جنگ دسمبر 1971

بھارتی قید سے فرار۔۔۔

لیفٹیننٹ کرنل شجاعت لطیف (ر) کی بھارتی قید کے دوران فرار کی جدوجہد اور مزاحمت  پر   مبنی عبدالستار اعوان کی تحریر

لیفٹیننٹ کرنل شجاعت لطیف نے بطور کیپٹن 71ء کی جنگ میں جیسور، کھُلنا،بو ئی چنا ، پٹخل گھاٹہ اوردریائے بھیرب کنارے فرنٹ مورچوں پر لڑتے ہوئے خوفناک جنگ کا سامنا کیا۔جنگ کے بعد وہ اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے۔ ان کااہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے دشمن کی قید سے فرار ہونے کی کوشش کی۔نامور ادیب بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''ہمہ یاراں دوزخ''میں شجاعت لطیف کے فرار کی داستان یوں بیان کی ہے:''یکم جولائی72ء کو انڈین آرمی کی زیرحراست کیپٹن شجاعت لطیف نے تیزرفتار ٹرین سے چھلانگ لگا دی، اسے شدید چوٹیں آئیں،اس کاخون بہنے لگا لیکن وہ اس سے بے نیاز ہتھکڑی سمیت بھاگتا رہا ، بھاگتا رہا۔وہ جن راہوں سے گزرا ، انہیں خون حریت سے سجاتا گیا۔ وہ جن ویرانوں سے ہو کر نکلا وہاں شجاعت کی داستانیں بکھیرتا گیا۔حتیٰ کہ اس کے جسم سے بہنے والے خون نے اس کے قدم تھام لیے اور خون کی باقی بوندوں کا واسطہ دے کر اسے یہ سفر ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا اور جسم ناتوان کے ہاتھوں بے بس ہو کر دوبارہ اسیر ہوگیا''۔
کچھ دن قبل شجاعت لطیف صاحب سے ہماری طویل نشست ہوئی جس میں ان کی دلچسپ جنگی یادداشتیں انہی کی زبانی سننے کا موقع ملاتاہم ان سطور میں بھارتی قید کے متعلق چنداہم واقعات پیش کیے جارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
میں 11دسمبر 1946ء کو سیالکوٹ میں خواجہ عبد اللطیف کے ہاں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب مشہور زمانہ تعلیمی ادارے مرے کالج سیالکوٹ میں پروفیسر تھے ۔ بڑے بھائی میجر جنرل راحت لطیف تھے ۔ان کی شہرہ آفاق کتاب انگریزی میں شائع ہوئی جس کااردو ترجمہ ''راحت بیتی اور بھٹو کے آخری ایام''کے عنوان سے شائع ہوا۔ ان سے چھوٹے خواجہ وجاہت لطیف آئی جی سندھ پولیس ریٹائرڈ ہوئے۔میری بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن میرا پڑھائی لکھائی کی جانب کچھ خاص لگا ئو نہ تھا ۔ 1966ء میں مَیں بی ایس سی تھرڈ ایئر میں تھاکہ فیصلہ کر لیا کہ  میں نے فوج میں جانا ہے۔ میں نے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں 37thپی ایم اے لانگ کورس کے لیے درخواست دے دی اور19اپریل1966ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ بھرتی ہوگیا۔پی ایم اے کاکول میں بیتے شب و روز کی یادیں اور دیگر واقعات میں نے اپنی کتاب ''یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے''میں تفصیل سے بیان کئے ہیں، یہ کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔یہاں میں جنگ71ء کی طرف آتا ہوں۔ 21اپریل 1968ء میں مَیں پاس آئوٹ ہوا اور مجھے انفینٹری کی ایک یونٹ 15 ایف ایف رجمنٹمیں بھیج دیا گیا۔ اس یونٹ نے 65ء کی جنگ میں اورحال ہی میں دہشت گردوں کے خلاف ''آپریشن راہ ِ نجات''اور''آپریشن ضرب عضب''میں بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔
 مشرقی پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تو میری یونٹ کو جیسور میں تعیناتی کے احکامات موصول ہوئے۔بھارت کی ایئرسپیس استعمال کرنے کی بندش کی وجہ سے میری یونٹ لاہور سے کراچی بذریعہ ریل گاڑی پہنچی اور پھر ہمیں پی آئی اے کے ذریعے سری لنکا کے راستے مشرقی پاکستان پہنچادیا گیا۔ہماری یونٹ نے 16اکتوبر1971ء کو علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔جیسور میں ہمارے علاقے میں آٹھ پل تھے جن کا دفاع بہت ضروری تھا۔ وضاحت کرتا جائوں کہ ایک انفینٹری بٹالین دفاع میں پانچ ہزار گز کا علاقہ سنبھال سکتی ہے جبکہ مشرقی پاکستان میں ہمیں اس سے کئی گنا زیادہ علاقہ دفاع کے لیے دے دیا گیا۔ میری یونٹ چالیس میل کے علاقہ کی ذمہ دارتھی۔ان حالات میں اس علاقے کا موثر دفاع ممکن نہ رہا۔نفری اوراسلحہ کی کمی کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے ہمیں اپنی دفاعی لائن میں بہت سے علاقے خالی چھوڑنا پڑے۔
 سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن افسوس کہ جھوٹ بھی بہت زیادہ لکھا گیا ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہماری صرف ایک ڈویژن فوج تعینات تھی۔ جنگ شروع ہوئی تو مغربی پاکستان سے مزید دو ڈویژن فوج بھیجی گئی ۔ اس میں کمزور پہلو یہ تھا کہ دو ڈویژن فوج میں نہ تو آرمرڈ(رسالہ) دستے شامل تھے اور نہ ہی تو پ خانہ(آرٹلری)شامل تھا جبکہ اس کلیے کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ جنگ میں یہ دونوں عناصر انتہائی اہم ترین ہوتے ہیں ، علاوہ ازیں بھارت کو بھرپور فضائی قوت حاصل تھی جبکہ ہمارے پاس 1965ء والے سیبر طیارے تھے ۔یہ سارے سیبر طیارے ڈھاکہ کے فوجی اڈے پر کھڑے تھے ۔جب 21نومبر 1971  کو بھارت نے باقاعدہ اعلان جنگ کر دیا تو بھارتی فضائیہ نے ڈھاکہ ایئرپورٹ پر حملہ کردیالیکن ہماری اینٹی ایئر کرافٹ گنوں نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا اورمتعدد بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے۔اس کے بعد بھارت نے انتہائی اونچائی سے بمبار ی شروع کرکے رن وے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

ایک جھوٹ تواتر کے ساتھ بولا جا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں 92ہزار فوج تعینات تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کی ایک ڈویژن میں تقریباً دس ہزار فوجی ہوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں تین ڈویژن فوج تعینات تھی تو اس حساب سے فوج کی تعداد92ہزار کس طرح ہوگئی؟؟ میں سپاہیانہ دیانتدار ی کے ساتھ بتاتاچلوں کہ فوج کی تعداد صرف24اور30ہزار کے درمیان تھی ۔ 92ہزار کی جو بات کی جاتی ہے اس میں مغربی پاکستانی محکمہ جات اور ان کے ملازمین اور فوج کے ساتھ منسلک دیگر سویلین کو بھی شامل کر دیاجائے تو پھر بھی 92ہزار تعداد نہیں بنتی۔ 
مشرقی پاکستان میں ہم نے بہت سی کارروائیوں میں حصہ لیا۔بوئی چنا اور پٹخل گھاٹہ جیسی ہماری کارروائیوں کاذکر میجر جنرل عتیق الرحمن نے اپنی کتاب ''وارڈنز آف دی مارچیز''میں بھی کیا ہے۔کسی بھی فوجی آپریشن کی کامیابی کے لئے اپنے منصوبوں کے متعلق را ز داری اور دشمن کے بارے میں باخبر رہنا بہت ضروری ہوتا ہے،ہماری صورتحال یہ تھی کہ ہم چاروں جانب سے دشمن میں گھر ے ہوئے تھے اور ان حالات میں ہمارے لیے اپنے د فاعی معاملات کو راز میں رکھنا ممکن نہیں رہا۔ہم ایک سخت جنگ لڑ رہے تھے اور چاروں طرف سے دشمن میں گھر ے ہوئے تھے۔ ان حالات میں یہ کہنا کہ پاک فوج کے جوان عورتوں کی عصمت دری کرتے رہے اور ڈاکہ زنی میں ملوث رہے ، ا س میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں ۔یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں جو میدان جنگ میں دشمن فوج کا ایک خاص ہتھیار ہوتا ہے اور وہ اپنی مخالف فوج پر ایسے غیر اخلاقی الزامات لگاکر اسے بدنام کرتا ہے ۔میر ا یہ سوال آج کے دانشوروں سے بھی ہے کہ جو بندہ بری طرح سے دشمن میں گھر چکا ہو اسے چوری چکاری اور عورتوں کی عصمت دری کا خیال کیونکر آسکتا ہے؟
بہر حال 16دسمبر1971ء کوجنرل سرینڈر ہوا توہم اپنے کمپنی کمانڈر میجر مختاراحمد عثمانی کے ہمراہ گرفتار کر لیے گئے۔گرفتاری کے بعد میجر مختار احمد عثمانی ،کیپٹن اختر ،کیپٹن صغیر احمد اور مجھے 55فیلڈ رجمنٹ جیسور کے کوارٹر گارڈ میں بند کر دیا گیا جہاں پر پوچھ گچھ ہوئی۔بھارتی فوجی اس پر پریشان تھے کہ ہمارے توپ خانے کا فائر اتنا کارگر اور کامیاب کیسے رہا تھا؟حالانکہ کیپٹن اختر (آرٹلری آبز رور)کے پاس کوئی نقشہ یا کوئی اور ایسی چیز نہ تھی جس کی مدد سے دشمن پر درست طریقے سے فائر کیاجاسکتا۔رات ہم نے پریشان میں گزاری کہ اس قید سے کیسے نجات حاصل کی جائے،کیسے فرار ہواجائے۔دوسری طرف بھارت نے ہماری تسلی کی خاطر یہ افواہ پھیلا دی کہ راستے میں مختصر کاغذی کارروائی کے لیے آگرہ کے مقام پر کچھ دیر رکنے کے بعد آپ کو پاکستان بھیج دیا جائے گا۔قصہ کوتاہ ہمیں بذریعہ ٹرین آگرہ لے جاکر ''آگرہ جیل''کی مختلف بیرکوں میں بند کر دیا گیا۔یہ انگریز دور کی بنی وحشت ناک جیل تھی جس کی دیواریں آسمان کو چھو رہی تھیں ۔ مجھے اور کیپٹن محبوب قادرکو ایک سیل میں بند کیا گیا۔شدید سردی تھی اورہمارے پاس سردی سے بچنے کے لیے کوئی کپڑا تک نہ تھا۔ ہم نے سردی سے بچنے کا  طریقہ یہ نکالا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک واک شروع کر دی ۔جیل میں روزانہ ہماری گنتی کی جاتی۔چند دن بعد ہم25افسروں کو اسی جیل کے کیمپ نمبر44میں منتقل کر دیا گیاجہاں ہم نے چھ مہینے گزارے۔ہم جنگی قیدی تھے اور ہمارے پاس موجود ہر قسم کے لباس چادر،کمبل،کپڑوں وغیرہ پر  PW یعنی ''Prisoner of War'' لکھا ہوا تھا۔ میں نے ایک سفید پاجامہ اور ململ کاایک کرتا کسی طریقے سے کینٹین سے حاصل کیا ۔جن پر PWنہیں لکھا تھا اور میں نے یہ سامان چھپا کر رکھ دیا۔
 ہم تمام افسروں میں مثالی اتحاد تھا اور ہم بھارتیوں کے منفی رویوں کے خلاف کھل کر اظہار کرتے ۔ہمارے اتحاد کو دیکھتے ہوئے جیل انتظامیہ نے ہمارے اس گروپ کو ''ٹربل میکرز''قراردیااور ہمیں آگرہ جیل سے رانچی جیل منتقل کرنے کا پروگرام بنایا۔رانچی منتقل ہونے والے مجموعی طور پر ہم 29افسر تھے۔ ہماری لسٹیں تیار ہوئیں اورپھر ہمیں جوڑوں کی شکل میں Cellsمیں چوبیس دن بند رکھا گیا۔میرے ساتھ کیپٹن احسن صدیق تھا۔ رانچی جیل روانگی ہوئی تو میں نے آدھے بازو والی بنیان اور خاکی پتلون پہنی  ۔پتلون کے نیچے میں نے PWکے  بغیر پاجامہ پہن رکھا تھا اور کمر کے ساتھ کرتا باندھ رکھا تھا۔میرا مصمم ارادہ تھا کہ موقع ملتے ہی فرار ہو جائوں گا۔آگرہ جیل چونکہ بہت ہی بوسید ہ تھی اور آئے روز اس کی مرمت جاری رہتی تو ایک دن موقع پاکر کیپٹن احسن نے لوہاکاٹنے والی ''ریتی''کاریگر کی نظروں سے چرا کر اپنے پاس رکھ لی ۔ہم ریلوے سٹیشن پہنچے اور ریل گاڑی میں بٹھا دیئے گئے۔ہمارے ساتھ ٹرین میں بھارتی فوج کی ایک کمپنی تھی جس کی کمانڈ ایک کیپٹن کے پاس تھی جس کا نام راٹھی تھا۔ایک بارپھر ہماری گنتی کی گئی اور ہمیں جوڑوں کی شکل میں ہتھکڑیا ں لگا دی گئیں۔یعنی ایک کی بائیں اور دوسرے کی دائیں کوہتھکڑی لگائی گئی۔اس طرح ہم 28افسروں کے چودہ جوڑے بن گئے اور جو ایک بچ گیاتھا اس کے دونوں ہاتھو ں کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔میرا ماسٹر ہاتھ چونکہ بایاں ہے تو میں نے اپنا دایاں ہاتھ لیفٹیننٹ حمید نیازی کے بائیں ہاتھ سے بندھوا دیا۔اس طرح ہم دونوں کے ماسٹر ہاتھ آزادتھے۔ہم نے ڈبے میں اپنی سیٹ کا چنائو بنچوں والے آخری حصے میں کھڑ کی کے ساتھ کیا۔ میجر جعفر،کیپٹن حفیظ علی،میجر جنجوعہ،میجر قادر ،میجرنصیب اللہ شہیداور کیپٹن ہدایت ہمارے سامنے بیٹھے تھے۔ڈبے کے اندر آنے جانے والے راستے کو چھلے دار تار سے بند کر دیا گیا تھا اور ڈبے کے مین دروازوں کے درمیان والی جگہ پر ایک حوالدار اور دومسلح جوان مستعد کھڑے تھے۔باقی انڈین فوجی نفری ہمارے ڈبے کے آگے اور پیچھے والے ڈبوں میں موجود تھی ۔ یوں سیکورٹی کے لحاظ سے ایک بہت سخت حصارقائم کردیا گیا تھا۔ہم میں سے جس کسی کو رفع حاجت کی ضرورت پڑتی تو حوالدار کو آواز دی جاتی جوچھلے دار تار کو ایک طرف ہٹا کر اندر داخل ہوتااورباقی دو جوان سٹین گن تھامے اس کے پیچھے ہوتے۔ہتھکڑی کھولی جاتی اورڈبے کے اندر موجود واش روم کواستعمال کرنے کی اجازت دی جاتی۔جہاں بھی گاڑی رکتی بھارتی فوجی ہمارے ڈبے کو گھیرے میں لے لیتے اور پھر گنتی شروع کردیتے اور ''سب اچھا''کی رپورٹ کیپٹن راٹھی کو دی جاتی۔
 ریل گاڑی کے ہر ڈبے کی کھڑکی میں چار لوہے کی سلاخیں متوازی حالت میں جڑی ہوئی تھیں ، میں کھڑکی کی طرف بیٹھا تھا ،کھڑکی کی سلاخ کو کاٹنے کا مسئلہ ہمارے درمیان زیربحث آیا تو کیپٹن احسن نے وہ ریتی اپنی چپل کے تلوے سے نکال کر میجر قادر کے سپرد کردی کیونکہ اس وقت میجر قادر ہمارے ماسٹر مائنڈ تھے۔ہم نے منصوبہ بنایا کہ اس ریتی سے سب سے نیچے والی سلاخ کو کاٹاجائے تاکہ اس میں سے نکلا جاسکے۔ اب ہم منصوبے پر عمل کرنے کے لیے رات کا انتظارکرنے لگے تاکہ تاریکی اورگاڑی کی چھک چھک کی آواز میں ہم اپنا کام کرسکیں۔ہم پہرے داروں کے طورطریقوں کا بھی بغور مشاہدہ کرتے رہے۔ہم نے باتوں باتوںمیں بھارتیوں سے پوچھا کہ آگرہ سے رانچی کاکتنا سفرہے۔معلوم ہواکہ ایک د ن اور ایک رات کا سفر ہے،مطلب یہ کہ ہمارے پاس کافی وقت تھا۔ رات کے نو بجے تو ہم نے سلاخ کاٹنے کا کام شروع کردیا۔ریتی بہت ہی چھوٹی تھی اوراسے پکڑنا بہت مشکل تھا۔جب گاڑی رکتی ہم اپنا کام بھی روک لیتے۔جب ایک جوڑا تھک جاتاتو دوسرا جوڑایہ فریضہ انجام دیتا۔صبح تقریباًتین بجے ہم سلاخ کاٹ چکے تھے۔ کیپٹن احسن صدیق نے ہماری ہتھکڑ ی کوکاٹناشروع کردیااورآدھ گھنٹے کی مسلسل محنت کے بعدہتھکڑی کٹ چکی تھی اوراب میری کلائی میں صرف ہتھ کڑی کاکڑارہ گیا۔ اب سلاخ کھینچ کر ہمارے ماسٹر مائنڈ میجرقادر نے اپنا سر باہر نکالا اورگاڑی کی رفتار جانچنے کی کوشش کی۔میجرقادر نے کہاکہ ٹرین کی رفتارتو بہت تیز ہے ۔سب کو خاموش دیکھ کرمیں نے کہا ''اگر اجازت ہوتو میں بھاگ جائوں؟''سب نے سرہلادیا۔میں نے اللہ کا نام لیا سب کو خداحافظ کہا، کھڑکی سے باہر نکلااور اوپر والی سلاخ کو اپنے ہاتھوں سے مضبوطی سے تھام لیا۔اب میں ٹرین کے باہر کی طرف لٹک رہاتھا ،گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی اور وہ ہوا سے باتیں کررہی تھی۔ میں ذہنی طور پر تیار تھا کہ مجھے شدید چوٹیں آئیں گی۔ہماری گاڑی کے متوازی ایک اور بھی پٹری تھی ،خدشہ یہ بھی تھا کہ کہیں اس طرف سے کوئی اور گاڑی نہ آجائے اورمجھے کچل نہ ڈالے۔ میں نے ایک بارپھر اللہ کانام لیا اور ڈبے سے پرے زورسے ''سوئنگ'' لیا اورلوہے کی سلاخ چھوڑدی۔اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔ کچھ دیر بعد ہوش آیاتو دیکھتا ہوں کہ میرے پاس ایک گھوڑا کھڑا ہے اور دو پولیس اہلکار اورچند دیگر لوگ مجھے اٹھا رہے ہیں۔مجھے گھوڑے پر بٹھا دیا گیا اورایک پولیس سٹیشن لے جا کر چارپائی پر لٹادیا گیا۔یہ کسی گائوں کاتھانہ تھا۔میرے کپڑے مکمل خون آلود تھے ،زبان کٹ چکی تھی اور ایک دانت گرچکاتھا۔ناک اور ماتھے کے ملاپ  پر گہری چوٹ آئی جس کانشان ابھی تک موجودہے۔ پولیس اہلکاروں نے پوچھا تم کون ہو؟میں نے کہامیں بول نہیں سکتا، پنسل کاغذ لائو، پنسل کاغذ لایاگیا تومیں نے فقط اتنا لکھا''کیپٹن شجاعت''۔یہ پڑھتے ہی پولیس حرکت میں آگئی، ٹیلی فون بجنا شروع ہوگئے۔دوسپاہیوں نے میرے ہاتھ پائوں ہتھکڑیوں اور لوہے کی موٹی چین میں جکڑ ڈالے۔کچھ دیربعد مجھے گائوں میں ایک دکان پر لے جا کرمیری مرہم پٹی کروائی گئی ۔اس کے بعد مجھے ریلوے سٹیشن لایا گیا جس پر ''ریلوے سٹیشن دلدار نگر'' لکھاہواتھا۔مجھے سخت سکیورٹی میں ٹرین پر سوار کردیاگیا اورتقریبا دوگھنٹے کی مسافت کے بعدایک تھانے میں لے جاکر بند کردیاگیا۔ تھانے کے گیٹ پر '' تحصیل غازی پوری پولیس سٹیشن''لکھاتھا۔
اگلی صبح دو آدمی آئے اور میزکرسیاں لگاکر بیٹھ گئے انہوں نے میرے سامنے انگریز ی کااخبار رکھا اور ایک خبر پڑھنے کوکہا : خبر کالب لبا ب یہ تھا :''دوجنگی قیدیوں نے ٹرین سے بھاگنے کی کوشش کی ،ایک کوگولی مار دی گئی اوردوسرا بھاگنے میں کامیاب ہوگیا''۔میں نے جواب دیا کہ مجھے معلو م نہیں ،میں نے تواکیلے ہی ٹرین سے چھلانگ لگائی تھی۔اس کے بعد انہوں نے مزید کچھ نہ پوچھا اور مجھے ساتھ والے کمرے میں لے گئے جہاں بھارتی فوج کاایک کپتان،ایک جے سی او اورچند دیگر جوان موجودتھے ۔انہوں نے پھر میرے ہاتھ پائوں جکڑ ڈالے اور ایک فوجی گاڑی میں بٹھادیا۔یہ ایک فوجیDodgeتھی جس میں دس آدمی بیٹھ سکتے تھے۔انہوں نے مجھے اس میں آٹے کی بوری کی طرح اٹھا کر پھینکا اور خود بھی میرے ساتھ سوار ہوگئے۔گاڑی کافی دیر چلتی رہی ،گاڑی رکنے پر معلوم ہوا کہ ہم کسی فوجی یونٹ میں پہنچ چکے ہیں، مجھے کوارٹرگارڈ کے سیل میں بند کردیاگیا،یہاں بھی انکوائری ہوئی۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل منہاس نے مجھ سے فرار کی وجہ پوچھی تومیں نے کہا : ''قیدی ہونے کے ناطے میرا حق ہے کہ میں بھاگنے کی کوشش کروں لیکن افسوس میں کامیاب نہ ہوسکا''۔مجھے سیل میں دس روز رکھا گیااور ایک دن وہی ٹرین والا کیپٹن راٹھی اپنے جوانوں کے ہمراہ مجھے لینے آگیا۔ایک بار پھر زنجیروں میں جکڑ کرگاڑی میں بٹھایا گیا اور ہم رانچی جیل پہنچ گئے۔ہم رات کے اندھیرے میں رانچی جیل پہنچے اور مجھے ایک سیل میں بند کر دیا گیا۔ میں اس سیل میں 28دن قید رہا،پھر میرے احتجاج پرمجھے کیمپ نمبر98میں منتقل کردیا گیا۔یوں مختلف کیمپوں اور تفتیشی مراحل سے گرزتے ہوئے مجھے آخر کار کیمپ نمبر95میں شفٹ کیا گیااوریہی میری منزل تھی جہاں میرے ساتھی موجودتھے ۔جب اپنے ساتھیوں سے ملا تو خوب آئو بھگت ہوئی ۔سب دوست میری فرار اور پھر گرفتاری کی داستان سننے کو بہت بے چین تھے۔جبکہ مجھے تجسس یہ تھا کہ دوسرا افسر کون تھا جسے گولی مار کر شہید کردیاگیاتھا۔خیر میں نے اپنی مکمل داستان دوستوں کو سنائی اور مجھے انہوں نے بتایا کہ تمہارے فرار ہونے کے بعد پٹنہ ریلوے سٹیشن پر ٹرین رکی اور گنتی کی گئی تو ایک افسر کم پا یا گیا ۔ اس سے بھارتی فوجیوں میں شدید اضطراب اور بے چینی پھیل گئی۔ باربارگنتی کی جاتی لیکن ایک افسر کم نکلتا۔فوجیوں نے ٹرین کو گھیرے میں لے لیا،کیپٹن راٹھی شدید غصے میں تھا کہ کیپٹن شجاعت کیسے بھاگ نکلا۔کافی دیر پٹنہ سٹیشن پر گاڑی کھڑی رہی۔آخر گاڑی چل پڑی اور سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی۔اس کے بعد میجر نصیب اللہ کو واش روم جانے کی حاجت ہوئی ،پہرے دار نے ان کی ہتھکڑی کھولی اوروہ واش روم کی جانب چل دیئے۔تھوڑی دیر بعد سٹین گن کے لگاتارفائر کی آواز آئی ۔یہ واش روم ڈبے میں موجود لوگوں سے اوجھل تھا۔سب پریشان ہوگئے کہ کیا ہوا ہے۔ گاڑی ایک ویرانے میں رک چکی تھی ، کیپٹن راٹھی پاکستانی افسروں کے پاس آیا اور بتایا کہ میجر نصیب اللہ نے بھاگنے کی کوشش اور ہماری گولیوں کا نشانہ بن گیاہے۔سب قیدیوں نے اس پراحتجاج کیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے،کیپٹن راٹھی نے کرنل حق نواز اورمیجر جعفر کو لاش دیکھنے کی اجازت دے دی، وہ کیا دیکھتے ہیں کہ گولیاں نصیب اللہ کے سینے پر لگی ہوئی تھیں۔ ظاہرہے اگر وہ فرار ہورہے ہوتے تو گولیاں ان کی پشت پر لگتیں۔اگلے دن بھارتی اخبارات میں خبرشائع ہوئی کہ ''دوپاکستانی جنگی قیدیوں نے بھاگنے کی کوشش کی ، ایک فرار ہوگیا اور دوسرا مار اگیا''۔
کیپٹن راٹھی اوراس کے ساتھیوں نے بڑی چالاکی سے یہ گیم کھیلی تاکہ اس پر اور اس کے ماتحتوں کی نااہلی پر پردہ ڈالاجاسکے۔یوں انہوں نے میرے فرار کی کہانی کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیااور ایک بالکل بے گناہ افسر کو شہید کر کے اپنی نااہلی پرپردہ ڈال دیا۔رانچی جیل میں بھی ہم نے سرنگ کھود کر فرار ہونے کی ایک بھرپور کوشش کی لیکن اسی مشن کے دوران معاہدہ طے پا گیااور ہمیں رہاکر دیاگیا ۔ ||
٭٭٭٭٭
فوٹوکیپشن
(1) لیفٹیننٹ کرنل (ر)شجاعت لطیف ''ہلال ''سے گفتگو کرتے ہوئے۔
(2) شجاعت لطیف کی ایک یادگار تصویر جب وہ کیپٹن تھے۔
(3)شجاعت لطیف کی تازہ تصویر۔


[email protected]

یہ تحریر 790مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP