ہمارے غازی وشہداء

شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن

گزشتہ دنوں بنوں میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو بازیاب کروانے کے لیے کامیاب فوجی آپریشن کیا گیا جس میں ہماری سپیشل سروسز کی یونٹ ضرار کے کمانڈوز نے متعدد دہشت گرد جہنم واصل کیے ۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران زخمی ہوکر جام شہادت نوش کرنے والوں میں نائب صوبیدارظفریاب بھی شامل تھے۔ جو تین ہفتے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد جنت نشین ہو گئے۔کارروائی کے دوران ان کی آنکھیں زخمی ہوئی تھیں ۔ بینائی چلے جانے کے باوجود ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ انہوں نے ہسپتال میں اپنے بستر پر لیٹے لیٹے دشمن کو للکارتے ہوئے کہا کہ'' مجھے نظر آنا بند ہوا ہے لیکن میرے ہاتھ سلامت ہیں، میں انہی ہاتھوں سے اپنے ملک کے دشمنوں کو قتل کروں گا ۔''



 یہ ہیں اس پاک دھرتی کے سر فروش ، جن کامقصد ہی اپنے ملک پر نثارہونا ہے۔ شہید ظفر یاب کی میت راولپنڈی سے ان کے آبائی گائوں رینالہ خورد لائی گئی اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ انہیں ان کی والدہ کے قدموں میں دفن ہونا نصیب ہوا ۔ یعنی قبر بھی اس خوش نصیب ماں کے قدموں میں ملی جس کے بارے میں میرے نبی ۖ کا فرمان ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے ، اور ہر آنکھ اشکبار تھی اور ان کے جنازے میں ایک جم غفیر تھا ۔
وطن کی مٹی اپنی حفاظت کے لیے قربانی مانگتی ہے اور قربانی بھی ایسی جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ قربانی صرف وہی لوگ دیتے ہیں یا دے سکتے ہیں جن کو اپنی دھرتی سے پیار ہوتا ہے اور وہ ملک کی آزادی کو ترجیح د یتے ہوئے اپنی جان اور مال وطن پر نثار کرتے ہیں۔ یہ اس مٹی کی حرمت کے تحفظ کے لیے لڑتے ہیں ۔ اپنے والدین، بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ جاتے ہیں کہ انہوں نے وطن سے وفا نبھانے کی قسم کھائی ہے ۔شہید ظفر یاب کے بچوں کو بھی تنہا سفر کرنا ہوگا، مگر وہ سر اٹھا کر جئیں گے کہ وہ اس پاک سر زمین پر مر مٹنے والے شہید کے وارث ہیں ۔بے شک ان ماؤں اور باپوں کو سلام جو ایسے سپوتوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور وقت آنے پر اپنا آخری سہارا وطن کی حفاظت کے لیے بطور نذرانہ پیش کر دیتے ہیں۔



 سپاہی  ظفریاب شہید3 فروری 2000 کو پاک فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ 2004ء میں سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) میں شمولیت اختیار کی تھی ۔علاقے میں انتہائی شریف النفس اور بہادر انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔وہ جتنے دن زخمی رہے، ان کے ساتھی اسی امید میں دعا کرتے رہے کہ وہ جلدصحت یاب ہو کر  ایک بار پھر ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے اور ہم ایک بار پھر اکھٹے آپریشنز میں شریک ہوں گے لیکن ان کا سفر بس یہیں تک تھا۔یہ ہماری قوم کے وہ بہادر سپوت ہیں جو مہینوں، سالوں اپنوں سے دور رہتے ہیں، اپنے جسموں پر بے پناہ مشقتیں برداشت کرکے اس لائق ہوتے ہیں کہ بنوں آپریشن جیسی کسی اہم مہم کا حصہ بن سکیں۔آپ کی فوج یہ شیردلیر کس قدر محنت سے تیار کرتی ہے اس کا شاید عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں۔یہ قیمتی ترین جان جب اس طرح شہید ہو جاتی ہے تو اس کا جانا ایک عظیم ترین نقصان الگ،ساتھ ہی ساتھ ان کو تیار کرنے والے اور پہلے دن سے لے کر آخری مہم تک کہ ان کے ساتھی جس درد سے گزرتے ہیں یہ درد وہی جان سکتا ہے جس نے اپنے کھوئے ہوں۔ درحقیقت وطن کے لیے جام شہادت نوش کرنے والے کے لیے ذات،قبیلہ ،فرقہ کوئی معانی نہیں رکھتا۔وہ اپنے ملک کی آن اور شان اور اس کی آزادی کی خاطر مر مٹتا ہے ۔شہادت کے بلند درجوں کے متوالے دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔جب بھی دشمن نے للکارااس دھرتی کے بہادر سپوت محاذ پر دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور جانبازی سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتے اورقوم کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔ ان کاصرف ایک ہی جذبہ ہے اور وہ ہے شہادت جس سے ہنود و یہود لرزتے ہیں اور ان کے اربوں ڈالرز کا جدید مہلک جنگی تیاریاں بھی ڈھیر ہیں۔ ||


مضمون نگار مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں
[email protected]

یہ تحریر 104مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP