ہلال نیوز

پاک فوج کے زیرِ انتظام 'تھر' میں واٹر سپلائی لائن منصوبے کا آغاز

صحرائے تھر کے باسیوں کے لئے قحط سالی، تپتی دھوپ اور کچی جھونپڑیوں میں زندگی گزارنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کا مسئلہ صرف غربت نہیں 'پانی' بھی ہے۔ تھر میں ہزاروں لاکھوں کنویں کھود دینا اس مسئلے کا شاید حل نہ ہو، زیر زمین پانی زیادہ تر جگہوں پر کڑوا ہے، بارشیں نہ ہوں تو یہ کنویں خشک ہوجاتے ہیں، بارشیں ہوجائیں تو بھی ایک کنواں چار یا چھ ماہ میٹھا پانی دیتا ہے۔ تھر میں پانی کے مسئلے کا حل صرف نہروں اور واٹر سپلائی لائینوں کے ذریعے تھر کے گوٹھوں اور ڈھانیوں تک پانی مہیا کیا جانا ہے۔ تھر میں سانس لیتی زندگیوں کی پیاس بجھانے کے لئے پاکستان آرمی نے 2003 میں "واٹر سپلائی لائن" کا منصوبہ شروع کیا۔ ریتلے اور ناہموار علاقے میں واٹر سپلائی لائن کو بچھانا، نا موافق زمین پرپکے واٹر پوائنٹ بنانا، اور ہر واٹر پوائنٹ سے منسلک پمپنگ سٹیشن و مشینری کی دیکھ بھال اور عام راستوں سے بہت دور گوٹھوں تک پانی پہنچانا مشکل کام تھا۔ پاکستان آرمی کی پانچویں کور کی بہترین منصوبہ بندی سے اٹھارہ ڈویژن کے زیر کمان بدین اور چھور کینٹ کے افسروں اور جوانوں کی کور ہیڈ کوارٹرز کے منصوبے پر انتھک محنت سے واٹر سپلائی لائن کا یہ منصوبہ نہ صرف مکمل ہوا ہے بلکہ ہر سال اس میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ سپلائی لائن کی کل لمبائی 1252 کلومیٹر ہے۔ جس میں 128 واٹر پوائنٹس ہیں۔ اس منصوبہ سے یومیہ0.646 سے1.3 ملین پانی تھرکے باسیوں کو سپلائی کیا جاتا ہے جس سے ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افراداور بے شمار مویشی مستفید ہوتے ہیں جو تھر کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں۔

چھورسے پرچی جی ویری اور پھر کھوکھرا پار تک 499 کلومیٹر کی یہ سپلائی لائن سینکڑوں گوٹھوں اور دو لاکھ سے زائد افراد کو پانی مہیا کرتی ہے عمر کوٹ سے نملا525 کلومیٹر، چھاچھرو سے کانٹیو اور واڑی 160 کلومیٹر اور بدین سے سنی گنی اور رحیم کی بازار 21 کلومیٹر کی یہ سپلائی لائن لاکھوں تھر کے باسیوںمیں زندہ رہنے کی اُمید پیدا کرتی ہے۔ واٹر سپلائی لائن کے شروع میں موجود پوائنٹس پر آرمی کے جوان انتظامی امور سرانجام دیتے ہیں اور ہر واٹر پوائنٹ پر انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال، مشینوں اور جنریٹر کو چلانے کے لئے مقامی افراد کو ملازمت پر رکھا گیا ہے۔ فوجی جوان اور واٹر سپلائی لائن سے وابستہ دیگر افراد دن رات اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔ بلاشبہ یہ منصوبہ پاک فوج کی انتھک کاوشوں اور مقامی آبادی کے جذبۂ خیرسگالی سے ہی ممکن ہوپایا ہے۔

یہ تحریر 659مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP