اداریہ

یومِ یکجہتی کشمیر

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے1990 میں پہلی دفعہ یومِ یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا،اس کے بعد دنیا بھر میں جہاں کہیں کشمیری اور پاکستانی شہری موجود ہیں وہ کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کشمیر ایک اہم تنازع ہے جس کا حل ہونا بہت ضروری ہے ۔ یومِ یکجہتی کشمیر درحقیقت کشمیریوں کے حقوق کی بات کرتا ہے کہ اقوامِ متحدہ  میں کشمیریوں کے حقِ رائے دہی کے لیے جو قرار داد منظور کی گئی تھی اس پر عملدرآمد کرایاجائے۔یومِ یکجہتی کشمیر بھارت اور انگریز سرکارکی ملی بھگت سے27اکتوبر1947 کے اُس اقدام کی بھی مذمت کرتا ہے جس کے ذریعے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیاگیا۔اُسے یومِ سیاہ کے طور پریاد کیاجاتا ہے۔
اسی طرح بھارتی آئین کے مطابق کشمیریوں کو آرٹیکل 370 اور35-A کے تحت جو خصوصی حقوق حاصل تھے وہ 5 اگست 2019 کو ان آرٹیکلز کو منسوخ کر کے غصب کر لیے گئے جن کے خلاف کشمیری عوام، ریاستِ پاکستان سمیت دنیا بھر میں احتجاج کیاگیا اور ان قوانین کی بحالی کے لیے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن بھارت کی ظالمانہ حکومت اسی پر اکتفا نہیں کررہی، وہ کشمیر میں ہندوئوں کی آباد کاری بھی جاری رکھے ہوئے ہے، اس کے علاوہ وہ بھارت میں مشترکہ سول کوڈ کا نفاذ عمل میں لا کر اقلیتوں کے لیے مزید مسائل پیدا کررہی ہے۔ بھارت میں مسلمان، سکھ ، عیسائی اور دیگر اقلیتیں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ کشمیریوں کو تو ویسے ہی بھارت کی آٹھ لاکھ فوج نے غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ ان کی تعلیم، صحت اور دیگر روز مرہ کے حقوق خالصتاً بھارتی فوج کے رحم و کرم پر ہیں۔ مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کو پیلٹ گنز سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔ انہیں گاڑیوں کے آگے باندھ کر ان پر تشدد کیاجاتا ہے۔ بھارت کی یہ تمام کوشش کشمیری عوام کی زبانیں بند کرنے کے لیے ہیں لیکن یہ اس کی بھول ہے کیونکہ کشمیری عوام بھارت سے آزادی کے لیے اپنی سردھڑکی بازی لگائے ہوئے ہیں۔
 کشمیر کے حوالے سے ریاستِ پاکستان ایک اہم فریق ہے۔ معاملہ اب بھی اقوامِ متحدہ میں زیرِ التوا ہے ۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ برسرِ اقتدار آنے والی ہر پاکستانی حکومت کا کشمیر کے حوالے سے ایک اصولی مؤقف رہا ہے۔ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سیدعاصم منیر نے بھی آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا۔ وہ لائن آف کنٹرول پر تعینات فوجی جوانوں اور افسروں سے ملے اور اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور بلند حوصلوں کی تعریف کی۔ انہوں نے ٹروپس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے حال ہی میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر پر بھارتی قیادت کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دیکھے ہیں۔ میں واضح کردوں، اگر کبھی ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنے مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں بلکہ دشمن کو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف نے کہا کہ کسی بھی غلط فہمی کی بنیاد پر کی گئی مہم جوئی پر قوم کی حمایت سے ہماری مسلح افواج پوری قوت سے جواب دیں گی۔ بھارتی ریاست اپنے مذموم عزائم کو کبھی حاصل نہیں کرسکے گی۔ آرمی چیف نے کہا کہ دنیا انصاف کو یقینی بنائے۔ انہوں نے کشمیری عوام سے اقوامِ متحدہ کی قرار داد وں کے مطابق وعدوں پر عمل کرنے پربھی زور دیا۔
بلاشبہ چیف آف آرمی سٹاف کا بیان اس امر کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ افواجِ پاکستان کشمیریوں کے مؤقف کے ساتھ ڈٹ کرکھڑی ہیں اور وہ کشمیریوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ریاستِ پاکستان کا اصولی مؤقف بھی یہی ہے اور ریاست کا یہ عزم ہے کہ کشمیر کے معاملے کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے تاکہ خطے میں امن اور خوشحالی کو یقینی بنایاجاسکے۔ ||



 

یہ تحریر 148مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP