کہتے ہیں کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو اس کا حل مذاکرات کی میز پرہی نکلتا ہے۔پچھلے کچھ سالوں سے اہلِ علم اور سیاسی دانشور پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جس پختگی کا ذکر کر رہے تھے اس کا عملی مظاہرہ 27 دسمبر2016ء کو روس کے دارالحکومت ماسکو کی یخ بستہ فضاؤں میں منعقد کئے گئے پاکستان ،چین اور روس کے مشترکہ اجلاس میں نظر آیا۔اس اجلاس کا ایجنڈا دو اہم نکات پر مشتمل تھا، ایک تو افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا اور دوسرا پاک چین اقتصادی راہداری میں روس کی شمولیت کے لئے راہ ہموار کرنا۔
واشنگٹن اور نئی دہلی کی بڑھتی قربتیں دیکھ کر ماسکونے سفارتی سرگرمیوں کا رخ اسلام آباد کی جانب موڑ دیا ہے اور پاکستان نے بھی سفارتی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موقع سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔قدرتی طور پر پاکستان خطے میں چین کا سب سے بڑا اور اہم اتحادی ہے جبکہ روس چین کے ساتھ ا سٹریٹجک شراکت داری بڑھانے کا خواہش مند ہے جس کے لئے اسے پاکستان کا تعاون درکار ہے ۔اسی سلسلے میں پاکستان ، روس اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا آغاز ہوا اور دو خفیہ مذاکراتی مرحلوں کے بعد ستائیس دسمبر کوماسکو میں اسی مذاکراتی کڑی کے تیسرے مرحلے کا ایک کانفرنس کے ذریعے انعقاد کیا گیا جس میں خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور خاص طور پر افغانستان کے اندر قیام امن کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا گیا ۔ سہ ملکی گروپ میں افغانستان کی شمولیت کا بھی اصولی فیصلہ کیا گیا جبکہ ایران بھی جلد اس منصوبے کا حصہ ہو گا تاہم بھارت کو اس اتحاد میں شامل کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ دریں اثناء روسی میڈیا کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری (اب امریکہ میں پاکستانی سفیر)کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو چاہئے کہ مفاہمت کے حصول کی خاطر طالبان کے ساتھ پرامن مذاکرات کے حوالے سے عوام میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
تینوں ممالک اس حقیقت کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ خطے کی ترقی کا دارومدار افغانستان میں امن سے مشروط ہے جبکہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر پاکستان سمیت خطے کے دیگر تمام ممالک کو تشویش لاحق ہے ۔ماسکو کانفرنس میں داعش جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے اور مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔کانفرنس کے بعد پاکستان کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ امریکہ افغانستان میں امن قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے اس لئے پاکستان اب خطے کے دیگر ممالک کے تعاون سے افغانستان میں سیا سی استحکام اور امن لانے کی بھرپورکوشش کرے گا جبکہ کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کی نمائندہ ماریہ زخارووا کا کہنا تھا کہ تینوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان پر امن مذاکرات کی حوصلہ افزائی کے لئے بعض پابندیوں میں لچک اور نرمی دکھانے کی بھی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں وہ اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ اس ہاتھ دو اور اس ہاتھ لو اور پاکستان انتہائی محتاط انداز میں اس اصول پر عمل پیرا ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان اور روس کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئی تھیں اور ماضی میں بھارت روس کا اتحادی اور اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار رہا تھا لیکن پچھلے کچھ عرصے کے دوران بھارت اور امریکہ کی نزدیکیاں بڑھنے سے روس کو خطے میں نئے دوستوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پاکستان بہترین آپشن ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والی اقتصادی راہداری اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے گرم پانیوں تک براہ راست رسائی ہے۔ اقتصادی راہداری بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ اسے سبوتاژ کرنے کے لئے ہر روز نت نئے منصوبے بنانے میں مصروف ہے اور ان حالات میں روس کو اقتصادی راہداری میں شامل کرنے کا مطلب ہے کہ پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ روس بھی اقتصادی راہداری کے روٹس اور منصوبوں کی حفاظت کرے گا اور اس کے علاوہ پاکستان میں روسی سرمایہ کاری بھی بڑھے گی اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو روسی منڈیوں تک براہ راست رسائی بھی ملے گی۔
ماسکو کانفرنس کے ایجنڈے کا دوسرا اہم نکتہ پاک چین اقتصادی راہداری میں روس کی شمولیت کے لئے راہ ہموار کرنا ہے جس کے تحت پاکستان نے روس کو گوادر بندرگاہ کے استعمال کی اجازت دیدی ہے ۔پاکستان اور روس کی قربت اس وقت ہی بڑھنا شروع ہو گئی تھی جب بھارت کے بارہا منع کرنے کی درخواست کے باوجود روس نے مشترکہ فوجی مشقوں کے لئے اپنے فوجی پاکستان بھیجے تھے۔ پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعاون اس وقت بڑھانے کا موقع ملا جب روس نے 2014ء میں پاکستان کے لئے دفاعی سازو سامان خریدنے کی پابندی کو نرم کیا۔یہ وہ وقت تھا جب بھارت امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری بڑھانے میں مصروف تھا اوراسی وجہ سے روس اور بھارت میں فاصلے پیدا ہوئے جبکہ اس خلا کو پاکستان نے انتہائی احتیاط کے ساتھ پُر کیا جس سے پاک چین اور روس کے سہ ملکی اتحاد کی راہ ہموارہوئی ہے ۔
پاکستان ، چین اور روس تین ملکی اتحاد میں چین اقتصادی لحاظ سے مضبوط ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان اور روس دونوں کے لئے اہم اکنامک ڈرائیور ثابت ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان خطے میں اپنے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اس لئے چین اور روس دونوں اپنی اقتصادی پالیسیوں کی تکمیل کے لئے پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تعاون کو بین الاقوامی تعلقات میں ایک بڑی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔کئی دہائیوں کے تعطل کے بعد دونوں ملک اپنے تعلقات کو استوار کرنے جا رہے ہیں ۔پاکستان پر امریکی دباؤ کم کرنے کے لئے ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ پچھلے پندرہ ماہ کے دوران پاکستان کے کئی اعلیٰ سول و فوجی افسران باہمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے ماسکو کا دورہ کر چکے ہیں جس کے نتیجے میں ہی پاکستان اور روس کے درمیان چار ایم آئی۔35 جنگی ہیلی کاپٹروں کی پاکستان کو فروخت کا معاہدہ طے پایا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ امریکہ کی بھارت نواز پالیسیو ں نے پاکستان کو امریکہ کا متبادل ڈھونڈنے پر مجبور کیا ہے۔اسی طرح روس جدید دفاعی ٹیکنالوجی کا حامل ملک ہے جو کہ پاکستان اور چین دونوں کے لئے مغربی دفاعی سازو سامان کا متبادل بھی ہو سکتا ہے جبکہ روس ایک عرصے سے خلیجی ریاستوں کے گرم پانیوں تک رسائی کا خواہشمند رہا ہے جس کے لئے اسے افغانستان میں جنگ بھی لڑنا پڑی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکا اورآج پاکستان نے روس کواقتصادی راہداری میں شمولیت کی دعوت دے کر خود اسے گرم پانیوں تک رسائی کا موقع فراہم کیا ہے جسے روس کسی قیمت پر بھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔
موجودہ صورتحال میں دونوں ملکوں میں پر امن دیرپا تعلقات خطے میں امن اور استحکام کا باعث بنیں گے اور ماسکو کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی جب بات آتی ہے تو دوستی اور دشمنی جیسا کوئی لفظ وجود نہیں رکھتا بلکہ سارا مفادات کا کھیل ہوتاہے اور پاکستان کو بھی یہ بات سمجھ آچکی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی دیکھ کر یہ بات صاف معلوم ہو رہی ہے کہ پاکستان کو اب ملکی مفاد سے غرض ہے اور اس کے لئے وہ کسی بھی ریاست کسی بھی ملک سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہے اور ہونا بھی اسی طرح چاہئے۔
یہ تحریر 640مرتبہ پڑھی گئی۔