ہجرت مدینہ کے بعد پاکستان کا قیام دوسری بڑی ہجرت ہے ۔ لاکھوں مسلمانوں نے جہاں جانوں کا نذرانہ دیا وہاں مالی قربانیاں بھی تحریکِ پاکستان کا ایک الگ باب ہیں۔ ہم نے قافلے لٹاکر منزل کو سینے سے لگایا۔ اپنا مال و اسباب آزادی پر قربان کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1857ء کی جنگ آزاد ی کے بعد مسلمان اپنے ہی گھر میں مقید ہوگئے ۔فکر و سوچ کے حصار توڑ کر مسلمان سرسیداحمد خان کی تحریک میں شامل ہوئے۔ دو قومی نظریے کو تقویت حاصل ہوئی ۔سر سید احمد خان نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر تحریک علی گڑھ کا آغاز کیا۔ اس تحریک نے مسلمانوں میں تعلیمی ، سیاسی اور معاشرتی شعور بیدار کیا۔ مالی معاونت اس تحریک کی کامیابی ثابت ہوئی۔ مسلمانوں نے دل کھول کر چندہ دیااور مسلمانوں میں آزادی کا شعور بیدار ہوا۔
امیرِ ریاست بہاولپور نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور آزاد ی کے بعد بہاولپور کا الحاق پاکستان سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت جب پاکستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی حتٰی کہ سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں کی رقم بھی موجود نہ تھی تواِن حالات میں نواب صادق نے پاکستان کی بھرپور مالی امداد کی۔
مہدی علی خاں المعروف نواب محسن الملک ( 1837تا 1907ء ) نے تحریک علی گڑھ کو مدد سے نوازا ۔ انھوں نے اس کے بہت سے قرضہ جات بھی اتارے ۔ مشتاق احمد ، نواب وقارالملک (1841ء تا 1917ء ) کی مالی امداد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ 1905ء کی تقسیم بنگال اور 1911ء کی تنسیخ بنگال کے دوران مسلمانوں کی حالت زار دور کرنے کے لیے نواب وقارالملک نے بھرپور امداد کی ۔مسلمانوں کے اخبارات بالخصوص '' ہمدرد'' اور ''زمیندار '' میں نہ صرف مضمون لکھتے رہے بلکہ ان کی مالی مدد بھی کرتے رہے ۔ انھوں نے امروہہ کے عوام کی فلاح و بہبود اور سیاسی بیدار ی کے لیے بھی کام کیا ۔ مولانا تاج محمود امروٹی (1844ء تا 1929ئ) نے جدوجہد آزادی میں جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ مال سے بھی جہاد کیا ۔ لسبیلا اور قلات میں مسلمانوں کی فلاح و بہبو د کے لیے ادارے قائم کیے ۔ تحریک ریشمی رومال اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔
پیر مہر علی شاہ (1859ء تا 1937ء ) نے مسلمانوں کے لیے جدید علوم کا راستہ ہموار کرنے کے لیے گراں قدر حصہ لیا ۔ وہ شاہی درباروں میں شرکت سے گریز کرتے رہے ۔ انھوں نے اپنی ذاتی جاگیر مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف رکھی ۔ جنر ل ڈائر کے مظالم میں زخمی مسلمانوں کی مالی اعانت کرتے رہے ۔1920ء میں انھوں نے مولانا ظفر علی خان کے کہنے پر مسلمانانِ ہند کی امداد کی ۔ صوبہ سرحد کی تحصیل صوابی کے گاؤں ٹوپی میں صاحبزادہ عبدالقیوم (1864تا 1937ء )کا نام قومی خدمت کے حوالے سے ناقابل فراموش ہے ان میں فلاحی کاموں کے لیے بے پناہ جذبہ تھا ۔ اسلامیہ کالج پشاور کے قیام میں انھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ آج وہ ادارہ پشاوریونی ورسٹی کی صورت خدمات انجام دے رہا ہے ۔
1885ء میں کانگریس کی تشکیل ہوئی لیکن کانگریس نے مسلمانوں کی کوئی قابلِ قدر خدمت نہ کی۔ کاروانِ آزادی مسلمان اکابر کی قیادت میں آگے بڑھتا رہا۔مسلمانوں کو اپنی غلطیوں کا ادراک ہوا اور انھوں نے سوئے آزادی عزمِ نو کے ساتھ قدم بڑھانے شروع کیے۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے مسلمانوں نے اپنا جداگانہ تشخص ابھار لیا ۔ سرآغا سلطان محمد شاہ سوم (2نومبر1877ء تا 11جولائی 1957ء )اسماعیلی فرقے کے 48ویں امام کہلائے ۔ وہ ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم کے صدر منتخب ہوئے اور 1907ء سے 1913ء تک مسلم لیگ کے مسلسل صدر رہے ۔ وہ گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ساتھ فراخ دل بھی تھے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت پیسہ خرچ کیا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے لیے ایک کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی ۔ اُنھوں نے اپنی جیب سے بھی گراںقدر مالی اعانت کی۔ اُن کی اپیل پر ایک ہی دن میں تیس لاکھ روپے جمع ہوئے۔ حکومتِ برطانیہ نے اُنھیں اپنا وفادار سمجھتے ہوئے گول میز کانفرنسوں میں بھی مدعو کیا۔ سر آغا خان سوم کی فراخ دلی اُس دور میں ایک مثال تھی۔ اُنھوں نے جو منصوبے شروع کیے وہ آج تناور درخت ہیں۔ مسلم لیگ کے قیام کے علاوہ انجمن حمایت اسلام لاہور نے بھی اپنی تعمیر و تشکیل کے علاوہ مسلمانوں کے لیے مال و اسباب مہیا کرنے میں حصہ لیا۔
انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی طویل نظموں نے مسلمانوں کی عروقِ مردہ میں خون زندگی دوڑا دیا ۔ڈاکٹر علامہ محمداقبال کا جو کلام انجمن حمایت اسلام کے بڑے جلسوں میں پیش کیا جاتا اُسے پمفلٹ کی صورت میں شائع کر کے فروخت بھی کرنے کا اہتمام ہوتا ۔ علامہ اقبال کے والد گرامی شیخ نور محمد بھی یہ شائع شدہ کلام خریدتے ۔ اس عمل سے جو رقم جمع ہوتی وہ انجمن حمایت اسلام کے اخراجات کے علاوہ تحریک پاکستان کے لیے بھی استعمال ہوتی ۔مسلمان شمشیر بکف ہو کر میدان کارزار میں کود پڑے ۔ سر عبداللہ ہارون(یکم جنوری1872ء تا 27اپریل 1942ء ) بے تاج بادشاہ اور تاجر ہونے کے علاوہ سیاسی قطب بھی تھے۔ وہ اپنے کاروبار میں سے زکوٰة صدقات کی رقوم باقاعدگی سے مستحقین تک پہنچایا کرتے تھے۔ تحریکِ خلافت اور تحریک ریشمی رومال میں اُن کی مالی امداد ناقابلِ فراموش ہے ۔ مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ''کامریڈ ''کے دوبارہ اجراء کے لیے اُنھوں نے فیس جمع کروائی ۔ سندھی روزنامہ ''الوحید '' اور ہفت روزہ ''نصرت'' کو معقول رقم فراہم کی۔ اُنھوں نے مساجد ، کھیلوں کے میدان اور سماجی ادارے قائم کیے۔ اُن کا تحریک پاکستان میں گراں قدر حصہ رہا ۔وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ترغیب پر سندھ مسلم لیگ کی مالی مدد کرتے رہے ۔ شاہ ولی اللہ ، تحریک مجاہدین ، تحریک علی گڑھ اور مسلم لیگ کے اثرات سے منتشر مسلمان ایک بار پھر جمع ہوگئے ۔ 1908ء میں منٹو مارلے اصطلاحات منظر عام پر آئیں ۔1909ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے انجمن ضیاء الاسلام کے عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے سلسلہ میں مسلم انتخابی حلقوں کا تعین کرتے وقت مسلمان اکابر سے مشاورت کی اور ان مقاصد کے لیے مالی اعانت کی در خواست بھی کی ۔ کوئی بھی تحریک مالی مدد کے بغیر کامیابی کی منازل طے نہیں کر سکتی ۔ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کی مالی مدد شامل حال رہی ۔ قائد اعظم 1913ء میں مسلم لیگ کا حصہ بنے ۔ اس سے قبل مسلم لیگ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو چکی تھی ۔ 23مارچ 1910ء کو بمبئی میں ایک اجلاس منعقد ہوا ۔ خواجہ شاہ یوسف کی طرف سے جسٹس شاہ دین کو الوداعی دعوت دی گئی ۔ یہاں بھی مسلمانوں کی مالی مدد کا سلسلہ جاری رہا ۔ اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر ٹرانسوال میں ہندوستانیوں نے مسلم لیگ کے لیے ایک سو روپے کا عطیہ دیا ۔ مفتی کفایت اللہ (1875ء تا1953ء )نے 1911ء میں طرابلس اور بلقان کی جنگ میں مسلمان متاثرین کے لیے چندہ جمع کیا اور اس ضمن میں دو فتوے بھی دیئے ۔
پہلی جنگ عظیم 28جون 1914ء کو شروع ہوئی ۔ انگریز حکمران اس جنگ میں مصروف ہوگئے ۔یہ جنگ 11نومبر 1918ء کو اختتام پذیر ہوئی ۔ اس جنگ کے دوران کانگریس اور مسلم لیگ کے مابین کئی رابطے ہوئے ۔ 30دسمبر 1916ء کو میثاق لکھنؤ منظور ہوا ۔ اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح کانگریس کے اجلاس لکھنؤ میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے ۔ اس اجلاس میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو (13 فروری 1879ء تا 2مارچ1949ء ) نے یہ انکشاف کیا کہ گوپال کرشنا گوکھلے نے جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر قرار دیا تھا ۔ مہاراجہ محمو د آباد (1881ء تا 1931ء ) انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے خطیر رقم خرچ کی ۔ لکھنؤ یونیورسٹی کے لیے بھی مالی امداد کی ) ۔آئی آئی چندریگر(1897ء تا1960ء ) قیام پاکستان کے بعد سرکاری ملازمین کوپہلی تنخواہیں ان کے اکاؤنٹ سے دی گئیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے اگرچہ اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی لیکن انھیں اپنی دھرتی سے پیار تھا ۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی پر کفِ افسوس ملا کرتے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے 1919ء کے انڈیا نیشنل ایکٹ (کالا قانون) کے خلاف احتجاج میں قائد اعظم محمد علی جناح اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہے ۔ امرتسر میں جلیانوالاباغ (13اپریل 1919ء ) میں مسلمانوں کے منتشر اجلاس پر جنرل ڈائر نے 1850گولیاں فائر کیں جس سے تقریباً 400 افراد شہید اور 1208زخمی ہوئے ۔ جنرل ڈائر نے سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمیوں کی فوری طبی امداد کا بھی اہتمام نہ کیا۔ ہندوستان میں ہلچل مچ گئی ۔پنجاب میں مارشل لاء نافذ کیا گیا۔ معصوم لوگوں پر ظلم کی یہ داستان ہمیشہ یاد رہے گی۔ متاثر ین کی مدد کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے مخیر حضرات سے مدد کی اپیل کی ۔ ان کے کہنے پر مسلمانوں نے دل کھول کر چندہ دیا ۔ تحریک خلافت کے دم توڑنے کے بعد شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 1926ء مجلس قانون ساز کے ممبر بنے ۔ ایک طرف قائد اعظم تو دوسری طرف علامہ محمد اقبال بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے کوشاں رہے ۔ فطری امر ہے کہ اس کام کے لیے پیسے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کاروان آزادی کو تقویت عطا کی ۔ لاتعداد قربانیوں کے بعد آزادی کا یہ سفر آگے بڑھتا رہا ۔ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس الٰہ آباد میں 1930ء کو منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا خاکہ پیش کیا ۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے مصور پاکستان کے اس خاکہ میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اپنے ہم خیال لوگوں کو یک جا کرنا شروع کیا ۔
علامہ اقبال کے اس خاکہ کو چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام دیا ۔ 1935ء کے انڈین نیشنل ایکٹ کے تحت 1936ء میں ہونے والے انتخابات میں کانگریس کو فتح ہوئی اور مسلم لیگ الیکشن ہار گئی۔1937ء میں کانگریسی وزارتیں منظر عام پر آئیں۔ کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ یکم ستمبر 1939ء کو نازی جرمنی کے سربراہ ایڈولف ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کر دیا اور یوں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی ۔ انگریز اس جنگ میں مصروف ہوگئے ۔ مسلمانوں کو تحریک آزادی تیز سے تیز کرنے کا موقع ملا ۔ 1945ء میں دوسری جنگ عظیم اپنے انجام کو پہنچی ۔ اس جنگ کے دوران ہی 2دسمبر 1939ء کو انگریز حکومت نے کانگریس کی صوبائی حکومتوں کو ختم کر دیا ۔ 22 دسمبر 1939ء کو قائد اعظم کی اپیل پر برطانوی ہند میں یوم نجات منایا گیا۔ آزادی کی طرف اٹھنے والے یہ قدم 23 مارچ 1940ء تک پہنچ گئے ۔ 22 مارچ 1940بروز جمعتہ المبارک قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال پارک (منٹو پارک ) میں مسلمانوں کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے جہاں دو قومی نظریے کی تشریح کی وہاں مسلم لیگ کے لیے مالی اعانت کا پیغام بھی دیا ۔ سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پر وفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے ایک ملاقات پر بتایا کہ شرکاء اجلاس نے اس موقع پر دل کھول کر چندہ دیا ۔ 23 مارچ کو قرار داد پیش ہوئی اور 24مارچ 1940ء کو پورے ہندوستان کے نمائندہ مسلمانوں نے اسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا ۔ اسے قرار داد لاہور کہا گیا ۔ 1942ء میں اسے قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا ۔ مٹھی بھر مسلمان آج منظم جم غفیر کی صورت دنیا کے سامنے اپنا حق مانگ رہے تھے ۔ چندہ مہم کے سلسلہ میں ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں مسلم قائدین نے خطاب کرتے ہوئے چندہ کی اپیل کی ۔یہ سنتے ہی مسلمانوں نے نقدی اور زیورات اسٹیج پر پھینکنا شروع کر دیے ۔ یہ عمل دیکھتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح اپنی نشست سے اٹھے اور کہا کہ میں ایک منظم قوم چاہتا ہوں۔ آپ اپنی اپنی رقم اٹھا لیں اور اسے بذریعہ منی آرڈر ارسال کریں تاکہ آپ کے پاس ریکارڈ رہے کہ کس نے مسلم لیگ کو کیا دیا ۔ چند روز بعد وصول ہونے والے منی آرڈر بوری میں بھر گئے ۔قائد اعظم اپنے کمرے میں موصول شدہ منی آرڈر ز پر دستخط فرما رہے تھے کہ محترمہ فاطمہ جناح نے رات گئے کام کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا کہ وہ اپنے دستخط کی مہر بنوا لیں ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیا کہ جس قوم کے افراد نے مجھ پر اتنا بھروسہ کیا ہے تو کیا اس کے عوض میں انھیں اپنے دستخط بھی نہیں بھیج سکتا ؟کسی قائد کی ایمانداری کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اُنھوں نے لوگوں کی امانت کا بہت خیال رکھا۔ مولانا شوکت علی نے انجمن خدام کعبہ تشکیل دی۔ انھوں نے تحریک پاکستان کی مالی اعانت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو جو رقم موصول ہوتی وہ اس کا مکمل ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھتے ۔ لوگوں تک رسیدات بھجوانے کا خاص اہتمام کرتے ۔ قرارداد پاکستان کے بعد تحریک پاکستان میں تیزی آگئی ۔ حکومت کی طرف سے 1946ء کے انتخابات کا اشارہ ملتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان سروں سے کفن باندھ کر میدان سیاست میں اتر آئے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ انتخابات سرمائے کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے ۔ کئی مسلمان امیدوار مالی اعتبار سے مضبوط تھے اس کے علاوہ قائد اعظم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے سلسلہ شروع کیا ۔ سٹنیلے والپر ٹ کے مطابق اگست 1945ء میں قائد اعظم کراچی اور بیس اکتوبر 1945ء کو بلوچستان کے دارا لحکومت کوئٹہ تشریف لے گئے ۔ قاضی عیسیٰ کی رہائش گاہ پر عصر کے وقت تقریب ہوئی جہاں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے طلباء بھی جمع ہوئے ۔ نقدی کے علاوہ اس جلسے میں ایک غیر معروف شخص نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ڈیڑھ من چاندی کی سلاخیں پیش کیں او راپنا نام ظاہر کرنے سے گریز کیا ۔نومبر 1945ء میں قائد اعظم پہلے بمبئی اور پھر پشاور پہنچے ۔ پٹھانوں نے قائد اعظم کو دل کھول کر چندہ دیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کر نا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان مالی امداد کا سلسلہ جاری ہے ۔ ریاست حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم میر لائق علی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جب میں نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی تو انھوں نے بڑے فخر سے کہا کہ ہمیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ قائداعظم کی علالت کے باعث لوگوں سے ملاقات مشکل تھی ۔ لاہور میں قائد اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد میر لائق علی نے نظام حیدر آباد سے پاکستان کو 20 کروڑ روپے دلوائے ۔اسی طرح پاکستان کے کئی بڑے شہروں سے مالی اعانت ہوتی رہی ۔ اسی لیے قائد اعظم نے تاجروں سے کہا تھا کہ تعمیرات کا آغاز کرنے والے حکومت کو مضبوط بنائیں گے ۔
معاشیات او رتجارت کو قوم کی شہ رگ بتا تے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا : '' میں سرکاری حکام یا کسانوں کے بغیر پاکستان میں اتنی کمی محسوس نہیں کرتا جتنی تاجروں کے بغیر ہوتی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ تاجروں اور سوداگروں کا خیر مقدم ہوگا اور وہ اپنی آمدنی کے ساتھ ساتھ مساوات او رجائز کمائی کو کبھی نہ بھولیں گے۔ پاکستان میں چند ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جانے کی وجہ سے حکومت کو بڑی تشویش ہے اور وہ ان میں کمی کرنے کے طریقوں پر غور کر رہی ہے، مجھے مکمل یقین ہے کہ میری حکومت آپ کے تعاون پر بھروسہ کر سکتی ہے ۔''
(قائد اعظم محمد علی جناح از شاہدہ لطیف ۔کراچی : رنگ ادب ، ٢٠١٩ء ، ص ٤٧٣ )
جن لوگوں کی گراںقدر مالی امداد سے تحریک پاکستان اپنی منزل تک پہنچی اُن میں ایک نواب صادق محمد خان عباسی ، امیرِ ریاست بہاولپور تھے۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے اور 24مئی 1966ء کوسفرِ آخرت اختیار کر گئے۔ اُن کے والد نواب محمد بہاول خامس فروری 1907ء میں سفرِ حج سے واپسی پر داغِ مفارقت دے گئے۔ نواب الحاج سر صادق محمد خان عباسی نے 1924ء میں اقتدار سنبھالا ۔ اُن کے دورمیں ریاست کے ہر میدان میں ترقی ہوئی ۔ امیرِ ریاست بہاولپور نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا اور آزاد ی کے بعد بہاولپور کا الحاق پاکستان سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت جب پاکستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی حتٰی کہ سرکاری ملازمین کے لیے تنخواہوں کی رقم بھی موجود نہ تھی تواِن حالات میں نواب صادق نے پاکستان کی بھرپور مالی امداد کی۔ 20ہزار ایکٹر اراضی پاکستان کے سپرد کر دی۔ 1955ء تک بہاول پور ایک آزاد یونٹ کے طور پر پاکستان کا حصہ رہا۔ امورِ خارجہ ، دفاع اور خزانہ کے علاوہ تمام امور میں خود مختار رہا۔ 1955ء میں ون یونٹ کے قیام کے بعد بہاول پور کو صوبہ مغربی پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود یہ ریاست صوبہ پنجاب میں شامل ہے،جسے ایک ڈویژن کا درجہ حاصل ہے ۔ صادق محمد خان کی دریا دلی کسی طرح بھی ناقابلِ فراموش ہے ۔ تحریک پاکستان میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح (31جولائی 1893ء تا 9جولائی 1967ء )کی مالی امداد شاملِ حال رہی۔ قوم نے اُن پر اندھا اعتماد کیا۔ محترمہ بیگم وقارالنساء نون (جولائی1920ء تا 16جنوری 2000ء )کا نام بھی تحریک پاکستان میں مالی امداد کے حوالے سے ناقابلِ فراموش ہے۔ یہ پیدائشی انگریز تھیں لیکن 1945ء میں سر فیروز خان نون سے شادی کے وقت اسلام قبول کر لیا۔ ان کا اسلامی نام وقارالنساء رکھا گیا۔ فیروز خان نون نے وائس رائے کی ایگزیکٹو کونسل کی رکنیت چھوڑ کر 1946ء میں مسلم لیگ میں شمولیت کی۔ اُنھوں نے سرکا خطاب بھی واپس کر دیا۔ بیگم وقارالنسا ء نون نے اپنے شریکِ سفر کے ساتھ تحریکِ پاکستان کے لیے سرگرمی سے حصہ لیا۔ خضر حیات ٹوانہ کے خلاف عوامی تحریک میں گرفتار ہوئیںاور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔ وقارالنساء نون نے ہجرت کے بعد مہاجرین کی آباد کاری اور بحالی کے لیے بہت کام کیا۔ 1948ء میں آل پاکستان وومنز ایسوسی ایشن (اپوائ)کے قیام میں بیگم لیاقت علی خان کے ساتھ کام کیا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں انجمن ہلالِ احمر (ریڈ کراس)کا حصہ رہیں۔ جب ملک فیروز خان نون مشرقی پاکستان کے گورنر تھے تو بیگم صاحبہ نے متعدد سماجی تنظیموں میں رہتے ہوئے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیا۔ اِسی طرح جب فیروز خان نون صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ (1953ئ)مقرر ہوئے تب بھی سوشل ورکنگ کے اداروں میں اُن کا بہت سا حصہ ہے۔
علاوہ ازیں مختلف علاقوں سے علماء کرام نے بھی تحریک پاکستان میں مالی امداد کی۔ خصوصاً حکیم اجمل خان (1863ء تا 1934ء ) ۔نواب علی چو دھری ( 1863ء تا1928ء ) ۔ مولانا اشرف علی تھانوی ( 1863تا 1943ء ) ۔ سر عبدالرحیم (1867ء تا 1948ء ) ۔ حبیب الرحمن خاں شیروانی ( 1867ء تا 1950ء ) ۔ مولوی فضل الحق ( 1873تا 1962ء ) ۔سر ذوالفقارعلی خان (1867تا 1933ء ) ۔ میاں فضل حسین (1877ء تا 1936ء ) ۔ جسٹس شاہ دین (1868ء تا 1918ء ) ۔ سر غلام حسین ہدایت اللہ (1979تا 1948ء ) ۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری (1880تا 1936ء ) ۔ نواب شاہ نواز خاں ممدوٹ ( 1883تا 1942ء )۔ پیر صاحب مانکی شریف (1923ء تا 1960ء ) ۔ قاضی محمد عیسیٰ (1914ء تا 1976ء ) نواب حسین خان ممدوٹ ( 1906تا 1969ء ) نواب بہادر یار جنگ (1905ء تا 1944ء ) ۔ میر احمد یار خاں ( 1902ء تا 1977ء ) ۔ نواب صدیق علی خان ( 1900ء تا 1974ئ) سردار عبدالرب نشتر ( 1899تا 1958ء )۔ سر ظفر اللہ خان (1893ء تا 1985ء ) ۔ سرسکندر حیات خاں (1892ء تا 1942ء ) ۔ سر میاں محمد شفیع (1869تا 1932ئ) اور ایسے ہی کئی مخیر مشاہیر تحریک پاکستان نے قیام پاکستان اور تشکیل پاکستان کے لیے مالی معاونت کا اہتمام کیا ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح جو بات کہتے اُس پر خود بھی عمل کیا کرتے تھے۔ اُنھوں نے اپنی تمام تر جائیداد تعلیمی اداروں کے نام وقف کر کے استحکام پاکستان میں گراں قدر حصہ لیا۔ اُن کی اعلیٰ ظرفی دیکھتے ہوئے بہت سے صنعت کاروں اور تاجروں نے تعمیر وطن میں حصہ لیا۔ عصرِ حاضر میں بھی یہ جذبہ کم نہیں ہوا ۔ بہت سے تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں اور خیراتی اداروں کا بندوبست مخیر حضرات ہی کر رہے ہیں۔ بانیانِ تحریکِ پاکستان نے قربانی دینے کی جو روایت شروع کی تھی وہ آج بھی جاری و ساری ہے ۔ ہم سب کا کامل یقین ہے کہ ہماری انفرادی زندگی پاکستان سے وابستہ ہے اور ہمیں وطن عزیز کے پسماندہ لوگوں کی مدد کر کے یہ رسم جاری رکھنا ہو گی۔ ||
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 882مرتبہ پڑھی گئی۔