اداریہ

سلامت رہے پیارا وطن

بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے قیامِ پاکستان کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ '' ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے لیکن یہ ہمارے مقصد کی محض ابتداء ہے، ابھی ہم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حصولِ پاکستان کے مقابلے میں اس ملک کی تعمیر کے لیے کہیں زیادہ کوششیں کرنی ہیں اور اس کے لیے قربانیاں دینی ہیں۔''  بلاشبہ بانیِ پاکستان کو اس امر کا بخوبی ادراک تھا کہ پاکستان کا سفر صرف ایک ملک کے حصول تک ہی نہیں تھا، دراصل آنے والاوقت مزید چیلنجز اور کٹھن مراحل پر مبنی ہوگا کہ ایک نوزائیدہ مملکت کی تعمیر ہونا ابھی باقی تھی۔ قائد کی زندگی نے وفا نہ کی اورپاکستان اوائل ہی سے مشکلات میں گھِر گیا۔ پاکستان کے حصے میں تقسیم کے موقع پر جو وسائل آنا تھے وہ بھارت کی جانب سے نہیں دیے گئے۔مسلح افواج کے لیے جو سازو سامان دیا جانا تھا وہ بھی نہیں ملا۔ مالی وسائل کی تقسیم بھی اس طرح سے نہیں ہوئی جس طرح ہونی چاہیے تھی ، حتیٰ کہ امورِ مملکت چلانے کے لیے بھی درکار مالی وسائل نہیں تھے۔ ان اُمور کو چلانے کے لیے ریاستِ بہاولپور کے امیر سمیت معاشرے کے دیگر اہلِ ثروت حضرات ریاست کی مالی معاونت کرتے رہے۔ بہر کیف یہ وہ جذبہ تھا جس کے تحت برِصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے قائداعظم کی آواز پر مسلم لیگ کے پرچم تلے اپنے لیے الگ وطن کے حصول کے لیے جدوجہد کی ، قربانیاں دیں اور اپنے عظیم مقصد میں کامیاب ٹھہرے۔
حصولِ پاکستان کا مرحلہ توطے ہوگیا لیکن پاکستان کو دشمن عناصر کی سازشوں اور جارحیتوں کا سامنا رہا۔ کشمیر کی آزادی کے لیے قوم اور افواج کو 1948 کی جنگ لڑنا پڑی۔ پھر اس کے بعد1965، 1971 ،  معرکۂ کارگل اور پھردہشت گردی کے خلاف جنگ پوری قوم نے باہم مل کر لڑی،  دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے80 ہزار شہریوں اور مسلح افواج کے جوان و آفیسرز نے جانیں قربان کرکے اس ملک کی سالمیت کو یقینی بنایا۔
افواجِ پاکستان کا کردار اس دوران بہت شاندار رہا کہ انہوں نے ملکی سرحدوں کی حفاظت کو ہی یقینی نہیں بنایا بلکہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بھی بہترین کردار ادا کیا۔وزیرستان کے قبائلی علاقہ جات جن کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا ، اُنہیں قبائلی اضلاع میں تبدیل کروانے میں بھی افواج کا کلیدی کردار ہے۔صوبہ بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کا جو سفر جاری ہے اس میں افواج کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں ملک کو جو، ان دنوں معاشی اور بین الاقوامی سطح پر چیلنجز درپیش ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے بھی افواج ِپاکستان ہمیشہ کمر بستہ رہی ہیں۔ سی پیک جیسے بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے لیے افواج ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دفاعی سفارت کاری ہی کو دیکھا جائے تو افواج کا کردار تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت کا اس حوالے سے اپنا ایک ویژن رہا ہے جس کی بدولت پاکستان کی دفاعی سفارت کاری وقت کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط ہوئی اور اس سے پاکستان کو خارجہ تعلقات بڑھانے میں بھی معاونت حاصل ہوئی۔ آج چین، روس، برطانیہ، امریکہ ، عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں دفاعی سفارت کاری کا کرداربہت اہم ہے۔
یوں قائد کے ویژن کی روشنی میں حصولِ پاکستان کے بعد تکمیلِ پاکستان کا سفر اس طرح جاری ہے کہ افواج اور قوم باہم مل کر وطنِ عزیز کو دفاعی ، معاشی اورمعاشرتی طور پر ایک مضبوط ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ وقت دُور نہیں جب پاکستان درپیش چیلنجز سے بخوبی نبرد آزما ہو کر دنیا کے کامیاب، خوشحال اور باوقارممالک کی صف میں کھڑا ہوگا۔    پاکستان ہمیشہ سلامت رہے! آمین۔


 

یہ تحریر 440مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP