ہمارے غازی وشہداء

مجھے مار دیجیے

( ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن ریٹا ئرڈ سید احمد مبین شہید)

کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین شہید اور موت میں شناسائی بہت پہلے قائم ہو چکی تھی، بارہا قضا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردوں سے مقابلہ کرنے والا یہ نڈر آفیسر 2013 میں کوئٹہ پولیس لائن میں جنازے کے دوران ہونے والے خود کش دھماکے میں معجزاتی طور پر بچا تھا۔ جنازے پہ جاتے ہوئے اچانک سید مبین کی ماں کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اور وہ جنازہ چھوڑ کر اپنی ماں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے واپس آگئے تھے ، اس دھماکے میں ان کے قریبی ساتھی ڈپٹی انسپکٹر جنرل فیاض احمد سنبل نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ انھیں اب موت کا کچھ خوف نہ تھا،ابھی دوہفتے قبل انھوں نے اپنی سماجی رابطے کی سائیٹ فَیس بک پر ایک نظم میں دشمنانِ امن و انصاف کو یہ دعوتِ عام دی تھی کہ وہ تو حق کی راہ سے ہٹنے والے نہیں ،جو لوگ محض اس جرم پرا ن کی جان کے در پے ہیں وہ بے شک اپنا وار آزما ڈالیں۔

زندہ رہا تو کرتا رہوں گا، ہمیشہ پیار!
میں صاف کہہ رہا ہوں، مجھے مار دیجیے
( شہید کی فَیس بک۔23 جنوری2017)
اس دن بھی وہ پیارکا عَلَم لئے لاہور کی مال روڈ کو عوام کے لئے کھلوانے چلے تھے،


’’میں خود جا کر لوگوں سے بات کرتا ہوں کہ وہ مال روڈ کو عوام کے لئے کھول دیں‘‘ یہ تھے وہ الفاظ جو انھوں نے مقتل میں جانے سے پیشتر ادا کئے تھے۔ لوگوں سے بات چیت کے دوران انھیں اپنے ایک خیر خواہ ڈی آئی جی نے فون پر بہت اصرار کیا تھا کہ وہ مظاہرے کی جگہ سے چلے جائیں،کیوں کہ انہیں واضح الفاظ میں دہشت گردوں کی طرف سے حملے کی دھمکیاں بھی موصول ہو چکی تھیں لیکن ان کے قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ موت کی دھمکیوں کی ذرا بھی پروا نہ کرتے تھے بلکہ ہر حساس اور اہم آپریشن کی قیادت رضاکارانہ طور پر خود کرتے، جعلی ادویہ سے متعلق احتجاجی مظاہرے میں بھی وہ از خود لوگوں کو منتشر کرنے چلے آئے تھے، جبکہ یہ ان کی ذمہ داری بھی نہ تھی۔ سید احمد مبین کی والدہ بتاتی ہیں 


شہادت کے دن میرا بیٹاصبح گھر سے روانہ ہوتے ہوئے کہنے لگا: ’’ امی آج مجھے تھکاوٹ ہو رہی ہے، بس یہ کام نبٹا کر آتا ہوں پھر آرام کروں گا۔‘‘ میں نے کہا: ’’بیٹا اگر تھکے ہو تو مت جاؤ، تمھارا جانا ضروری تو نہیں۔‘‘ کہنے لگا ’’بس یہ کام کر کے آرام کروں گا۔‘‘ مجھے کیا خبر تھی کہ وہ ابدی آرام کی بات کر رہا تھا۔


دہشت گرد شکاری کتوں کی طرح سید احمد مبین کی تاک میں رہتے تھے، اس دن بھی چار دہشت گردوں نے فیصل چوک مال روڈ لاہور کا رخ کیا تو ان کا ہدف دیگر معصوم جانوں کے علاوہ سید مبین خصوصی طور پر تھے، احتجاج کے مظاہرین کی حفاظت پر مامور ایس ایچ او عابد بیگ نے بعد میں انکشاف کیا کہ اس نے جب مشکوک افراد کو مقامِ احتجاج کی طرف بڑھتے دیکھا تو رکنے کا اشارہ کیا جس پرایک مشکوک شخص خار دار تاریں پھلانگ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا اور مظاہرین میں شامل ہو گیا جبکہ تین بھاگ گئے۔ یہی 22 سالہ نوجوان دراصل خود کش بمبار تھا جو مظاہرین کے جھرمٹ میں گھرے ہوئے سید احمد مبین کے بالکل قریب جا پہنچا تھا۔وہ اپنی فطری بردباری اور انسان دوستی کے ہاتھوں مجبور مسلسل لوگوں کو سمجھا رہے تھے بلکہ ایک عینی شاہد کے مطابق یوں سمجھیے کہ لوگوں کی منت سماجت کر رہے تھے ،


’’آپ نیک لوگ ہیں ، میں تو گناہگار آدمی ہوں۔۔۔‘‘
ڈپٹی انسپکٹر جنرل کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین کو اکثر اپنی مٹی کی محبت میں ایسے ایسے قرض بھی چکانے پڑے جو کبھی واجب بھی نہیں تھے۔ان کا ایمان تھا کہ احترام انسانیت میں اٹھایا ہوا ہر قدم عبادت ہے ۔ اس عبادت کے لئے وہ ہمہ وقت رضا کارانہ طور پر پیش پیش ہوتے،وہ بے گناہ انسانوں کے قتل پہ بہت کڑھتے تھے،وہ اعلان کر چکے تھے کہ میں اپنے دین اور وطن کے تحفظ میں اپنی صدا بلند کرتے کرتے جہان فانی سے کوچ کر جاؤں گا۔
پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہو کا شور
میں آخری صدا ہوں،مجھے مار دیجیے ۔!
( شہید کی فَیس بک سے)


اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا اور امن و محبت کا یہ راہی اپنے قریبی ساتھی زاہد گوندل ایس ایس پی آپریشنز، دیگر چار اہل کاروں اور سات مظاہرین سمیت را ہیِ ملک عدم ہوا۔ پاکستان کے دل اور زندہ دلان لاہور کے شہر میں قیا مت صغریٰ بپا ہو چکی تھی، اب کی بار قضا نے سید مبین کو مہلت نہ دی تھی، بس ان کی صدا ئے امن گونج رہی تھی۔
بارود کا نہیں میرا مسلک درود ہے
میں خیر مانگتا ہوں، مجھے مار دیجیے!
( شہید کی فَیس بک۔23 جنوری2017)


ہُو کا شور سچ مچ ناچنے لگا تھا، امن و محبت کے پھول بانٹنے والا اور لوگوں کی خوشیوں کا داعی ،سیکڑوں گھروں کا رازدار کفیل، ماں کا واحد سہارا اور تین بیٹیوں کا بابل،شہید خاندانوں کا ہمراز و غمخواراور اپنی سپاہ کا سگے باپ جیسا سایہءِ عاطفت، بیوی کا کبھی نہ لڑنے والا دوست اور پیا رکرنے والا سرتاج اور ننھے لخت جگر محمد طہٰ فرید کا ہر دلعزیز بابا اب شہادت کا جام پی کر خاموش ہو گیا تھا۔


شہادت کی خبر نشر ہوتے ہی سید احمد مبین شہید کے کورس میٹوں اور ساتھی آفیسرز کا تانتا بندھ گیا تھا، سبھی ماں کے گرد جمع تھے۔ سید احمد مبین کے والد گرامی اور ان کی والدہ کے رفیق حیات ڈاکٹر کرار حسین 15 سال پہلے داغ مفارقت دے چکے تھے لیکن مبین نے اپنی ماں کو ایک پل بھی احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ تنہا ہو گئی ہیں،یہاں تک کہ وہ خود کو بیوہ ہی نہیں سمجھتی تھیں۔اب اکلوتے بیٹے کی شہادت ان کے لئے ناقابل برداشت صدمہ ہونا چاہئے تھا ، اُس لخت جگر کی شہادت جو اُن کا مونس و غم خوار ہی نہیں زندگی کے نشیب و فراز اور مسائل کا واحد امرت دھارا تھا۔ ان کے قریبی دوست اور جے سی بی کے کورس میٹ لیفٹیننٹ کرنل افتخار نے ہمت کر کے ماں سے بیٹے کے کھو جانے کی بات کی تو صبر و استقامت کی دیوی بولیں:’’ کیا ہو ا میرا ایک مبین وطن کے کام آگیا، اللہ نے اتنے سارے مبین، میری قوم کے بیٹے مجھے عطا کر دیے ہیں اورمجھے شہید کی ماں ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔الحمد للہ!‘‘ 
شہید کی اکلوتی بڑی بہن سیدہ ثروت قسیم اور مبین کا ساتھ ایک بہن بھائی سے زیادہ دوستوں جیسا تھا۔ بچپن، لڑکپن اور نوجوانی سے لے کر اتنی بڑی ذمہ داریوں تک سبھی مراحل پر احمد مبین اپنی بہن کی مشاورت کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ ’’بھائی کے ساتھ تو میری اتنی یادیں ہیں کے بتانے لگوں تو ہفتوں میں بھی ختم نہ ہوں، مبین کہنے کو تو میرا بھائی تھا لیکن وہ میرا بچپن کا دوست اور ابا جان کی رحلت کے بعد تو بابل بھی وہی تھا۔‘‘


تعزیت کرنے والوں میں عیسائی اور ہندومذاہب کے لوگ بھی موجود تھے ان کا کہنا تھا کہ ڈی آی جی سید احمد مبین ان کے لئے ایک مہربان اور مددگارشخصیت تھے جو ان کی کمیونٹی کے مسائل بھی حل کرتے اور ذاتی معاملات میں بھی مدد کرتے تھے،وہ صرف مسلمانوں کے نہیں تمام ہم وطن شہریوں کے ہمدرد و غمگسار تھے۔ یہ سید احمدمبین کے والدڈاکٹر کرار حسین کی اعلیٰ تربیت کا کمال تھا کہ سید احمد مبین ایک سعادت مند بیٹے، مخلص بھائی، بہترین شوہر، شفیق باپ اورانتہائی بردبار آفیسر ثابت ہو ئے تھے، ان کا معمول تھا کہ وہ گھر پہنچتے ہی ایک گھنٹہ اپنے ننھے شہزادے کے ساتھ کھیلتے، بیٹیوں کو پیار کرتے اور پھر بچوں کے ساتھ مل کر اپنے ننھے ننھے پیارے پیارے رنگ برنگے پرندوں کی دیکھ بھال کرتے۔ شاعری کے دلدادہ تھے۔فطرت نے مبین کی شخصیت میں ایک خاص جاذبیت اور انسیت پیدا کر دی تھی۔ وہ اپنی اہلیہ سیدہ آمنہ سے کبھی الجھتے نہ تھے، بلکہ اگر کوئی دوسرا دوست اپنے اہل خانہ سے درشت لہجے میں ہمکلام ہوتا تو اسے سمجھاتے اور خاندانوں کو جوڑنے کاکام کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ کو جہاں اپنے سرتاج کی قربانی پر نازہے وہیں ان کا دل اتنے بڑے خلا کو برداشت کرتے کرتے ڈوب سا جاتا ہے، ان کی تو ساری دنیا ہی سید احمد مبین تھے۔ سیدہ آمنہ کہتی ہیں: ’’جو شخص غیروں کے لئے مجسمہ شفقت ومہربانی اور غموں کا مداویٰ ہو اس کا برتاؤ اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ کیسا ہو گا!‘‘


سید مبین کو اپنے متعلقین میں اعتدال رکھنے میں خاص کمال حاصل تھا۔ماں کا مقام،خوشدامن کا وقار، بہن کا پیار،بیوی کا استحقاق،لخت جگر کا لاڈ اور دختران نیک اختر کے ناز نخرے سبھی کی فکر کرتے اور سبھی کے حقوق بدرجہ اتم پورے کرتے تھے۔ اللہ نے انھیں تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا تھا۔ بڑی بیٹی حبہ مبین آج ایم بی بی ایس کر رہی ہے جبکہ چھوٹی دونوں عبیرہ مبین اور دعا مبین بنیادی تعلیم کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ سیدہ آمنہ بتاتی ہیں : ’’جب اللہ نے یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں عطا کیں تو میرے چہرے پر ملال کی پرچھائیاں پڑھ کرمبین نے فوراً مجھے حوصلہ دیا اور کہنے لگے کہ اللہ نے ہمیں جنت کی سند عطا کی ہے، اللہ کا شکر ادا کرو اور خوب خوشیاں مناؤ۔‘‘


کوئی ساتھی ان سے مشورہ چاہتا یا کسی قسم کی مدد کی درخواست کرتا تو اسے اپنے پاس بلاتے، گھر پر آنے اور قیام کرنے کی دعوت دیتے، اس کا مسئلہ حل کرتے، اگر مالی معاونت مانگے تو بلا تردد اس کی ضرورت پوری کرتے۔ اپنے ساتھی شہید ڈی آئی جی فیاض سنبل کے بچوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور ان کی ضرورتوں کا بدرجہ اتم خیال رکھتے ۔ ایک بار ایک کانسٹیبل نے انھیں بتایا کہ اس کے بیٹے کے دل میں سوراخ ہے اور بیرون ملک علاج کے لئے 20 لاکھ روپے درکار ہیں تو آپ نے اسے کہا کہ بسم اللہ کرو ، اللہ مدد کرے گا۔چنانچہ آپ کی کوشش سے بچے کا علاج بخیر و خوبی ہو گیا اور جب وہ کانسٹیبل سید احمد مبین کا شکریہ ادا کرنے لگا تو بولے ، ’’ اس رقم کا تعلق نہ تو پولیس فنڈ سے ہے اور نہ کسی ناجائز ذرائع سے اور نہ ہی میں نے جیب سے خرچ کیا ہے یہ تو اﷲ کی مدد سے میرے ایسے مخیر دوستوں نے مہیا کی تھی جو تمھیں جانتے بھی نہیں تم بس ان کے لئے دُعا کر دو۔‘‘ اسی طرح ایک کورس میٹ کے بیٹے کو جب بیرون ملک سنگاپور میں علاج کے لئے رقم کی ضرورت پڑی تو سب سے بڑا حصہ سید احمد مبین نے ڈالااور منتظم کو سختی سے منع کیا کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے۔ اپنی فوجی یونٹ 42 بلوچ ’الحاوی‘ بٹالین کے لئے ان کے دل میں خاص مقام تھا۔ الحاوی کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل جمیل نے بتایا کہ ڈی آئی جی کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین اپنی یونٹ کو کبھی نہیں بھولتے تھے اور سولجر سے لے کر سویلین کنٹریکٹر ز تک سب کو پوری توجہ اور عزت دیتے تھے۔ صوبیدار میجر رخسار بتاتے ہیں کہ جب بھی کوئی کیپٹن مبین کو ٹیلیفون کرتا تو لازمی جواب دیتے اور اگر فوراً فون نہ اٹھا سکیں تو جوابی فون کرتے اور ساتھ معذرت بھی کرتے۔ یونٹ میں ان کے ابتدائی ایام کا ذکر کرتے ہوئے صوبیدار میجر رخسار صاحب کہتے ہیں:’’مجھے کیپٹن مبین صاحب کو ہتھیاروں کی تربیت دینے کی ذمہ داری ملی تو کیپٹن مبین آفیسر ہونے کے باوجود ایک شاگرد کی طرح زمین پر دری بچھا کر میرے سامنے بیٹھ جاتے اور استاد جیسا احترام دیتے تھے۔‘‘ یونٹ کے سبھی آفیسرز اور سولجرز ان پر جان چھڑکتے تھے، جب شہادت کی خبر پہنچی تو ’الحاوی‘ کی اعزازی گارڈ کا دستہ ایک گھنٹے میں شہید کے اعزاز میں پہنچ چکا تھا۔

سید احمد مبین نے اسلامیہ ہائی سکول میکانگے روڈ کوئٹہ سے میٹرک کرنے کے بعد 1988 میں جے سی بی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ شروع میں وہ کافی کمزور لیکن ہنس مکھ کیڈٹ تھے۔ بریگیڈیئر ارشد سیال ان کے جے سی بی کے پلاٹون میٹ ہیں، وہ بتاتے ہیں: ’’ہم مبین کو اس کی نازکی پر چھیڑتے تھے، وہ بظاہر ہنس دیتا لیکن اس کی خودی کا کمال تب نظر آیا کہ جب پی ایم اے میں پہنچتے ہی مبین نے ایک نیا رخ اختیار کیا، جیسے اچانک کوئی نئی روح اس کے اندر عود کر آئی ہو،وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑھنے لگا تھا بلکہ جسمانی کھیلوں اور مشقوں میں بھی سب کو مات کرنے لگا تھا ۔ لیکن اپنے ساتھیوں کی طرف اس کا رویہ مثالی تھا، اکثر ان کی جگہ بڑی سے بڑی قربانی پیش کر دیتا، ایک بار اپنی پلاٹون کے ایس جی سی ( سینیئر جنٹلمین کیڈٹ) کے طور پر پوری پلاٹون کی غلطی کو اپنے سر لے لیا اور سزا کے طور پر رات بھر گورکھا حالت میں رہنا پڑا ، ایک اور موقع پر جب سینیئرز کے رگڑے سے کمر پر گہرے زخم خراب ہو گئے اور ڈاکٹر نے جاننا چاہا کہ زخم کیسے ہوئے تھے تو ڈٹ گیا اور سزا دینے والے کیڈٹس کے نام نہ بتائے ۔‘‘


سینئر ٹرم میں سید احمد مبین سی ایس ایم (کمپنی سارجنٹ میجر) بن گئے، ان کے ایک اور کورس میٹ میجر ارمغان نعیم نے بتایا کہ ’’جب ہم جونیئر ٹرم میں تھے تو اکثر مبین بھاگتا ہوا آتا اور کہتا ، ’’ اوئے بھاگو ! سی ایس ایم آ رہا ہے‘‘ اور پھر ایسا غائب ہوتا کہ سی ایس ایم کبھی ڈھونڈ نہ پاتا۔ جب خود سی ایس ایم بنا تو کوئی اس سے بچ نہ سکتا تھا۔‘‘


سید احمد مبین نے 17ِ اپریل1992 بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ پاک فوج کی مایہ ناز ’الحاوی‘ بٹالین ، بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور پھر یکے بعد دیگرے اپنے تربیتی کورسوں میں نمایاں پوزیشنز حاصل کرتے گئے۔ کپتانی کے ستارے سجانے کے بعد 1995 میں سیدہ آمنہ بخاری کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اسی دوران آپ کے انٹیلی جنس کورس کی وجہ سے آپ کو پاکستان رینجرز سندھ میں شر پسند عناصر کے خلاف فیلڈ سکیورٹی کی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ یہ دراصل آپ کی بنیاد تھی جس میں آپ نے انتہائی کامیابی سے سکیورٹی کے فرائض ادا کرتے ہوئے اعلیٰ تجربہ حاصل کیا۔ یہاں آپ کے کوڈ نام کیپٹن کاکڑ کی دھاک بیٹھ گئی تھی،۔ اس دوران آپ کو گولیاں بھی لگیں اور شدید زخمی ہوئے لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، آپ کے آپریشنز جاری رہے ۔ اگلے ہی سال آپ سول سروس کمیشن کا معیار پورا کرتے ہوئے سول سروس اکیڈمی چلے گئے اور پھر پاکستان پولیس میں اے ایس پی کے طور پر لاہور میں تعینات ہو گئے۔ آپ کی اگلی اہم تعیناتی کوئٹہ میں تھی جہاں بطور پولیس آفیسر اغوا برائے تاوان کے متعدد کیس حل کئے۔ در اصل بلوچستان کی سرزمین کا یہ سپوت وطن عزیز کی محبت کا استعارہ بن چکا تھا،سید مبین اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی معمول کے ایک دن میں 18 گھنٹے تک ادا کرتے۔ بعض اوقات تو تین تین دن تک مسلسل آپریشنز میں گزر جاتے اور چھٹی کے دن بھی کام کر رہے ہوتے۔ آپ نے کوئٹہ پولیس کو مایوسی کے اندھیروں اور خوف کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالا، ان کی تربیت نو کی، ہر جگہ خود قیادت کرتے ہوئے ان کے اندر سے موت کا ڈر دور کیا ، انھیں ہمت و جرأت عطا کی اور مورال بلند کیا، اپنے زخمی سپاہیوں کے ساتھ پوری پوری رات بِتا دیتے، المختصریہ ان کی غیر معمولی قیادت کا اعجاز تھا کہ کوئٹہ پولیس صرف چھ ماہ کے عرصے میں نہ صرف اپنے پاؤں پہ کھڑی ہو گئی بلکہ علیحدگی پسندوں اور فرقہ واریت پھیلانے والوں حتیٰ کہ دہشت گردوں کے خلاف فوج کی مدد کے بغیر آپریشنز کرنے کے قابل ہو گئی ۔ ان کے قریبی ساتھی بریگیڈئیر فیصل نصیر جو ایک طویل دورانیے تک ان کے ہمراہ آپریشنز کرتے رہے اور ابتدائی طور پر بھی ان کے پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کورس میٹ ہیں ایک ملاقات میں بتاتے ہیں ۔


’’سید مبین زیدی دہشت گردوں کے خلاف ایک ہزار سے زائد آپریشنز میں اپنی سپاہ کی قیادت کر چکے تھے،جن میں سے سب سے زیادہ آپریشنز ان کی جنم بھومی بلوچستان میں ہوئے تھے،2012 میں پشتون آباد (بلوچستان ) میں شرپسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی دھاک بٹھانے کے بعد کوئٹہ شہر میں مبین (شہید )نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ کوئی رات ایسی نہ تھی جب سید مبین ہمارے ساتھ پوری رات بنفس نفیس باہر نہ ہوں۔ 2013 کے قومی انتخابات کو ممکن بنانے میں مبین (شہید) نے اپنی سپاہ کے ہمراہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت کوئٹہ اور نواحی علاقوں میں انتخابات کا انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا،ہماری خفیہ اطلاعات کے مطابق مشرقی بائی پاس کوئٹہ اور نواح میں دہشت گرد پرامن رہائشی علاقوں میں سرطان کی طرح سرایت کر چکے تھے، آئے دن چھوٹے موٹے دھماکے معمول بن چکا تھا،سید مبین شہید نے میرے دست راست کے طور چار ہزار سپاہ کے ہمراہ چار کلومیٹر تک گھر گھر تلاشی لیتے ہوئے پورے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرایا، اگرچہ اس وقت انھیں راکٹ حملوں کی واضح اطلاعات بھی مل چکی تھیں لیکن وہ عوام اور انتخابی عملے کی حفاظت کے لئے دن رات خود موجود رہتے حتیٰ کہ انتخابات بخیر و خوبی انجام پائے اور اگلا پورا سال کوئٹہ کا امن مثالی رہا۔ سید مبین فرائض کو ذاتی ذمہ داری سمجھ کر نبھاتے تھے،ایک بار ہمارے کچھ لوگ دہشت گردوں کے چنگل میں پھنس گئے تو مبین ذاتی طور پر رات کے تین بجے میرے ہمراہ ان لوگوں کو چھڑا کر لائے۔‘‘


کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے قیام میں آپ کی خدمات لاجواب تھیں۔ اس ادارے کو پنجاب اور بلوچستان میں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور فعال بنانے کے لئے سید مبین شہید نے ترکی اور امریکہ سے جا کر تربیت حاصل کی اور اس ادارے میں جدید ترین اصلاحات نافذ کر کے انھیں عملی جامہ پہنایا۔ کوئٹہ کے بعد آپ کو پنجاب میں کاؤنٹر انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ آپ وزیراعلیٰ پنجاب کے مانیٹرنگ سیل کے بھی انچارج رہے اور پھر تا وقت شہادت ٹریفک پولیس میں ڈی آئی جی کے طور پر فرائض ادا کر رہے تھے۔


ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن ریٹائرڈ سید احمد مبین زیدی شہید کی نماز جنازہ میں ملک کی اعلیٰ ترین قیادت ، فوج اور پولیس کے سپاہ سالاروں اور ملک بھر کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی اور24 گھنٹے کے اندر اندر خود کش بمبار کے سہولت کار کو گرفتار کر لیا گیا۔ دہشت گردوں کے اس گروہ کا تعلق افغانستان سے تھا جبکہ ان کا گرفتار شدہ سہولت کار انوارالحق باجوڑ کا رہنے والا تھا۔ پاک فوج اور پولیس نے نہ صرف ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف ’آپریشن رد الفساد‘کے نام سے بھر پور آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے بلکہ افغانستان حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ملک میں پناہ گزیں دہشت گردوں کی سر کوبی کی جائے۔ پاک فوج کے حالیہ آپریشن کو ’آپریشن ردالفساد‘ کا نام دیا گیا ہے۔

یہ تحریر 592مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP