قومی و بین الاقوامی ایشوز

بین المذاہب ہم آہنگی۔ سازش یا وقت کی اہم ضرورت

ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جو ہربار ہمیشہ ہر بلند آواز یا ہر نئی کوشش کو’ اپنے‘ اسلام کے لئے خطرہ ہی سمجھتے ہیں جن کے خیال میں بین المذاہب ہم آہنگی یا مکالمہ ایک ایسی شاطرانہ اختراع یا ایک ایسا نیا دین گھڑنے کی بھونڈی سی کوشش ہے۔ جس کا شریعت میں کوئی بھی تصور موجود نہیں۔بین المذاہب ہم آہنگی کی پُرفریب اصطلاح سے نہ تو کوئی سے دو مذاہب کے درمیان معاہدہ مراد ہے، نہ مناظرہ، نہ مباہلہ، نہ دعوت و تبلیغ بلکہ مکالمے یا ہم آہنگی کا کھیل سوائے ایک نئے فتنے کے اور کچھ نہیں ۔ ہادی برحق محمدﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ میری اُمت میں مسلمانوں کے اندر ایک گروہ ہو گا، جو عیسائیوں سے دوستی کرنے کے جنون میں اُن کے کے نقش قدم پر چلنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرے گا اور آج ہم اُس گروہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے عیسائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود دیکھ رہے ہیں۔


اور دوسرے‘ ہم میں کچھ لوگ وہ ہیں جن کے خیال کے مطابق بین المذاہب ہم آہنگی کا مطلب کبھی بھی ایمان لانا یا یہودو نصاریٰ کے ساتھ ہر اختلاف کا خاتمہ کر کے دوستی کرلینا نہیں ہوتابلکہ ہم آہنگی کے فروغ کی کوششوں کا مطلب اختلاف کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنا ہوتاہے اور ایک د وسرے کو جاننے اور سمجھنے کے بعد مل جل کر رہنے کی کسی سبیل پر اتفاق رائے کرنا ہوتاہے او ر خاص طور پر آ ج جب ہماری بہت بڑی دنیا ، بہت چھوٹی دنیا میں سکڑ چکی ہے، اب اس چھوٹے سے گلوبل ویلج میں بین المذاہب ہم آہنگی بنائے رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے ہر سطح پر مکالمہ کرنا تمام انسانوں اور تمام مذاہب کی ضرورت بن چکی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب ہماری دنیا بہت تیزی کے ساتھ صرف دو بلاک مسلم ورلڈ اور نان مسلم ورلڈ میں تقسیم ہوتی دکھائی دیتی ہے، جس کی وجہ سے مسلم بلاک کے حق میں توازنِ طاقت تیزی سے بگڑتا جا رہا ہے اور بین الاقوامی صورتحال اس حد تک گھمبیر ہو چکی ہے کہ کوئی ایک واقعہ باقی تمام دنیا کو مسلم دنیا کے مخالف لا کر کھڑا کر سکتا ہے اور مسلم ورلڈ کے لئے ایک ایسے ناقابلِ تلافی نقصان کی وجہ بن سکتا ہے، جسے پاٹنے میں ہماری آنے والی نسلوں کی صدیاں لگ سکتی ہیں۔کیا یہ سب آنکھوں کے سامنے موجود تلخ حقیقتیں ہم سے یہی تقاضہ نہیں کرتیں کہ اِس صورتحال سے نکلنے کے لئے سوچنا، سمجھنا اور پھر ایک روڈ میپ تیار کرنا سب سے پہلے ہم مسلمانوں کی ہی ضرورت ہے؟؟


اور تیسرے ‘ہم میں وہ لوگ ہیں، جن کے خیال کے مطابق یہ صرف ایک موضوع ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے لئے ایک بڑا چیلنج بھی ہے انہوں نے جہاں ایک طرف اپنے روشن دلائل سے اُن حجتوں، مکروں اور نفرتوں سے بھرے لوگوں کو بھی لاجواب کرنا ہے ، جو قرآن و سنت پرعمل پیرا ہونے کے بجائے اپنے صدیوں پرانے بزرگوں کی فکر سے آگے پیچھے نکل کر کچھ بھی دیکھنے، سوچنے پر تیار نہیں ہوتے اور ہر بلند آواز یا کوشش کو ’اپنے‘اسلام کے لئے خطرہ سمجھ کر شور مچا دیتے ہیں، گھات لگا لیتے ہیں، مرنے یا مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے اہلِ کتاب کو اپنے مقام پر اور ہم سے صرف اولادِ آدم کا رشتہ رکھنے والے باقی تمام انسانوں کو اپنے مقام پر اُن ادھورے سوالات کے بھی جواب دینے ہیں، جن کے جواب پانے کے لئے جدید دور کی انسانیت تڑپ رہی ہے، سسک رہی ہے کیونکہ جدید دور کی ترقیاں زندگی، موت اور پھر زندگی کے تصور سے تعلق رکھنے والے بنیادی سوالات کو آسان کرنے کے بجائے مشکل کرتی جا رہی ہیں اور یہ چیلنج تنگ دائروں میں قیدکوئی مسلمان کبھی قبول نہیں کر سکتا، اِس چیلنج کو تو وہی مسلمان قبول کر سکتا ہے ، جو ربُّ العالمین کا بندہ اور رحمت اللعالمین ﷺکا اُمتی بن کر دیکھ، سوچ اور محسوس کر تے ہوئے پوری انسانیت کو اسلامی تعلیمات کی آغوش میں لانے کی فکر کرے۔


جس اُمت نے باقی انسانوں کے معاملات دستور کے مطابق طے کرانے تھے، وہ آپس میں ہی ہر ہم آہنگی اور مکالمے کی نعمت سے محروم ہو کر بیٹھ گئی اور ایک دوسرے کو ہی کافر، بدعتی یا مُرتد ثابت کرنے کے لائق رہ گئی اور یہ بھی بین المذاہب ہم آہنگی سے دوری ہی کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے جس اُمت کو تمام انبیاء اور تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا پابند کیا جا رہا ہے، وہ اُمت تفرقہ بازی میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کے فرقوں کی مقدس ہستیوں کا نام احترام سے لینے کی صلاحیت سے محروم ہو کر رہ گئی۔ خود ہادی برحق محمد مصطفیؐ کی سیرت مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ اگر اپنی گفتگو میں پانچ مرتبہ یہود و نصاریٰ کا ذکر کرتے تھے تو اُس میں سے تین مرتبہ ان کو اہلِ کتاب کہہ کر مُخاطب کرتے تھے حالانکہ اُس دور میں یہی یہودو نصاری خانہ کعبہ میں بت رکھ کراُن کی پوجا کیا کرتے تھے، بالکل برہنہ ہو کر اُن کے سامنے ناچا کرتے تھے اور کائنات کے سب سے پاک لوگوں کی جماعت پر ظلم و ستم کی انتہا کر دیا کرتے تھے لیکن ان تمام مظالم اورزیادتیوں کے باوجود امن، فلاح و سلامتی کے پیغمبر نے کبھی اگر ان کو مشرک، کافر یا یہود و نصاریٰ کہا تو اِس سے زیادہ مرتبہ اہلِ کتاب کہہ کر بھی مُخاطب کیا تا کہ ہم آہنگی بھی بنی رہے۔اور خاص طور پر اُس مکالمے کی گنجائش بھی باقی رہے ، جس میں مسلمان باقی تمام مذاہب کے لوگوں کا دھیان اُس ’’ایک اللہ‘‘ کی طرف دلاتا ہے جو علم و حکمت سے لبریز رب انسانوں سے صرف کتاب کے ذریعے ہی بات کرنے کا عادی ہے۔ کاش آج کا مسلمان تصور کرے کہ ہمارے نبیﷺ جو کہ قرآن کی عملی تفسیر ہیں مکہ میں کھڑے ہو کر اہلِ کتاب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں : اے اہلِ کتاب آؤ اُس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں، کسی شے کو اس کا شریک قرار نہ دیں اور نہ ہم میں سے کوئی اللہ کے بجائے دوسرے کا پیدا کرنے والا بننے کی کوشش کرے۔


یہ وہ پکارِنبوت تھی، جس نے دنیا کی ہر باطل قوت کو لرزا کر رکھ دیا تھا ،یہ ہم سب کے جان سے پیارے نبیﷺ کا اندازِ گفتگو تھا، جس کا تجربہ اللہ کی کتابیں تھام کر گھومنے والوں کو کبھی نہ ہوا تھا۔پھر اس پاک کام کی مخالفت کرنے والوں کے خیال میں ہمارے نبی ﷺ کی یہ پکار، یہ اندازِ گفتگو اور یہ دعوتِ ہم آہنگی اور مکالمے کی ابتدا نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ کاش ہمارے علماء حق اور بزرگانِ دین نے بروقت اِن ضد، نفرت سے بھرے’’ علماءِ سُو‘‘ کو بھی اللہ اور رسول اللہ کی سنت کے مطابق یہود و نصاریٰ کو پانچ میں سے تین مرتبہ اہلِ کتاب کہنے پر مجبورکیا ہوتا تو ہم مسلمان کبھی بھی آپس میں ایک دوسرے کو مُرتد، منافق، بدعتی یا لبرل فاشسٹ ثابت کر کے ایک دوسرے کے قتل خود پر حلال کرنے کا سوچ بھی نہ سکتے لیکن افسوس جس اسلوبِ گفتگو کو ہم اہلِ الکتاب کے مقام پر باقی نہ رکھ سکے، اُس کو آگے چل کر ہم آپس میں اپنے اختلافات میں بھی قائم نہ رکھ سکے اور القرآن کے ذریعے انسانوں کو اندھیرے سے نور کی طرف نکالنے والی اُمت، خود ہی گھپ اندھیروں میں بھٹکتی آنکھوں کے سامنے ہے اور و جہ یہی تفرقہ بازی، جس نے ہمیں ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے میں اتنا مصروف کر دیا کہ ہم باقی دوسرے فرائض سے غافل ہوتے چلے گئے ، جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے کے کئی علمی و فکری شعبوں میں زوال کی طرح بین المذاہب مکالمہ بھی تحقیق و جستجو سے محروم رہا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تحقیق کی جگہ اندھی تقلید کرنے والوں نے لی اور پھر اندھی تقلید کرنے والوں کی جگہ دین میں زبردستی کرنے والوں نے لے لی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اِس معاملے میں آزادی عطا کی ہے کہ وہ جو چاہے ، دین اختیار کرے، اپنی پسند کا دین اپنانے کا اختیار دینا اسلامی تعلیمات کا وہ منفردضابطہ ہے جو ایک طرف انسانوں کو خوب اچھی طرح سوچنے، سمجھنے اور پھر فیصلہ کرنے کا بھی حق دیتا ہے اور دوسری طرف انسانوں کو اُس اللہ کا تعارف بھی دیتا ہے، جس لائق تعریف رب نے اگر دین میں زبردستی کرنی ہوتی تو وہ ابھی سارے انسانوں کو ایمان بخش دے بلکہ انسان پیدا ہی باقی مخلوقات کی طرح ایک مخصوص سوچ کے ساتھ ہوں اور اُس کے علاوہ نہ کچھ کر سکیں اور نہ کچھ سوچ سکیں لیکن اللہ تو چاہتا ہے کہ انسان خود سوچ، سمجھ کر اپنے شوق سے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف آئیں اور دین میں پورے کے پورے داخل ہونے کے لئے آئیں تاکہ طریقوں سے شروع ہو کر طریقوں پر ختم ہو جانے والی نماز نہیں بلکہ وہ نماز قائم کریں جو نمازی کو ذہنوں میں چھپی فحاشی سے بھی اور دل میں چھپے منکر سے بھی باز رکھتی ہے اور روزے بھی وہ رکھنے آئیں جو باقی اُمتوں کی طرح صرف مخصوص وقت سے مخصوص وقت تک بھوکے، پیاسے رہنے کا نام نہ ہوں بلکہ تقویٰ میں اضافے کا سبب بھی بنتے ہوں اور کسی اندھی تقلید کرنے والے یا زبردستی دین میں آنے والا بھلا یہ تمام پاک کام کیسے کر سکتا ہے، اُسے کوئی بھی کیسے زبردستی ان کاموں پر مجبور کر سکتا ہے ؟ اور بین المذاہب ہم آہنگی جیسے مقدس اور پاک کام کی مخالفت کرنے والا دوسرا طبقہ وہ ہے، جس نے اِقامتِ دین سے مراد دنیا سے تمام ادیان کا خاتمہ لے لیا ہے اور ساری انسانیت کو مسلمان بنانا اور دنیا سے غیر مسلموں کا خاتمہ سمجھ لیا ہے یہی تصور ان کی گمراہی کا باعث بن گیا ہے ۔ یہ تصور دین فطرت کے بھی خلاف ہے اور اللہ کے احکامات سے بھی روگردانی ہے۔


naseemshahid7@gmailcom

یہ تحریر 2196مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP