باہمی اتحاد اور یگانگت کسی بھی قوم کی مضبوطی کے لئے بنیادی جزو تصور کئے جاتے ہیں۔ جس قوم میں نفاق اور انتشار ہو وہ مضبوط و مستحکم نہیں ہوسکتی۔ ایسی اقوام دشمن کی سازشوں اور چالوں کا شکار ہوتی ہیں اور پھر اندرونی اور بیرونی مسائل کے ایسے انبار تلے دب جاتی ہیں کہ ان کی آزادی اور خود مختاری بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان کو بھی گزشتہ چند دہائیوں سے باہمی منافرت، فرقہ واریت، شدت پسندی ایسے خطرناک چینلجز کا سامنا رہا ہے جس کی بھاری قیمت اس قوم نے ادا کی ہے۔ قوم کو اب یقیناً اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ باہمی رواداری اور ہم آہنگی وہ واحدآپشن ہے جو اس قوم کو متحد رکھ سکتا ہے کیونکہ قوموں کا باہمی اتحاد ہی اُنہیں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ کوئی بیرونی طاقت کسی دوسری سرزمین پر مقیم قوم کو مضبوطی اور توانائی فراہم نہیں کرسکتی۔ اس لئے قوم کو خود اپنے اندر مضبوطی لانی ہوتی ہے تبھی جا کر وہ کامیابی کے حصول کی توقع کرسکتی ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے15 جون1948 کے اپنے ایک خطاب میں قوم کو متنبہ کیا تھا کہ ''کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے۔ خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ بالکل نئی اور نوزائیدہ مملکت ہیں جو زبردست اور بے شمار اندرونی وبیرونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ ایسے موقع پر مملکت کے وسیع ترمفاد کو صوبائی، مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔۔ خودکشی''۔ قائداعظم محمدعلی جناح کا یہ فرمان یقیناً قوم کو خود احتسابی اور اپنے چیلنجز اور آگاہی کا ادراک کرنے اور اُن کے حل کے لئے کمزور سہاروں کو تلاش کرنے سے اجتناب کا سبق دیتا ہے۔
یقیناًپاکستان کو آج بھی اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے لیکن اس قوم میں اپنے وطن کو مشکلات سے نکالنے کی ایک اُمنگ بھی موجود ہے۔ قوم کو اپنے مشرقی اور مغربی محاذوں پر درپیش چیلنجز بارے آگاہی ہے اور وہ اس دھرتی کو مضبوط بنانے کے لئے ریاست اور اداروں کی پُشت پر کھڑی ہے۔ پاکستان نے گزشتہ سالوں میں جس انداز سے دہشت گردی کے عفریت پر جو کافی حد تک قابو پایا ہے اس کے پیچھے قوم کا عزم اور وہ جذبہ ہے جو وہ اپنے وطن کی حفاظت بارے رکھتی ہے۔آج الحمدﷲ پاکستان میں امن عامہ کی صورت حال پہلے سے بہت بہتر ہے۔ آج پاکستان سیاحت کے حوالے سے پسندیدہ ملکوں کی فہرست میںشمارکیا جارہا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یقیناً ابھی بہت سے کام کرنے ہیں تاکہ ملک میں خوشحالی اور دیرپا امن کو یقینی بنایاجاسکے۔ اپنے مسائل اور درپیش چیلنجز سے آگاہ ہونا ہی اصل میں وہ پہلا قدم ہے جو قوم کو اِن مسائل کے حل کی جانب لے کر جاتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان بطورِریاست بین الاقوامی سطح پر بھی امن اور ترقی میں شراکت دار ہے۔ افعانستان میں قیامِ امن کے لئے پاکستان کا ایک کلیدی کردار ہے۔ اسی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں جس طرح سے بھارت نے آرٹیکل370 اور آرٹیکل35-A ختم کرکے کشمیریوں کی آزادی کو سلب کرنے کی سعی کی ہے اس پر بھی پاکستان نے دنیا بھر کی توجہ اس جانب دلائی ہے۔ اقومِ متحدہ میں کئی سالوں کے بعد پھر سے مسئلہ کشمیر پر غور و خوض شروع کیاگیا ہے۔ پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتیئِ کشمیر منایا جاتا ہے جو اس امر کا اعادہ ہے کہ پاکستانی قوم اور ریاست مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہندوستان کے گھنائونے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی اور وہ ان مشکل لمحات میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور اُس وقت تک اپنے مؤقف پر قائم رہے گی جب تک مسئلہ کشمیر کا کوئی حتمی حل نہیں نکل آتا۔
یقینا پاکستان کی مضبوطی اور وقار اس قوم کی باہمی یگا نگت اور اتحاد ہی میں پنہاں ہے۔ قوم اندر سے مضبوط ہوگی تو اس کا کردار بین الاقوامی امور میں بھی تسلیم کیا جائے گا۔ قوم کو متحدرہنا ہے، ایک رہنا ہے کہ اسی میں مسائل کا حل ہے اور اسی میں سبز پرچم کا وقار پوشیدہ ہے۔ بقول علامہ اقبال:
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
یہ تحریر 852مرتبہ پڑھی گئی۔