بھارت میں یوں تو بہت سے مذاہب اور اقلیتیں بستی ہیں لیکن حقیقت میں یہ ملک صرف متعصب ہندوئوں کے لیے جنت اور باقی کمیونٹیز کے لیے جہنم ہے ۔ اس حوالے سے ہم آئے روز ہندوریاست کی تنگ نظری کے واقعات دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ 4جون2022ء کو مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پرامریکی وزیرخارجہ ٹونی بلنکن نے کہا کہ ''بھارت میں عبادت گاہوں اوراقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد پرحملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اورمذہبی اقلیتوں کیلئے برداشت کم ہوتی نظر آ رہی ہے''۔
دریائے جہلم پر معاہدہ کے تحت پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کررہا ہے۔کشن کنگا دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے۔اس طرف پاکستان اپنے حصے کے دریائے جہلم پر نیلم ہائیڈرو پراجیکٹ تعمیر کررہا ہے جسے سخت نقصان کااندیشہ ہے۔
یوں تو مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں بھارتی ریاستی اداروں کی مکمل سرپرستی میں اقلیتوں سے ان کے بنیادی انسانی حقوق چھینے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب ایک اورتلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک میں بھی مداخلت سے باز نہیں آتا اور انہیں مختلف حیلے بہانوں سے پریشان کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتا، اس حوالے سے پاکستان سرفہرست ہے جہاں ایک جانب تو بھارت مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر کے یہاں لاء اینڈ آرڈرز کے مسائل پیدا کر رہا ہے تو دوسری جانب ''آبی دہشت گردی ''کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنانے کے مذموم مقاصد پر عمل پیرا ہے۔
آئیے! اس حوالے سے ہم درج ذیل سطور میں حالات ، واقعات اور تنازعات کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد خطہ برصغیر کا جغرافیہ بالکل بدل چکا تھا۔دیگر بہت سارے معاملات کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں وسائل کی تقسیم ایک بہت بڑا مسئلہ تھا جن میں پانی کی تقسیم کا معاملہ سرفہرست تھا۔سیرل ریڈ کلف کو ہندوستان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اس نے پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں ملکوں پر دریائوں اوردیگر آبی وسائل کا نظام واضح کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ دونوں ملکوں کی بہتری اسی میں ہے کہ آبی وسائل کانظام اسی طرح ایک اکائی کے طور پر چلنے دیں اوراس ضمن میں دونوں ملک آپس میں ایک معاہدہ کرلیں لیکن اس پرفریقین راضی نہ ہوئے۔ پاکستان کاموقف بالکل واضح تھا کہ اس طرح وہ مکمل طور پر بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔پھروہی ہوا جس کاڈرتھا کہ بھارت نے کشمیر پرزبردستی قبضہ کرلیااور اس نے ہر اس دریا پر جو پاکستان کی جانب بہتا تھا مکمل قبضہ کرکے مختلف آبی منصوبے شروع کر دیے۔ مارچ 1948ء میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں پانی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔ عین اس دن جب یہ مدت ختم ہوئی بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے راوی اور ستلج کا پانی روک دیاجس سے پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا لیکن درحقیقت ایسی بات نہیںتھی۔ اس نے باقاعدہ سازش کے تحت ایسا کیااورپھر آنے والے وقتو ں نے یہ ثابت کردیا کہ بھارت کس طرح آبی دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے دریاؤں کوبنجرکرنے کے لیے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کوشاں ہے۔اس میں بھارت کا سب سے بڑا ٹارگٹ تویہی تھا کہ پاکستان پانی کی کمی کے ہاتھوں مجبور ہوکر دوبارہ بھارت کے ساتھ انضمام پر مجبور ہوجائے یا پھر پانی کاسارا نظام بھارت کے حوالے کرکے خود اس کا محتاج ہو کر رہ جائے۔یہ تنازع یونہی چلتارہا۔1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے کوشش کریں تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنٹرول ختم ہوجائے جب کہ پاکستان کو کسی صورت بھارت کی بالادستی منظور نہیں تھی۔آخر کار ورلڈ بینک کی مزید کوششوں سے دونوں ملک ایک معاہدہ پر رضامند ہو گئے۔ یہ معاہدہ19ستمبر1960کوطے پایا جس کے تحت دریائے سندھ اور دیگردریائوں کا پانی منصفانہ طور پرتقسیم کردیاگیا۔یہ تاریخی معاہدہ ''سندھ طاس معاہدہ''(Indus Water Treaty ) کہلاتا ہے۔معاہدے کے تحت چھ میں سے تین دریا بھارت اور تین پاکستان کے حصے میں آئے جنہیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔دریائے سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق ہے جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جن پر بھارت کا حق تسلیم کیاگیا۔
اب اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل دوطرفہ واٹر انڈس کمیشن بھی قائم کیا جو بھارت اور پاکستان کے واٹر کمشینروں پر مشتمل ہے ۔ یہ کمیشن سندھ طاس معاہدے کے نفاذ اور مقاصد کا انتظام اور نگرانی کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ کمشن دونوں ممالک میں دریائوں کی صورتحال کو مانیٹرکرتاہے اور معلومات کاتبادلہ کرتا ہے تاکہ دونوں ملکوں میں پانی کانظام منصفانہ طورپر چلتارہے۔سادہ الفاظ میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کی تمام ترذمہ داری اسی دوطرفہ واٹر کمشن پر ہے۔
اب ہمیں اس بات کامنصفانہ جائزہ لینا ہے کہ فریقین ''سندھ طاس معاہدہ '' کی کس حد تک پاسداری کر رہے ہیں۔معاہدے میں شامل ہے کہ دونوں ملک دریائوں کے بہائو کا ڈیٹا اورا بی ذخائر کی تعمیر کی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکریں گے لیکن بھارت ہمیشہ اس حوالے سے پس و پیش سے کام لیتا آیا ہے ۔مئی 2022ء میں بھی دہلی میں دونوں ملکوں کے واٹرکمشینروں کے مابین تین رو زہ مذکرات میں سب سے بڑی بحث یہی رہی ہے کہ بھارت پاکستان کو دریائوں کی صورتحال اور اس پر بنائے جانے والے ڈیمو ں اوربیراجوں کا ڈیٹافراہم نہیں کررہا ۔
بھارت خود سے تو پاکستان کو ڈیٹا فراہم نہیں کررہا لیکن آج کل چونکہ ٹیکنالوجی کادور ہے اور کوئی معمولی چیز بھی کسی سے اوجھل نہیں رہ سکتی تو بھلا کیسے یہ ممکن ہے کہ بھارت پاکستان کے دریائوں پربڑے بڑے ڈیم بنانا شروع کردے اور پاکستان کوخبر تک نہ ہو،چنانچہ بھارت نے پاکستانی دریائوں پر جتنے بھی منصوبے شروع کیے ہیں پاکستان کے علم میں ہیں اوراس حوالے سے پاکستان ورلڈ بینک سمیت تمام عالمی فورمز پر صدائے احتجاج بھی بلند کرتا چلاآرہاہے۔بھارت کس طرح سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے، ذیل کی سطور میں ہم اس کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
دریائے جہلم پر معاہدہ کے تحت پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت دریائے نیلم کے پانی پر 330 میگاواٹ کا کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کررہا ہے۔کشن کنگا دریائے جہلم کا ایک معاون دریا ہے جسے پاکستان میں دریائے نیلم کہا جاتا ہے۔اس طرف پاکستان اپنے حصے کے دریائے جہلم پر نیلم ہائیڈرو پراجیکٹ تعمیر کررہا ہے جسے سخت نقصان کااندیشہ ہے۔پاکستان انڈس واٹر کمیشنر مہر علی شاہ نے29مئی2022ء کودہلی میں انڈیا واٹر کمیشنر سے مذاکرات سے واپسی پر میڈیاکو بتایا کہ'' کشن گنگا معاملہ سندھ طاس معاہدے سے آگے نکل چکا ہے اوراب یہ معاملہ ورلڈ بنک دیکھ رہا ہے۔''انہوںنے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کو بھارت کے نئے آبی منصوبے پکل ڈل' لوئر کلنائی آبی منصوبے پر بھی اعتراض ہے اور پاکستان کا مطالبہ ہے کہ بھارت ان منصوبوں کی تفصیلات فراہم کرے۔
اسی طرح بھارت دریائے چناب کے پانی پر بھی 850 میگا واٹ کا'' رتلے پن بجلی منصوبہ'' تعمیر کر چکا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔دریائے چناب پر بھی 2005ء میں بھارت نے بگلیہار ڈیم تعمیر کیاتھا جس کے خلا ف پاکستان نے عالمی بنک سے رجوع کیا۔ پاکستان کی جانب سے تاخیر کے باعث اس وقت تک بھارت یہ ڈیم 80 فیصد سے زیادہ تعمیر کرچکا تھا جس پر عالمی بنک نے پاکستان کے خلاف فیصلہ صادر کرتے ہوئے بھارت کو ڈیم مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث پاکستان کو روزانہ سات سے آٹھ ہزار کیوسک پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔''کوار ہائیڈروپاورپراجیکٹ'' مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں تعمیرہونے جارہاہے یہ بھی دریائے چناب پر بنایاجا رہاہے۔اسی طرح بارہ مولہ کے مقام پر بنائے گئے ''وولر بیراج ''پر بھی پاکستان کو شدید تحفظات ہیں لیکن بھارت نے اس کی پرواہ نہیں کی۔بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے تحت بے شک نیلم اور وولر کے پانی کے استعمال کا حق ہے لیکن جو پانی دریائے جہلم سے آئے گا اس پر کسی بھی قسم کا کوئی حق نہیں بنتا ۔پاکستان کامؤقف ہے کہ بھارت کے دیگر آبی منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت بھارت دریائے جہلم پر کوئی آبی ذخیرہ تعمیر نہیں کر سکتا۔
یہ وہ چند قابل ذکر منصوبے ہیں جو ہم نے مختصر طور پر بیان کیے ہیں اوران کا ذکر ہمیںآئے روزپاک بھارت انڈس واٹر کمیشنروں کی میٹنگز اورمیڈیا کے ذریعے بھی ملتارہتا ہے۔ان منصوبوں کے علاوہ بھی بھارت پاکستانی دریائوں پر مختلف چھوٹے بڑے منصوبے شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت مقبوضہ کشمیر میں دو سو کے قریب چھوٹے بڑے ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کررہا ہے جن میں سے بیشتر سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کر کے بنائے جا رہے ہیں لیکن ورلڈ بینک سمیت کوئی بھی طاقت بھارت کو ان عزائم سے باز نہیں رکھ سکتی ۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی واضح طور پر اپنا سخت موقف دے چکے ہیں کہ'' دریائے سندھ میں جو پانی انڈیا کا ہے اسے پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کے پانی پربھی ہمارا حق ہے ''۔
بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر بنائے گئے ڈیمز اور آبی ذخائر سے پاکستان شدید متاثر ہو رہا ہے اور دریائوں میں پانی کی سطح مسلسل نیچے گر رہی ہے۔پاکستان میں دریائے سندھ اور دیگر آبی ذرائع کی نگرانی کے لیے'' انڈس ریور سسٹم اتھارٹی''(IRSA) کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ اتھارٹی دریاؤں کی مسلسل نگرانی کرتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پانی کی صور تحال کے متعلق اپنی رپورٹ جاری کرتی ہے ۔ اس حوالے سے IRSAکی جانب سے پانی کی موجودہ صورتحال پر جو تفصیلات بتائی جا رہی ہیں وہ کافی پریشان کن ہیں۔ پانچ جون 2022ء کی ''ارسا''رپورٹ کے مطابق ملک میں پانی کے بحران نے22سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے اور یہ بحران شدت اختیار کررہا ہے۔ تربیلا ڈیم گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے خالی اور منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس وقت تمام صوبوں کو50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے جبکہ آبی ذخائر میں پانی کی کمی97 فیصد ہو گئی ہے۔ ارسا کے مطابق دریاؤں میں 56فیصد کم پانی آ رہا ہے۔ دریائوں میں پانی کا مجموعی بہا ئو1لاکھ 25ہزار کیوسک ہے جبکہ اس کے برعکس گزشتہ سال پانی کا مجموعی بہاؤ2لاکھ 84ہزار کیوسک تھا۔ اسی طرح ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ رہ گیا ہے جب کہ گزشتہ سال ڈیموں میں پانی کا ذخیرہ 35لاکھ ایکڑ فٹ تھا۔ارسا کی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب اور جہلم سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ دریائے جہلم میں پانی کی کمی کے باعث منگلا ڈیم آدھا بھی نہیں بھر پائے گااور خدشہ ہے کہ منگلا ڈیم میں ربیع سیزن کے لیے بھی پانی نہیں ہوگا۔ارسا کی رپورٹس اس خطرناک صورتحال سے پردہ اٹھاتی ہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی دریائوں پر آبی ذخائر تعمیر کرنے سے پاکستان کو آئے روز کس قدر پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے ۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ''انڈس واٹر کمیشنر''بھارت کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں لیکن ہر بار بھارت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژکردیتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ بھارت کی بدنیتی کا عمل دخل ہے جس کے تحت اس نے پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے اور اس کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانے کی نیت سے ہی پاکستان کی جانب آنے والے دریائوں پر چھوٹے بڑے دو سوسے زائد ڈیمز بنا لیے اور وہ جب چاہتا ہے پاکستان کا پانی روک کر اسے ایک ایک بوند سے محروم کر دیتا ہے جبکہ مون سون میں اطلاع دیئے بغیر فالتو پانی پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بھارت کی اس ''آبی دہشت گردی ''کے خلاف عالمی سطح پر مقدمہ لڑے اور بھار ت کی جانب سے کی جانے والی ' 'سندھ طاس معاہدے '' کی سنگین خلاف ورزیوں کو مختلف عالمی فورمز پراٹھائے اور اپنا ٹھوس موقف اختیار کرے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ادارے بھارت کوآبی دہشت گردی سے بازرہنے پرآمادہ کریں کہ وہ یوں اخلاقیات کا جنازہ نہ نکالے اور سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرے ۔ ||
یہ تحریر 1295مرتبہ پڑھی گئی۔