وہ کالج سے واپسی پرحسبِ معمول چائے والے ڈھابے پر بیٹھ کر دوستوں کا انتظام کررہا تھا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے باہر ہلکی ہلکی رِم جھم بارش سے اس کے اندر ایک مترنم سا احساس تھا کہ اچانک ساتھ بیٹھے دو تین عمررسیدہ لوگوں کی گفتگو اس کے کانوں کے پردے سے ٹکرائی ' حسنِ ماضی سے جو لپٹا ہے وہ سودائی ہے۔'
یہ سن کر اس نے اپنی توجہ وہاں مبذول کی۔ بظاہر جو کم پڑھے لکھے معلوم ہو رہے تھے۔ وہ لوگ پڑوسی ملک کی اسلام دشمنی ، مسلم کش قوانین اور ہندو انتہا پسندی کو زیرِ بحث لائے ہوئے تھے۔ جس مجلس کو وہ حقیر سمجھ رہا تھا کم از کم ان کا موضوعِ بحث بظاہر اُس کے اپنے ہونہار طالب علموں سے تو بہتر تھا۔
اس موضوع پر جو بحث ہو چکی تھی جو دلائل دیے جاچکے تھے وہ تو نہیں سُن سکا لیکن ایک صاحب نے جب دلیل پیش کی کہ وہاں جو بھی ہوجائے ایک ہندو بنیا ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ دیکھو تو ہم نے کتنے سال ان پر حکومت کی۔ منگولوں سے لے کر افغانوں تک تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اُن کو کتنی دفعہ ان کے ناپاک عزائم سمیت زیر کیا۔
مثال ہے بابری، اکبری اور غوری دور۔ پھر یہ لوگ اس وقت سے ہمارے ساتھ رہ رہے تھے، اتنے برسوں سے کوئی مسئلہ نہیں تھا جس کے جواب میں دوسرے صاحب نے صرف یہ بولا کہ ہمیں اپنے اندر کے دشمنان سے نہ صرف باخبر رہنا ہوگا بلکہ اس خوابِ غفلت سے جاگ کر آنے والے وقت کی تیاری بھی کرنی ہوگی۔ ان کا خیال تھا کہ حسنِ ماضی سے لپٹ کر آرام کرنے یا آہ بھرنے سے بہتر ہے کہ ہم آنے والے مشکل دور کے لیے کم از کم اپنے آپ کو مضبوط کرلیں۔ جب تک اپنادفا ع نہیں کرسکیں گے تو کسی اور مظلوم کے لیے کیاآواز اٹھا ئیں گے۔
یہ بحث سن کروہ دوستوں کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔ ہر رات کو ایک عجیب کیفیت رہی ایک بحرِ تلاطم خیالات کا تھا جو اس کو سونے نہیں دے رہا تھا۔ حسنِ ماضی جو لے کر ساتھ چلنا بھی ہے اور حسنِ مستقبل کی تمنا رکھ کر جو اب حال میں کرنا ہے وہ کیا ہے۔ یہ جو خوابِ غفلت ہے اس سے کیسے جاگنا ہے۔۔۔؟
یہ خواب ہے یا حقیقت؟
سوچ سوچ کر اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔
وہ خواب دیکھ رہا ہے کہ وہ ایک بحری جہاز میںہے، ساتھ والے جہاز کو سمندری قزاق (ڈاکو) لوٹ رہے ہیں۔ اس کو خیال آتا ہے کہ کیوں نہ ہم ان کی مدد کریں۔ کچھ لوگوں کے ساتھ وہ مشاورت کرکے ارادہ محکم کرتے ہیں۔ اور جب باہر آکر دیکھتے ہیں تو ان کے اپنے جہاز کے لوگ یہ فیصلہ کرچکے ہوتے ہیں کہ ہم جہاز کوکسی خشکی جو کہ پاس ایک جزیرے کی صورت نظر آرہی ہے، کے ساتھ لنگر انداز کرتے ہیں اور صبح اپنے بادبان کَس کرآئندہ کسی حملے کے لیے تیار رہیں گے۔
یہ لوگ لنگر انداز ہوجاتے ہیں۔ جزیرے پر رات کو انتہائی سردی تھی۔ کچھ لوگ جزیرے پر ادھر ادھر بکھر گئے ۔صبح دیکھا تو سردی سے بچنے کے لیے کچھ لوگ اس چھوٹے سے جہاز کے بادبان کاٹ کر لحاف بنا چکے تھے اور کچھ نے اس کی لکڑیوں کو توڑکر چھوٹی کشتیاں بنا رہے تھے کہ بادبان تو باقی رہے نہیں۔
جب جہاز ہی نہ رہا تو محافظوں کے عملے کا کیا کرنا تھا۔ ان محافظوں اور باقی عملے کے ساتھ اس کو بھی لوگ چھوڑ کر اپنی چھوٹی چھوٹی کشتیاں پانی میں ڈال کر اس بحرِ تلاطم میں قزاقوں سے گزرنے کا ارادئہ خستہ رکھتے تھے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کو روکے، اس نے چلانا شروع کردیا اورپھر اُس کی آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب تھا یا حقیقت کا آئینہ۔
جاگ کر بھی جاگ نہ سکے یہ جانتا تھا وہ۔
اس نے سوچا اب وہ سفینۂ جاناں کی حفاظت کے لیے کیا کرے۔۔۔؟
کیا اور کیسے لوگوں کے دکھوں کا درمان بنے۔۔۔۔
یا محافظوں کی صف میں جا کر کھڑا ہو۔۔۔
بادبانوںکی حفاظت کیا ہے اور کیسے کرے۔۔
کیسے لوگوں کو اپنی چھوٹی کشتی کے لیے سفینہ ٔ جاناں پاش پاش کرنے سے روکے۔۔۔؟
اس کہانی کا اختتام سب سوالوں کا جواب شاید ایک ہی تھا۔ اس سفینۂ جاناں کو جان سمجھ لینا اور ہر حال میںہم، رہنا کیونکہ یہ جو اس کہانی کا وہ تھا وہ میں ہوں اور جب تک یہ سب میں، تم اور وہ ایک ہم نہ بنیں گے تو ہم ڈوب جائیں گے اور ڈوبنے سے پہلے اگر سب ایک ہم بن گئے تو۔۔۔
حسنِ ماضی کی یاد کے ساتھ حسین مستقل کی تمنا بھی جاگتی رہے گی۔ ||
یہ تحریر 697مرتبہ پڑھی گئی۔