ہمارے غازی وشہداء

اپنی وردی ہی اپنا کفن ہوگا

آزادی کا جذبہ موت کے خوف سے سرد نہیں ہوتا۔حریت کی فکر نہ قید کے ڈر سے ختم ہوتی ہے اور نہ تشدد کا صدمہ آزادی کی تڑپ ختم کرتا ہے ۔جس قوم کے جوانوں میں شہادت کے جذبے جواں ہوں اور جوجوان اپنے لہو سے چراغ روشن کرنے کا شوق پالتے ہوں، ا س قوم کو کسی بھی میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی ۔
شہید سپاہی محمد عمران ضلع خوشاب کے گائوں کوڑے والا میں 14جولائی 1997کو پیدا ہوئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔ابتدائی تعلیم گائوں کے سکول سے حاصل کی اور پھر میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول راجر سے کیا۔گورنمنٹ ڈگری کالج جوہر آباد سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔شہید کے چھوٹے بھائی محمد کامران بتاتے ہیں کہ گھر کا سارا بوجھ ابو پر تھا مگر شہید سپاہی محمد عمران نے یہ سارا بوجھ اپنے سر لے لیا ہوا تھا۔ وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ابو کی سبزی کی دوکان بھی چلاتے تھے ۔ان کو بچپن سے ہی پاک آرمی کے ساتھ جنون کی حد تک محبت تھی ۔وہ کسی فوجی کو دیکھتے تو خوش ہوتے اور آگے بڑھ کر اس سے سلام دعا لیتے ۔ابو جان نے بھائی کو کہیں کوئی ملازمت ڈھونڈنے کا کہا توبھائی نے صاف جواب دیدیا اور کہا میں صرف اور صرف پاک آرمی میںہی جائوں گا ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ ان کو فوج میں جانے کا اس حد تک شوق تھا کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد مولانا صاحب سے اپنے لیے دعا کرواتے تھے کہ وہ فوج میں چلے جائیں۔
ایف اے مکمل کرنے کے بعد ایف سی کی جانب سے بھرتیوں کا اشتہار آیا محمد عمران نے ٹیسٹ دیا جس میں وہ پاس ہوگئے ۔کال لیٹر آگیا اور اس طرح 10اپریل 2017کو بھائی کا افواج پاک میں جانے کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا ۔وہ دن بھائی کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا ۔انہوں نے اس خوشی میں پچاس نوافل ادا کیے اور تقریباً سارے گائوں میں مٹھائی تقسیم کی ۔لورالائی سینٹر سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد آپ کی پہلی پوسٹنگ چمن یونٹ میں ہوئی تو وہ بہت خوش تھے ،ابھی ان کی سروس کے دوسال ہی گزرے ہوں گے کہ  ان کو SSGوالوں نے بلا یا لیکن سروس کم ہونے کی وجہ سے سلیکٹ نہ ہوسکے اورانہیں واپس ایف سی میں بھیج دیا گیا۔وہ فون کرتے اور بتاتے کہ اصل زندگی تو یہی ہے کہ ہم قوم وملک کی حفاظت کے لیے زندہ رہیں۔ 
شہید کے بھائی محمد کامران بتاتے ہیں کہ وہ مجھے ہمیشہ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے مجبور کرتے تھے وہ کہتے تھے ہماری فوج ''فوج الٰہی ''ہے اور یہ دنیا کی بہترین فوج ہے ۔بھائی چھٹی پر گھر آتے تو ماں جی اور ابو جان کو کہتے کہ وہ ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بیٹے کو اپنے ہاں قبول کرلے اور ''شہادت ''کے منصب پر سرفراز کردے ۔ان کی ایک بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے کہ ''شہادت''کا مرتبہ ہر جوان کو حاصل نہیں ہوتا یہ قسمت والو ں کو نصیب ہوتا ہے ۔ماں اور چھوٹی بہن  ان باتوں پر پریشان ہوجاتیں اور رونے لگ جاتیں اس پر بھائی کہتے کہ شہید پر رویا نہیں کرتے ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ بھائی جب چھٹی پر گھر آتے تو ابو کی سبزی والی دکان میں بیٹھتے، ان کوملنے والوں کاایک جم غفیر لگ جاتاتھا،وہ بڑے محبت کرنے والے سادہ سے انسان تھے ۔ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پانچ وقت کے پکے نمازی تھے ،والدین کے بڑے تابعدار تھے ۔ہم سے بڑی محبت کرتے تھے ،ہماری ہر خواہش کااحترام کرتے ۔ 
چار سال چمن یونٹ میں گزارنے کے بعد ان کی پوسٹنگ 140آواران میں ہوگئی19ستمبر 2022کو انہیں حکم ملا کہ سی پیک کی پروٹیکشن کے لیے جانا ہے جہاں کچھ دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ہے۔اس دن شہید محمد عمران کی ڈیوٹی نہ تھی، ایک جوان بولا کہ میری طبیعت خراب ہے میں نہیں جاسکوں گا تو اس پرمحمد عمران نے کہا میں چلا جاتا ہوں، اس پر سینئرنے کہا کہ آج آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے کوئی اور چلا جائے، اس پر شہید نے کہا ''سر! فوجی تو ہروقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔''صبح کا وقت تھا کہ شہید محمد عمران اپنے ساتھیوں کے ساتھ جارہے تھے کہ اچانک دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ شہید سپاہی محمد عمران نے اپنی رائفل سے 2میگزینز فائر کیے ۔ دشمن کی جوابی گولی ان  کے سینے میں لگی اس کے باوجود بھی عمران نے فائرنگ جاری رکھی ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ انہوں نے آخری کال بھائی عثمان کو کی اور کہاں کہ مجھے گولی لگ گئی ہے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ میرے نصیب میں شہادت لکھ دے اس کے بعد بلند آواز میں کلمہ طیبہ پڑھا اور کال کٹ گئی۔شدید زخمی حالت میںانہیں فوری طورپر CMH کوئٹہ منتقل کیا گیا ،جہاں ان کا آپریشن ہوا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ 20ستمبر2022کو شہادت کے رتبہ پرفائز ہوگئے۔اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول کرلیا ۔شہید کے بھائی بتاتے ہیں کہ پچھلی بار جب وہ چھٹی آئے تھے تو گھر والوں نے ان کی منگنی کر دی تھی اور اب ان کی شادی تھی مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔شادی کی ساری تیاریاں ہوچکی تھیں۔ہم سب خوش تھے کہ گھر میں پہلی بار کوئی خوشی آرہی ہے ۔
شہید کے ساتھی بتاتے ہیں کہ شہید اکثر یہ کہاکرتا تھا کہ ''ہم فوجیوں کی وردی ہی ان کا کفن ہوتا ہے''اور بروزمحشر ہم اسی وردی میں نبیۖ کے غلاموں میں کھڑے ہونگے اور وہ کیسا خوبصورت منظر ہوگا؟ اور یہ بات کرکے وہ چند لمحات کے لیے کہیں کھوجاتاتھا۔شہید محمد عمران کے جسد خاکی کو بذریعہ ہیلی کاپٹر کوئٹہ سے لاہور لایا گیا اور لاہور سے بذریعہ ایمبولینس ان کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپٹا ہوا گائوں لایا گیا۔ منوں پھولوں کی پتیوں سے شہید کا استقبال کیا گیا۔ سارے کا ساراگائوں اشک بار آنکھوں سے شہید کو یاد کررہا تھا ۔ماں جی نے انتہائی صبروتحمل کے ساتھ بھائی کے تابوت پر لگے شیشے سے منہ چوما اور بوڑھے باپ نے کاپنتے ہاتھوں میں اپنے لخت جگر کی وردی وصول کی اورآخر سیکڑوں سوگواران کی موجود گی میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان  کے جسد خاکی کوآبائی قبرستان کوڑے والا میںسپرد خاک کردیا گیا۔دھرتی کا بیٹا دھرتی پر قربان ہوگیا، وطن سے محبت کا حق ادا کرگیا۔شہیدنے اپنے سوگواران میں ایک بہن، تین بھائی اور بوڑھے والدین چھوڑے ہیں۔شہید کی بہادری پر چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے انہیں تمغہ بسالت سے نوازا گیا ہے۔شہید کے بھائی محمد کامران بتاتے ہیں کہ محمد عمران نے شہادت سے چند دن پہلے ابو کو فون کیا اور کہاکہ ابو! ہوسکتا ہے کہ میری آپ کو یہ آخری کال ہوکیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بہت ہی خوبصورت باغ ہے اور باغ کے اندر ایک بہت بڑا محل ہے اور میں اس محل کو دیکھ کر دل میں یہ سوچتا کہ یہ محل کس خوش نصیب کا ہوگا؟ تو اتنے میں مجھے آواز آتی کہ یہ محل تمہارا ہے اور عنقریب تو اس میں آجائو گے۔شہادت سے دو دن پہلے ماں جی آدھی رات کو اٹھ کر رونے لگیں اور اونچی آواز میں انہیں پکارنے لگیں ہم سب اٹھ گئے پوچھا تو ماںجی نے بتایا کہ ابھی میں نی خواب میں دیکھا ہے کہ ایک بزرگ میرے سر پر ایک بہت بڑا تاج رکھ رہے اور کہہ رہے ہیں یہ تاج تجھے تیرے بیٹے محمد عمران کی وجہ سے پہنایا جارہا ہے۔ماں جی زاروقطار روتے ہوئے یہی کہہ رہی تھیں کہ میرے بیٹے کی دعا قبول ہوچکی ہے اور وہ شہید ہوگیا۔ اس کے دو دن بعدبھائی کی شہادت ہوئی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سپاہی محمد عمران کی شہادت کو قبول فرمائے اس کے درجات بلند فرمائے۔ ||


مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں
 [email protected]

یہ تحریر 345مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP