قیام پاکستان سے لے کر آج تک جب بھی اگست کا مہینہ آتا ہے تو پوری پاکستانی قوم پورے جوش و جذبے کے ساتھ جشن آزادی کی تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کو دیاگیا۔1947 میں ہمارے بزرگوں نے عظیم قربانیاں دے کر یہ وطن عزیز حاصل کیا۔پاکستان کے قیام کے لیے قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کے قیام کے لیے اتنی قربانیاں دی گئی ہوں۔1947 کی عظیم ہجرت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے۔ ہزاروں سہاگنوں کے سہاگ اجڑے، کتنے ہی بچے یتیم ہوئے، کتنی ماؤں کی گودیں خالی ہوئیں تب جا کر یہ نعمت عظمیٰ ہمیں حاصل ہوئی۔پاکستان اس خطے کی واحد ریاست ہے جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی۔''پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ'' ایسا نعرہ تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔
ہر سال پوری پاکستانی قوم آزادی کا دن مناتی ہے۔لیکن 2022 کا جشن آزادی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس دن پاکستان کی ترقی کا ایک نیا دروازہ کھلنے والا ہے۔ریکوڈک منصوبہ جو کئی سال سے زیرالتوا چلا آ رہا تھا اس کے اجراء کی امید بندھ گئی ہے۔ریکوڈک منصوبہ بلاشبہ پاکستان کی ترقی کا دروازہ کھول دے گا۔اسی لیے میرا خیال ہے یہ یومِ آزادی سابقہ ایام آزادی سے بہت زیادہ مختلف ثابت ہوگا۔ریکوڈک منصوبے کے متعلق بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے،اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر بحث کی جا چکی ہے،پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سے لے کر عالمی ثالثی کونسل تک اس کی جزئیات تک زیر بحث لائی جا چکی ہیں،تاہم اب یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی نے 14 اگست 2022 کو اس منصوبے پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں 21 مارچ 2022 کو مختلف قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ پاکستان نے غیر ملکی فرم کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کر لیا ہے، اس نئے معاہدے کے تحت فرم نے 11 ارب ڈالر کا جرمانہ معاف کرنے اور 2011 سے رکے ہوئے کان کنی کے منصوبے کو بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کنسورشیم ٹیتھیان کاپر کمپنی، جس میں کینیڈا کی سونے کی فرم بیرک اور چلی کی اینٹوفاگاسٹا منرلز نامی کمپنیاں شامل ہیں، جن میں سے ہر ایک کمپنی 37.5 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہے، انہیں بلوچستان میں ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر ملے تھے۔
مقامی حکومت کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی کی لیز کی تجدید سے انکار کے بعد 2011 میں انتہائی قیمتی اوپن پٹ مائن پروجیکٹ رک گیا تھا اور 2013 میں سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دے دیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منصوبے پر کام کرنے والی کمپنیاں عالمی ثالثی کونسل میں گئیںجس نے دونوں طرف سے طویل دلائل سننے کے بعد 2019 میں پاکستانی مؤقف کو قبول کرنے سے انکار کیااور ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کے دعوے کو قبول کرتے ہوئے پاکستانپر 11 ارب ڈالر جرمانہ عائد کر دیا۔اس سنگین غفلت کا ذمہ دار کون تھا یہ ایک الگ بحث ہے۔کیاپاکستان کی عدالتوں کو اہم نوعیت کے قومی منصوبوں میں کس حد تک دخل اندازی کی اجازت ہونی چاہیے؟ یہ ایک الگ قانونی بحث ہے۔اس سے قطع نظر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان ایک بڑے بحران کا شکار ہوا۔عالمی عدالت میں سبکی کے علاوہ اربوں ڈالر جرمانہ عائد ہوا۔
پاکستانی حکام نے ایک دہائی طویل قانونی جنگ کے بعد بیرک گولڈ کے ساتھ عدالت سے باہر تصفیہ کرنے کا اعلان کردیا۔اس وقت کے وزیر خزانہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ کمپنی نے ہم پر تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ منسوخ کر دیا ہے، اس کے علاوہ بیرک اور اس کی پارٹنر کمپنیاں پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی، اس سے پاکستان اور بلوچستان کو اگلے 100 سالوں تک فائدہ ہوگا۔اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر دنیا میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کان ثابت ہو گی، اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ہمیں قرضوں سے نجات دلائے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی فریق کے لیے مزید کوئی اپیلیں دستیاب نہیں تھیں، ملک کے پاس بہت زیادہ نقصانات کی ادائیگی کے لیے وسائل بھی نہیں۔حکومت پاکستان نے جب یہ معاہدہ کیا اس وقت کسی بھی عالمی عدالتی فورم پر پاکستان کے لیے کوئی اپیل دستیاب نہ تھی ۔منصوبے کی تشکیل نو کے بعد بیرک کے پاس 50 فیصد پاکستان کی وفاقی حکومت کے اداروں کے 25 فیصد، اور بلوچستان حکومت کے پاس 25 فیصد حصے ہوں گے۔
ریکوڈک پروجیکٹ میں پاک فوج کا کردار
پاکستان آرمی ملکی سلامتی کا ایک ایسا ادارہ ہے جو ہر مشکل وقت میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ریکوڈک منصوبے پر جب سوالیہ نشان کھڑے کر دیے گئے،عالمی عدالتوں میں پاکستان کا مؤقف مسترد کر دیا گیا، عالمی ثالثی کونسل کی جانب سے پاکستان کو 11 ارب ڈالر کا جرمانہ کر دیا گیااور قریب تھا کہ اتنی بھاری رقم کی ادائیگی کے بعد پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہو جاتی،اس وقت چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنا متحرک اور فعال کردار ادا کیا۔ ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی کے عہدیداران سے ملاقاتیں کیں،ان کے خدشات دور کیے،ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کی یقین دہانی کرائی۔ چیف آف آرمی سٹاف کے اس فعال کردار کے بعد حکومت پاکستان کے لیے کمپنی کے ذمہ داران سے گفتگو کرنا آسان ہوگیا۔
مسلح افواج کے دیگر بہت سے کارناموں میں سے ریکوڈک منصوبہ بھی اسی عظیم فوج کی محنت کا مرہون منت ہے۔جب اس منصوبے کی تاریخ تحریر کی جائے گی تو اس میں مسلح افواج اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
ریکوڈک منصوبہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔اگر یہ منصوبہ روبہ عمل ہو جاتا ہے تو پاکستان میں معاشی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوگا۔صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اپنی پسماندگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے، اس کے دن تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ حکومت کی تبدیلیوں کے باوجود اس معاہدے پر عمل درآمد میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔یہ منصوبہ نہ صرف بلوچستان کے لیے بلکہ پاکستان کے لیے بھی گیم چینجر ثابت ہوگا۔صوبہ بلوچستان پر جب خوشحالی کے دروازے کھلیں گے نہ صرف بے روزگار نوجوان روزگار کمانے میں مشغول ہوجائیں گے بلکہ وہاں پر پائی جانے والی بے چینی کا بھی قلع قمع ہوگا۔2022 کا یوم آزادی اہل بلوچستان اور اہل پاکستان کے لیے ایک عظیم خوشخبری لے کر آ رہاہے۔ ||
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی و ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 386مرتبہ پڑھی گئی۔