انتہا پسندی۔ جوکہ ہمارے معاشرے میں موجود تو پہلے سے ہے لیکن اب اس کا استعمال دہشت گردوں نے منظم طریقے سے شروع کردیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں دہشت گردوں کی مبینہ ساتھی نورین لغاری کی ویڈیو جاری کی۔ جس کو دیکھ کر ہر پاکستانی ماں اور باپ ورطۂ حیرت میں آگئے کہ ہمارے بچے تعلیمی اداروں سے کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں۔نورین لغاری کے والد پروفیسر‘ وہ خود میڈیکل کی طالبہ کیسے دہشت گردوں تک پہنچ گئی۔ یہاں پر ذمہ داری فوج یا حکومت پر نہیں والدین پر عائد ہوتی ہے۔فوج نے تو اس کو بازیاب کروایا‘ اس کی بحالی پر کام چل رہا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی طرف مائل ہوگئی اور والدین غافل رہے۔


فوج کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ ہر گھر یا یونیورسٹی میں آکر دیکھے کہ ہماری نئی نسل اپنے فون یا لیپ ٹاپ پر کیا کررہی ہے؟ ان کے فیس بک فرینڈز کون ہیں؟ وہ ٹویٹر پر کس کس کو فالو کرتے ہیں؟ان کے دوست احباب کون ہیں؟ ان کے اساتذہ کس طرح کے خیالات کے مالک ہیں؟کیا رد الفساد میں بحیثیت پاکستانی ہم سب کا فرض نہیں بنتا کہ اپنا اپنا حصہ ڈالیں؟ کیا پاک وطن کے دفاع کے لئے میرا آپ کا فرض نہیں بنتا کہ ہم اپنے اردگرد دہشت گردی اور انتہا پسندی کو رپورٹ کریں؟ جہاں تک ہوسکے اس کا سدباب کرنے کی کوشش کریں؟

 

آپریشن رد الفساد کے تحت فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کررہے ہیں۔
آپریشن رد الفساد کی ایک اور بڑی کامیابی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور کالعدم جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ہتھیار ڈالنا ہے۔اپنے اعترافی بیان میں احسان نے طالبان کی حقیقت کو عیاں کردیا ہے طالبان کوئی اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہے وہ کرائے کے قاتل ہیں اور اس وقت را اور این ڈی ایس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔انہیں بھارت اور افغانستان سے بھاری فنڈنگ دی جاتی ہے جس کے بعد وہ پاکستان میں آکر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہے ۔یہاں تک کے طالبان پاکستان کے خلاف اسرائیل سے بھی مدد لینے کو تیار تھے ۔ایک اور خوفناک انکشاف جو احسان اللہ احسان نے کیا وہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر طالبان اسلام کی غلط تشریح کرتے رہے اور نوجوانوں کو بھٹکایا۔اس اعتراف یہ بات مزید عیاں ہوگی کہ ہمارے دشمنوں اور دہشت گردوں کا مین ہدف اب ہماری یوتھ ہے۔وہ انہیں ورغلا کر پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔


فوج اپنی جنگی ڈاکٹرائن کے تحت کامیابی کے ساتھ ردالفساد آپریشن کررہی ہے۔اس سے پہلے ہونے والے ملٹری آپریشنز، المیزان، راہ راست،راہ نجات اور ضرب عضب خالصتاً فوج نے لڑے۔لیکن رد الفساد میں عوام کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا انہیں اسلحہ نہیں اٹھانا، انہیں خود فیصلے کرکے ہجوم کا انصاف نہیں کرنا، انہیں صرف اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہیں۔ اپنے بچوں پر نظر رکھنی ہے کہ ان کے دوست کون ہیں اور وہ اپنا جیب خرچ کہاں صرف کررہے ہیں۔اگر ان کے رہن سہن میں بدلاؤ دیکھیں تو ان سے بات کریں انہیں ماہر نفسیات کو دکھائیں۔ان کو راہ راست پر لائیں۔


مکان کرائے پر دیتے وقت نادرہ کا شناختی کارڈ طلب کریں۔اس کی قریبی نادرہ سینٹر سے تصدیق بھی کروائیں کہ اصلی ہے یا جعلی۔ملازم رکھتے وقت اس کے کوائف کی بھی تصدیق کروائیں۔کسی کو گاڑی کرائے پر دیتے وقت لائسنس اور شناختی کارڈ کی کاپی اپنے پاس رکھیں۔اپنا شناختی کارڈ دیتے وقت اس پر لکھ دیں کس مقصد کے لئے آپ یہ شناختی کارڈ دے رہے ہیں۔کسی بھی شخص، رشتہ دار یا عزیز کو اپنے شناختی کارڈ پر سم خرید کر نہ دیں۔آپ کی کم فہمی سے کہیں ایسانہ ہوکہ آپ دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہوجائیں۔


فسادی اب فساد کا بیج ہمارے تعلیمی اداروں میں بو رہے ہیں۔عسکری طور پر شکست کے بعد اب ان کا ٹارگٹ ہمارے بچے ہیں جنہیں وہ برین واشنگ کرکے ورغلا رہے ہیں۔تعلیمی اداروں میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے لئے جامعات میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہونا چاہئے۔ وہاں پر سیاسی جماعتوں کے ونگز پر پابندی عائد کی جائے، اسلحے کی ممانعت ہو، درس گاہوں کی انتظامیہ اور اساتذہ کے لئے بھی قوانین مرتب کئے جائیں جس کے تحت نہ تو وہ دائیں اور نہ ہی بائیں بازو کی انتہا پسندی کو فروغ دے سکیں۔نصاب میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ 1980 کا نصاب 2017 میں پڑھانا زیادتی ہے۔ دنیا بدل چکی ہے ہم ٹریکٹر کے چار پہیوں میں پھنسے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کے درمیان ہر ماہ میٹنگ رکھی جائے تاکہ طالب علم کی کارکردگی سے اس کے والدین آگاہ رہیں۔بچوں کے بڑے ہو جانے کا مطلب یہ نہیں کہ گھر والے ان کی سرگرمیوں سے غافل ہو جائیں۔


فوجی اپنا کام کررہے ہیں، لیکن، کیا آپ اپنا کام کررہے ہیں؟کچھ فسادی سوشل میڈیا پر ہر وقت پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ہر محب وطن پاکستانی کا بھی فرض بنتا ہے کہ جواب دلیل اور حقائق کے ساتھ دیں۔سوشل میڈیا پر بیٹھے یہ فسادی طالبان اور داعش سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔یہ دہشت گردعالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔اگر ان کے خلاف کارروائیاں نہ کی گئیں تو وہ پاکستانی ریاستی اداروں کو مزید متنازعہ بنا کر پیش کرتے رہیں گے۔پاکستانی بلاگرز اور انٹرنیٹ سٹارز کو چاہئے کہ وہ اپنے کام کے ذریعے سے ملک میں اعتدال پسندی اور پاکستانیت کو فروغ دیں۔


سیاستدان بھی ایک دوسرے کے خلاف سیاسی چپقلش میں نوجوان نسل کو استعمال نہ کریں۔نوجوان ملک کا ساٹھ فیصد ہیں انہیں تعلیم، ثقافت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کی طرف راغب کریں۔شعرائے کرام، فلم، ڈرامہ نگار، ادیب اور دانشور انتہاپسندی کے خلاف لکھیں اور ملک سے محبت کا کلام لکھیں۔صحافیوں کو بھی چاہئے کہ وہ مثبت خبروں پر کام کریں ہر وقت منفی خبریں دیکھنا بھی ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔


عوام سے گزارش ہے چندہ دیتے وقت یہ خیال رکھیں کہ آیا آپ ان پیسوں سے فلاحی کام ہی کررہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے ہم وطنوں کے خلاف استعمال ہونے والی گولی خرید رہے ہیں۔دہشت گردوں، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان، ملا فضل اللہ، مجلس الاحرار، داعش اور لشکر جھنگوی کو بہت بڑی فنڈنگ بھارت سے مل رہی ہے۔ان پیسوں سے یہ سہولت کار خریدتے ہیں۔ سہولت کار بارڈر پار سے نہیں آتے، یہیں موجود ہیں۔کچھ لوگ تو سادہ لوحی میں اور کچھ پیسوں کے لالچ میں ایسا کر جاتے ہیں۔مقامی لوگ دہشت گردوں سے ہوشیار رہیں اور اپنی ہی دھرتی کے خلاف استعمال نہ ہوں۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے اور ہمیں مل کر فسادیوں سے اپنا ملک پاک کرنا ہوگا۔ تو آئیے مل کر اپنی فوج کا ساتھ دیں اور ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد رکھیں۔


مضمون نگار صحافی اور فوٹوگرافر ہیں اور ’سانحہ آرمی پبلک سکول شہداء کی یادداشتیں‘ کتاب کی مصنفہ ہیں ۔
Twitter @javerias

یہ تحریر 910مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP