متفرقات

گند رانی۔۔۔ مائی پیر۔ ۔۔ شہرِ روغاں۔۔۔ اور مزارِ محبت!

سڑک کنارے سفید سنگ میل پہ سیاہ روشنائی سے رقم تھا۔ اتھل۔یہ لسبیلہ کا ضلعی صدر مقام ہے۔یہاں میدان ہیں۔فصلیں ہیں، ہریالی ہے،کیلے اور چیکو کے باغات ہیںاور یہاں سے ساٹھ کلومیٹرز کی مسافت پہ تاریخی شہر بیلہ ہے۔
لسبیلہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ لس یعنی میدان اور بیلہ کا مفہوم ہے جنگل اور یہ ضلع پہاڑوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔3 جون1954کو لسبیلہ کو ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔اس کا پھیلائو شمال میں خضدار،مشرق میں دادو اور کراچی اور مغرب میں بحیرہ عرب و گوادر تک ہے۔
ایک ہزار کلومیٹر کی ساحلی پٹی پاکستان سے ایران تک پھیلی ہوئی ہے۔  اس میں سے 778کلومیٹر پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہے جس میں سے 178 کلومیٹر  لسبیلہ میں اور 600 کلومیٹر گوادر میں ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے لسبیلہ ایک الگ ریاست تھی ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں والی ِبیلہ جام غلام قادر نے اس کا الحاق پاکستان سے کیااور یوں یہ تاریخی علاقہ پاکستان کا حصہ بنا۔ کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم لسبیلہ سے سندھ میں داخل ہوئے تھے اور ان کے رفیق جنرل ہارون کا مقبرہ آج بھی اس تاریخی شہر میں موجود ہے۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم یہیں سے واپس گیا تھا۔
بیلہ شہر سے ایک سڑک غاروں کے شہر تک جاتی ہے۔ کراچی سے175 کلو میٹر جبکہ لسبیلہ سے فقط 20 کلومیٹر کی مسافت پہ موجود اس شہر کو بدھ مت کے پیروکاروں نے آباد کیا تھا اور یہاں عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں پندرہ سو کے قریب غاروں کے گھر تھے جن میں سے اب محض پانچ سو ہی باقی ہیں۔  ایسا ہی ایک شہرِ غاراں شہرِ اقتدار اسلام آباد میں بھی ہے جو ایک اندازے کا مطابق 2500 سال پرانا ہے۔ کسی زمانے میں ان غاروں کی دیواروں پہ مہاتما بدھ کے نقوش بھی تھے جنہیں وقت کی دھوپ چاٹ گئی۔ قریباً سات سو سال پہلے یہاں ایک بزرگ شاہ اللہ دتہ آئے جن کا مزار آج بھی یہاں آباد ہے اور تب سے یہ شہر غاراں شاہ اللہ دتہ سے منسوب ہو گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ بدھ مت کے بعد یہیں پہ سکندر اعظم کا استقبال بھی ہوا۔ یہیں سے وہ بر صغیر میں داخل ہوا۔ یہاں مغل حکمران بھی آئے۔ شیر شاہ سوری نے یہاں پانی کا کنواں، بالی اور دیوار بھی بنوائی جو آج بھی صاحب اقتدار کی توجہ کی منتظر ہے۔ صدیوں پہلے کابل سے تجارتی قافلے جب براستہ ٹیکسلا راولپنڈی آیا کرتے تھے  تو وہ اسی کنوئیں کا پانی پیتے تھے۔ اس بالی سے آگے بدھا کے قدیم غار ہیں جن کے ساتھ صدیوں سے قدرتی پانی کا چشمہ ہے جو آج بھی جاری ہے اور مقامی لوگ اس کے پانیوں کو آبِ شفا مانتے ہیں۔ ان غاروں کے قریب ہزار سال قدیم سادھو باغ بھی ہوتا تھا جس کی واحد نشانی ایک بوڑھا برگد ہے اور بس۔ 
بیلہ کے شہرِ روغاں کے بھی کم و بیش یہی حالات ہیں۔ یہاں بھی غاروں کے قریب ندی گزرتی ہے اور یہ بھی بدھ مت کی قدیم عبادت گاہیں ہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق یہاں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی، مائی گند رانی، جس نے لوگوں کو شیطانی قوتوں سے بچایا اور اپنی جان کی قربانی دی۔ اس لیے اس شہر کو اس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اسے مائی پیر بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں یہاں پندرہ سو غار ہوا کرتے تھے اور حیرت انگیز طور پہ تمام کمرے ایک دوسرے سے منسلک  تھے۔ جیسے آج کے جدید دور میں ہیں۔ یہ عجوبہ شہر آج بھی قائم ہے جہاں بسنے والوں کا نشاں تو مٹ چکا لیکن یہ غارآج بھی موجود ہیں۔ ان غاروں کے مکیں تو وقت کی دھول میں لاپتہ ہو گئے مگر یہ مکاں آج بھی قائم ہیں۔ 
غاروں کے یہ شہر پاکستان کے علاوہ چند اور ممالک میں بھی موجود ہیں۔ جن میں امریکہ، فرانس، اٹلی، ترکی، ایران، سپین، مالی، سسلی اور توانسیہ وغیرہ سر فہرست ہیں۔ ایران میں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے کندوان، جو کوہِ سبھند نامی ایک آتش فشانی پہاڑی سلسلے میں آتاہے جس کی مٹی نرم ہونے کے سبب لوگوں نے ان پہاڑوں کو تراش کر ان میں گھر بنا لیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ کچھ لوگ جدید طرز زندگی کے قائل ہو کر یہاں سے شہروں کو ہجرت کر گئے جبکہ کچھ آج بھی ان غاروں میں آباد ہیں۔ ایسا ہی ایک شہر ترکی کے شہر کپادوکیہ میں بھی ہے جس کے قیام کی کہانی بھی عجیب دلچسپ ہے۔ کچھ حادثے  ہمیشہ کے لیے خوبصورت ہو جاتے ہیں۔ کپادوکیہ کا شہر غاراں بھی ایسا ہی حسین حادثہ ہے۔ صدیوں پہلے اناطولیہ کے دو کوہِ حسن پہاڑوں نے لاوا اگلا جو دور دور تک پھیل گیا اور لاکھوں برس لگے اس لاوے کو سوکھنے میں لیکن جب وہ سوکھا تو دھرتی پہ اک نئی دنیا چھوڑ گیا۔ مقامی لوگوں نے ان نقش و نگار سے مزین اس نگری کو پریوں کی چمنیاں کا نام دیا جو گزرتے وقت کے ساتھ کپادوکیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ برسوں اس بستی میں ویرانے آباد رہے۔ اور پھر چند برس قبل اس عجوبہ شہر کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ اب یہاں ہر پل زندگی گنگناتی ہے۔ ہاٹ ائیر بلون(آتشی ہوا کے غبارے) میں بیٹھ کر سیاح پریوں کی چمنیاں دیکھتے ہیں اور دیوانے پا پیادہ غاروں کے شہر کی خاک چھانتے ہیں۔ 



حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ بیلہ و اسلام باد کے شہر غاراں کو محفوظ کرے۔  ان پہ توجہ دے اور انہیں سیاحوں کی جنت بنا کر دنیائے سیاحت میں پاکستان کا نام بنائے اور کثیر زرِ مبادلہ بھی کمائے۔ 
شہرِ روغاں سے چند کلو میٹرز کی مسافت پہ دنیا کے واحد مڈ وولکینو آتے ہیں۔ مٹی کے آتش فشاں۔ چندرا گپ۔ گار فشاں۔ جہاں ہر سال اپریل کے مہینے میں ہندو یاتری ہنگلاج ماتا کے مندر سے پا پیادہ اکیس کلومیٹرز کی مسافت طے کر کے یاترا کرنے آتے ہیں۔ ان گار فشاں کے دہانوں پہ ناریل اور دیگر اشیائے خورو نوش رکھ کے پوجا پاٹ کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان تمام اشیائے خورونوش سے وہاں بسنے والے بندر دعوتِ خاص اڑاتے ہیں۔ چاندنی رات میں انن گار فشاں کا حسن طلسمی ہوتا ہے۔ اس ابلتے ٹھنڈے گارے میں اک پوری کائنات جاگ اٹھتی ہے اور جہاں گردوں کے دلوں سے دھڑکنیں تک چھین لیتی ہے۔ 
لسبیلہ چونکہ ساحلی ضلع ہے اس لیے یہاں کے زیادہ تر عوام کا ذریعہ معاش سمندر اور سمندری حیات ہے۔ بہت سے خاندان ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ چونکہ عموماً غریب لوگ ہیں تو ماہی گیری کے لیے بھی چھوٹی کشتیوں پہ انحصار ہے۔ سمندر کنارے سے جتنا پرسکون لگتا ہے درحقیقت ہوتا نہیں۔ ساحل پہ لنگر انداز کشتیاں جب گہرے پانیوں میں اترتی ہیں تو کبھی کبھی بپھری لہروں کا شکار ہو کر الٹ بھی جاتی ہیں۔ ایسے میں نیلگوں سمندر کی بے رحم لہروں پہ سفید وردی میں ملبوس سمندروں کے پاسبان، ملک و قوم کے نگہبان، پاک بحریہ کے افسر و جوان، سول آبادی کی مدد کو فوراً سے پیشتر پہنچتے ہیں۔ زمانہ امن ہو یا جنگ، سیلاب ہو یا زلزلہ یہ جانیں بچاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب سونمیانی کے قریب ایک کشتی الٹنے سے بارہ کے قریب ماہی گیر سمندر میں ڈوب گئے تو پاک بحریہ نے نہ صرف فوری امدادی کارروائی کر کے ان کی جان بچائی، بلکہ انہیں فوری طبی امداد اور خوراک بھی مہیا کی اور مزید یہ کہ انہیں ماہرین کے زیر نگہداشت بھی رکھا۔ 



بیلہ سے محبت کے اور بہت سے حوالوں میں سے ایک حوالہ یہاں محبت کی عظیم لوک داستان کے لازوال کرداروں شیریں، فرہاد اور سسی ، پنوں کے مزارِ محبت ہیں۔ بیلہ سے آواران روڈ پہ قریباً تیس کلومیٹر کی مسافت طے کر کے بائیں ہاتھ شیریں فریاد کا مزار واقع ہے۔ شیرین والیِ بیلہ کی بیٹی تھی جبکہ فرہاد اک سنگ تراش۔ اور کہانی میں ٹوئسٹ تب آتا ہے جب سنگ تراش فرہاد والیِ بیلہ کی بیٹی شیرین کے عشق میں دیوانہ ہو کر والی جو کہ اپنے قبیلے کا سردار بھی تھا سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے چل پڑتا ہے۔ سردار اپنی دانست میں بلا کا ذہین اور چال باز تھا۔ اس نے بجائے سیدھا سیدھا رشتے سے انکار کرنے یا سنگ تراش کو سنگسار کرنے کے عجیب شرط رکھ دی۔ اس زمانے میں علاقے میں اک پہاڑ تھا جس کی چوٹی پہ میٹھے پانی کا چشمہ بہتا تھا لیکن اس کا بہا بستی کے مخالف سمت تھا اور بستی تک پانی لانے کا واحد حل یہی تھا کہ پہاڑ کی چوٹی کو اس انداز سے تراشا جائے کہ پانی اپنا رستہ بدل لے اور خود بخود بستی تلک آ جائے۔ تو سردار نے سنگ تراش کے سامنے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ پہاڑ کو کاٹ کر پانی کو بستی تک لے آئے تو وہ اپنی بیٹی شیریں کی شادی اس سے کر دے گا۔ محبت میں ناممکن کا لفظ کہاں ہوتا ہے بھلا۔ عاشقوں کو انکار کہاں آتا ہے۔ فرہاد نے تیشہ اٹھایا اور چل پڑا محبت کا امتحان دینے۔ سردار اپنے تئیں خوش ہوتا ہے کہ نہ یہ پہاڑ کھود پائے گا نہ یہ رشتہ ہو گا۔ لیکن اسے کیا خبر محبت کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ عشق تو ناممکن کو بھی ممکن بنا دیتا ہے۔ اور پھر کہنے والے کہتے ہیں کہ دیکھتی آنکھوں نے محبت کا یہ معجزہ بھی دیکھا کہ عاشق نے معشوق کی خاطر پہاڑ کھود ڈالا۔ جب آزمائش پوری ہونے لگی۔ نہر کی تکمیل کی گھڑی آنے لگی تو سردار پریشان ہوا کہ وعدے کے مطابق اسے رشتہ کرنا پڑے گا۔ تب اس کے ذہن میں اک نئی سازش اُبھری۔ اس نے اک کنیز کو فرہاد کے پاس جھوٹ بلوانے کو بھیجا کہ جس شیریں کے عشق میں تم اتنا کشٹ کاٹ رہے ہو وہ تو اس دنیا میں رہی ہی نہیں۔ محبت میں انسان سب برداشت کر لیتا ہے لیکن محبوب پہ کوئی آنچ آئے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ فرہاد نے یہ سنتے ہی اپنے تیشہ اپنے سر پہ مار کے خود کو ختم کر لیا یہ جانے بنا کہ جو اس نے سنا وہ سچ تھا یا جھوٹ۔ محبت کا یہی المیہ ہے کہ محبوب سے جدائی کا جھوٹ بھی سچ بن کے نگل جاتا ہے۔ بعد ازاں وہی کنیز شیریں کو جا کہ فرہاد کی موت کی خبر دیتی ہے تو وہ بھی اپنی جان دے دیتی ہے۔ اور یوں محبت کی اک لازوال داستاں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس درجہ محبت کے سبب ان دونوں کے جسدِ خاکی ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے اور آج وہاں مزار قائم ہے۔ مزار شریف شیریں فرہاد۔ مزارِ محبت!



اسی شہر میں ایک اورمحبت کی عظیم لوک داستان کے لازوال کرداروں  سسی پنوں کے مزار کی موجودگی بھی ہے۔ شہرِ قائد سے اندازاً 65 کلو میٹر کی مسافت پہ سسی پنوں کا مزار ہے۔ اورہمیں کیچ کا صحرا بلاتا تھا۔ جہاں کی اک قبر میں سسی اور پنوں دفن ہو کر محبت کی لازوال داستان کو امر کر گئے تھے۔ وہی سسی جو بھمبھور (پھمپھور)کے راجہ کی بیٹی تھی جس کی پیدائش پہ ہندو نجومیوں نے راجہ کو کہا تھا کہ یہ لڑکی شاہی خاندان کے لیے بدشگونی ہے۔ یہ بڑی ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرے گی اور ہندو راجہ کے خاندان کا نام ڈبوئے گی۔ اور یوں راجہ نے نجومیوں کی بات مان کر سسی کو لکڑی کے صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا۔ جو سندھ ساگر میں بہتے بہتے اک بے اولاد دھوبی کو مل گیا اور یوں راجہ کی بیٹی نے اک معمولی دھوبی کے گھر پرورش پائی ۔ سسی کے اجڑے شہر کے آثار آج بھی دریائے سندھ کنارے موجود ہیں۔ کراچی سے ٹھٹھہ ہائی وے پہ دائیں ہاتھ بھنبھور میوزیم آج بھی قائم ہے۔ شہزادہ پنوں میر عالی خان کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور بلوچی ہوتھ قبیلے کا سردار تھا۔ وہ مالِ تجارت لے کر جب بھنبھور آیا تو سسی کے جادوئی حسن کا اسیر ہو کر ہمیشہ کے لیے اسکا بے دام غلام ہو گیا۔ عشق نہ ویکھے دین دھرم تے عشق نہ پچھے ذات۔ پنوں کو بھی سسی کے عشق میں سب بھول گیا کہ وہ مکران کا شہزادہ ہے،بلوچ ہے، ہوت قبیلے کا سردار ہے اور معمولی دھوبی کی بیٹی کے عشق میں مبتلا ہے۔ عشق کچھ یاد رکھنے کے قابل چھوڑتا ہی کہاں ہے۔ چند برس پہلے جہاں گرد کو سندھ یاترا کے دوران سسی کے شہر کی زیارت عطا ہوئی تھی اور اس بار بلوچستان کے اس سفر میں دل کی یہی خواہش تھی کہ مکران کے شہزادے پنوں کا قلعہ دیکھا جا سکے۔ اور ہم نے اس شہرِ بے مثال کی زیارت واپسی پہ اٹھا رکھی تھی۔ ہمیں گوادر کے ساحل بلا رہے تھے۔ ہمیں مکران کے شہزادے پنوں کی دھرتی بلا رہی تھی۔ اور ہم مکران کوسٹل ہائی وے پہ منہ ول گوادر عازمِ سفر تھے۔ لیکن بقول نور الہدی شاہ۔ 
دل چاہتا ہے
غارِ اصحابِ کہف میں جا کر سو جاں
جب نیند سے اُٹھوں
میرا زمانہ گزر چکا ہو
میرے سِکے کھوٹے ہو چکے ہوں
میری بات کوئی نہ سمجھتا ہو
مجھے کوئی نہ جانتا ہو
رَب سے پوچھوں
بتا کہاں جائوں۔ ؟
رَب کہے
تیرے زمانے اب نہیں رہے
انسان سبھی مر چکے
صرف ہجوم زندہ ہے
احساسات سے عاری
فقط جنون زندہ ہے
تو لوٹ جائو
غارِ اصحابِ کہف میں پھر سے سو جائو۔ ||


مضمون نگار کی حال ہی میں ٹلہ جوگیاں پہ تاریخ و تصوف کے حسین امتزاج پہ مبنی جوگی، جوگ اور ٹلہ نامی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ان کی تین کتب دیوسائی ، وطن، فرض اور محبت اور  کوسٹل ہائی وے پہ ہوا کا دروازہ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔[email protected]


 

یہ تحریر 167مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP