قومی و بین الاقوامی ایشوز

قبائلی اضلاع میں پاک فوج کی تعلیمی خدمات 

پاکستان میں، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں تعلیم کی  فراہمی اور معیار ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع  بھی ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں تعلیمی نظام کی ترقی تسلی بخش نہیں رہی ہے۔2001  کے بعد ان علاقوں میں دہشتگردی کی جو لہر چلی اس میں دہشتگردوں نے تعلیمی اداروں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی اور مقامی آبادی کی واپسی کے ساتھ ساتھ ان اضلاع میں دیرپا امن کے قیام کے لیے متعدد منصوبوں پر کام شروع کیا گیا۔ ان منصوبوں میں تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور پاک فوج نے مقامی انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومت کے تعاون سے تعلیمی اداروں کی بحالی، تعمیرِ نو اور نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایاگیا۔
 پاک فوج کی مؤثر رابطہ کاری اور منصوبہ بندی کی وجہ سے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز  جن میں صوبائی حکومت، انضمام سے پہلے مقامی حکومتی نظام جن میں سیکرٹریٹ، پولیٹیکل ایجنٹس، اساتذہ اور طلبا ء شامل ہیں، نے اپنا کردار ادا کیا۔بہت سے اقدامات اٹھائے گئے جس سے نہ صرف مقامی بچوں اور نوجوانوں میں تعلیمی دلچسپی پیدا ہوئی بلکہ معاشرے میں بہتر تعلیم کا رجحان بھی پیدا ہونا شروع ہوا۔ اس سلسلے میں پاک فوج نے لاتعداد چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے بنائے۔ طلبا کے لیے قائم میر علی اور میران شاہ کے ڈگری کالجوں میں بھی تعلیمی سرگرمیاں شروع ہو ئیں۔
پاک فوج کی طرف سے تعلیمی میدان میں جو جو اقدامات کیے گئے ان میں معیاری سکولوں کی تعمیر، فرنیچر اور دیگر سہولیات کی فراہمی، موجودہ سکولوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات۔بچوں میں مفت کتابیں اور سٹیشنری کی تقسیم، بچیوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی سکولوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلوں اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کا انعقاد،کتنے بچے سکول سے باہر ہیں یہ جاننے کے لیے تعلیمی سروے کا آغاز اور انہیں سکولوں میں داخل کرنے کے لیے عملی اقدامات،تعلیم کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم کا آغاز،نجی شعبے کی حوصلہ افزائی اور تحفظ فراہم کرنا تاکہ وہ تعلیم کے معیار اور شرح خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کا ساتھ دے سکیں۔
پاک فوج قبائلی اضلاع بالخصوص جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں  حالیہ برسوں کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کئی برس بیشتر یہاں تعلیم کے فروغ کی سرگرمیوں میں شامل رہی ہے۔ اس کی مثال شمالی وزیرستان میں1977 میں قائم ہونے والا رزمک کیڈٹ کالج ہے ۔اس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں پاک فوج نے 1962  میں وانا میں طلبا کے لیے فرنٹیئر کور پبلک سکول قائم کیا تھا جو اس وقت ایک کیمپ سکول کہلاتا تھا۔ اسی طرح 1964  ڈیرہ اسماعیل خان میں ایف جی پبلک سکول نیو کینٹ ڈیرہ اسماعیل خان قائم کیا گیا۔ 1989   میں یہاں ایک اور آرمی پبلک سکول اینڈ کالج جبکہ 1993  میں پاسبان آرمی پبلک سکول کی بنیاد رکھی گئی ۔1962  کے بعدسے اب تک یہاں پاک فوج کے تعاون سے متعدد 18  تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔
 2001میں میران شاہ میں فرنٹیئر کور پبلک سکول قائم کیا گیا ۔ طالبات کی مشکلات اور تعلیمی ضروریات کو مدِنظررکھتے ہوئے 2016  میں طالبات کے لیے الگ سکول تعمیر کیا گیا۔  اس کے علاوہ تباہ شدہ سکولوں کی تعمیر نو کی ایک طویل فہرست ہے جس کو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان آرمی کی ان ضم شدہ اضلاع میں سکیورٹی خدمات کے علاوہ تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے ایک مربوط جدوجہد  بھی شامل ہے۔
انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں حال ہی میں ضلع مہمند میں قائم ہونے والا کیڈٹ کالج  اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے ۔ لگ بھگ 6.2 ملین ڈالر لاگت سے تعمیر ہونے والے اس  کالج کا  افتتاح 2020  میں کیا گیا۔کالج میں مقامی طلبا کے علاوہ دیگر علاقوں کے طلبا کا بھی کوٹہ رکھا گیا ہے۔
تقریبا77 ایکڑوں پر پھیلے ہوئے اس کالج میں 900 طلبا کی گنجائش ہے۔کالج میں تعلیمی سرگرمیاں خوش اسلوبی سے جاری ہیں۔اس کے علاوہ  کالج میں ایک انتہائی اعلی معیار کی لائبریری بھی بنائی گئی ہے جس میں مختلف مضامین پر دس ہزارسے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔
علاوہ ازیں کیڈٹ کالج ورسک،کیڈٹ کالج وانا ، کرنل شیر خان کیڈٹ کالج ، کیڈٹ کالج سپنکئی بھی تعلیمی میدان میں انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں جبکہ  کیڈٹ کالج اورکزئی کے قیام کی بھی منظوری دے دی گئی ہے۔
ان ضم شدہ اضلاع میں مقامی روایات کی وجہ سے لڑکیوں کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم رہی ہے ۔پاک فوج کی انتھک کوششوں کے بعد یہ رجحان بدل رہا ہے  دہشتگردی کے خلاف آخری بڑے آپریشن کے بعدپاک فوج کے ضم کردہ اضلاع میں فروغِ تعلیم کی اس کوشش کے آغاز کے بعد، وہ سڑکیں اور گلیاں جہاں کبھی دہشت کا راج ہوا کرتا تھا، آج وہاں بچے کتابیں اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں عوام اور افواج پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے ان علاقوں میں تعلیمی میدان میں مزید بہتری آئے گی۔ ||


 مضمون نگارشبعہ صحافت سے وابستہ ہیں اورقومی وبین الاقوامی امور پر لکھتی ہیں۔

یہ تحریر 93مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP