’’جب ہم تہذیب کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟ تہذیب ایک تمدّنی جوہر ہے ۔ دیہات، خطّے، نسلی گروہ، قومیّتیں، مذہبی گروہ یہ سب اپنے اندر مختلف نوعیّت کی ثقافتوں کی آماجگاہیں ہوتی ہیں۔ جنوبی اٹلی کے ایک گاؤں کی ثقافت شمالی اٹلی کے کسی گاؤں کی ثقافت سے مختلف ہو سکتی ہے لیکن یہ دونوں اٹلی کی مشترکہ ثقافت میں بہت ساری مشابہتوں کی حامل ہوتی ہیں جو انہیں جرمنی کے کسی گاؤں سے مختلف بناتی ہیں۔اسی طرح یورپی معاشرے اپنے اندر بہت ساری یکساں ثقافتی قدریں رکھتے ہیں جس کی بناء پر یہ معاشرے عرب یا چینی معاشروں سے مختلف قرار پاتے ہیں۔ لیکن یہ عرب، چینی یا مغربی معاشرے آگے چل کر مزید کسی وسیع تر ثقافتی دائرے کا حصّہ نہیں بنتے بلکہ یہ بذات خود ایک تہذیب کو تشکیل دیتے ہیں۔تہذیب تک آکر انسانی گروپنگ کا عمل رُک جاتا ہے کیونکہ یہ تاریخ، زبان، مذہب، روایات،اداروں اور انسان کی ذیلی سطح پر خود وابستگی جیسے عناصر کواپنے اندر سمو لیتی ہے۔(بعض ماہرینِ سماجیات کے خیال میں اگر ہم تہذیب سے صرف ایک قدم آگے چلے جائیں تو ہم ہیومینیٹی کے دائرے میں پاؤں رکھ دیتے ہیں، لیکن ہم یہاں شناخت کی بات کر رہے ہیں اور یہ شناخت ہیومینیٹی ہی کے دائرے کے اندر کار فرما ہے) یہی وجہ ہے کہ تہذیب اعلیٰ ترین سطح پر ایک انسانی گروہ کو دوسرے انسانی گروہ سے مختلف بنا دیتی ہے۔ اب ہر انسان کی اپنی شناخت کے مختلف لیول ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر روم کا ایک باشندہ اپنا تعارف ایک رومن شہری۔۔ایک اطالوی۔۔ ایک کیتھولک۔۔ ایک عیسائی۔۔ایک یورپی۔ یا ایک مغربی باشندے کے طور پر کر سکتا ہے یعنی وہ ایسا کرتے ہوئے اپنی انتہائی ابتدائی سطح کی شناخت سے لے کر انتہائی آخری سطح کی شناخت تک جا سکتا ہے۔‘‘ ( سیموئیل پی۔ ہنٹنگٹن)
’’تہذیبی شناخت کی اہمیّت مستقبل میں بہت بڑھ جائے گی اورسات یا آٹھ بڑی تہذیبوں کے درمیان باہمی عمل دنیا میں بڑی تبدیلیاں لائے گا۔اس میں مغربی، کنفیوشس (چینی)،جاپانی، اسلامی، ہندو، سلیوک آرتھو ڈاکس، لاطینی امریکی اور غالباً افریقی تہذیبیں شامل ہیں۔ مستقبل کے انتہائی اہم تنازعات ان تہذیبوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دینے والی فالٹ لائنز پر پیدا ہوں گے۔‘‘
( سیموئیل پی۔ ہنٹنگٹن)
امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ سیموئیل پی۔ہنٹنگٹن کی تھیوری ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ شاید سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سیاسی حلقوں، بین الاقوامی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور تعلیمی اداروں میں بکثرت زیر بحث رہنے والا موضوع ہے جس نے دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں نصاب کا درجہ حاصل کیا ہے۔بعض سیاسی ماہرین کے مطابق یہ موجودہ دور کے علم سیاسیات کا وہ متنازعہ ترین نظریہ ہے جس سے لاکھ اختلاف کے باوجود مفر ممکن نہیں۔ یہ حقیقت اس سے بھی آشکارا ہوتی ہے کہ جب بھی بین الاقوامی سیاست میں کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو سیاسی مبصرین کے درمیان یہ ایک ہاٹ ٹاپک بن جاتا ہے۔ایسا ہی کچھ ماہ نومبر میں پیش آنے والے واقعات کے بعد ہو رہا ہے۔زیر نظر تحریر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ یہ تھیوری بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں کہاں پلیس ہوتی ہے؟
امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کے بعد طاقت کا توازن بگڑنے کے باعث دنیا تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگی۔9/11 کے بعد امریکہ نے جب مغربی ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو بین الاقوامی سیاست میں نت نئے تنازعات نے جنم لیا اور نئی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔2001 میں جب سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان پر امریکہ اور نیٹو ممالک کے حملے کو نئی صلیبی جنگ کا نام دیا اور اس کے بعد 2003 میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کو جواز بنا کر عراق پر چڑھائی کردی تو اس وقت ہی یہ سوچ پروان چڑھنے لگی تھی کہ روس کے بعد امریکہ کا اگلا ہدف اسلامی دنیا ہے۔اسی امریکی حملے نے آگے چل کر پوری دنیا کا نقشہ بدلنا تھا۔ اس حملے کے بعد افغانستان میں لڑنے والے غیر ملکی ’’جہادیوں‘‘ کی بڑی تعداد نے عراق کا رُخ کیا جبکہ دوسرے خطوں میں لڑنے والے جنگجو بھی عراق میں جمع ہوگئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور امریکہ بھی زیادہ دیر تک یہاں ٹک نہیں سکا اور عبوری حکومتوں کے بعداسلامک دعویٰ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نوری المالکی کے ہاتھوں میں اقتدار تھما کر وہاں سے اپنی فوجیں نکال لیں۔ یہ حکومت اس اہل نہیں تھی کی ملک میں جاری شورش کا خاتمہ کرتی۔اس دوران ’’عرب بہار‘‘ کی ہوا چلی اور خطّے کے دوسرے ممالک بھی اپنے اپنے مرکزی اقتدار سے محروم ہوگئے جس سے ہر طرف ایک انارکی پھیل گئی اور یوں یہ خطّہ عالمی طاقتوں کے لئے ایک ’’سینڈوچ‘‘ بن گیا۔ تیل و گیس اور دوسرے قدرتی ذخائر سے مالا مال اس خطّے میں اب اگرایک طرف عالمی طاقتیں کھل کر اپنے مفادات کا کھیل کھیلنے لگیں تو دوسری جانب یہ خطّہ دہشت گرد عناصر کا بھی گڑھ بن گیا جہاں داعش جیسی تنظیم نے جنم لیا جس کی طاقت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔نومبر کے پہلے عشرے میں مصر میں ایک روسی طیارے کے گر کر تباہ ہوجانے کے واقعے نے جس میں سوار 224 افراد ہلاک ہوگئے تھے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی اور اس کے بعد ماہ نومبر ہی کی 13 تاریخ کو اسی گروپ کے جنگجوؤں کا فرانس کے دارالحکومت پیرس کے چھ مختلف مقامات پر بیک وقت حملے کرنے جن میں 130 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ، ایک بار پھر 20 ویں صدی کے آخری عشرے میں منظر عام پر آنے والی سیموئیل پی- ہنٹنگٹن کی تھیوری ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ کو موضوع بحث بنا دیا۔ ان دو واقعات پر مغربی دنیا کی جانب سے شدید ردّ عمل دیکھنے میں آیا۔اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں پیرس حملوں پر شدید غم و غصّے کا اظہار کیا گیا اور داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کے لئے ایک قرار داد منظور کی گئی۔مغربی ممالک کے رہنماؤں اور عوام نے فرانس کے ساتھ خیر سگالی اور غمگساری کے جذبات کا اظہار کیا، اسی طرح کے مناظر جنوری میں پیرس میں چارلی ہیبڈو میگزین پر ہونے والے حملے کے بعدبھی دیکھنے میں آئے تھے۔ اس اثناء میں جب عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے پیرس حملوں کو تیسری عالمی جنگ کا آغاز قراردے دیا تو مسلم دنیا میں شدّت سے یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ پیرس حملوں سے صرف ایک روز قبل بیروت میں ہونے والے دھماکوں جن میں 43 افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب زخمی ہوگئے تھے ،پر اتنا شدید ردّعمل دیکھنے میں کیوں نہیں آیا؟اس سے صرف ایک ماہ قبل ترکی میں ہونے والے دو بم دھماکوں پر جن میں دو سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے ، مغرب نے اتنا واویلا کیوں نہیں مچایا؟ اس کے علاوہ فلسطین ، عراق، لیبیا، شام، مصر، یمن ،کشمیر اور افغانستان میں کئی برسوں سے جاری بے گناہ مسلمانوں کے قتل و غارت پر مغرب نے چپ کیوں سادھی ہوئی ہے؟ یہیں سے پرانی بحث نئی پیرایوں میں شروع ہو گئی۔
اب ایک بار پھر ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ کے نظریے پر یقین رکھنے والے سیاسی مبصرین سلسلہ در سلسلہ ہونے والے یہ واقعات اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی جانب پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ان کے مطابق دنیا اس زمانے کی دو بڑی تہذیبوں اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ اس کی مثال میں مسلمانوں کے دورِ عروج کے دوران 11ویں صدی سے لے کر 15ویں صدی تک مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی صلیبی جنگوں کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں مغرب اسلام کو دنیا پر اپنی حاکمیّت برقرار رکھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ مغرب میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف پیش آنے والے واقعات کا خصوصی طور سے ذکر کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں مغربی ممالک میں آج کل اسلام مخالف پراپیگنڈا زور پکڑ رہا ہے۔ جنوری کے مہینے میں فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کا اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے خاکے شائع کرنا اور حال ہی میں امریکہ کے ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بن کارسن کا یہ بیان کہ ’’کسی مسلمان کو امریکہ کا صدر نہیں بننا چاہئے‘‘اس کی تازہ مثالیں ہیں۔اس گروہ کے مبصرین اپنے دفاع میں نظریہ ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ کے خالق سیموئیل پی۔ ہنٹنگٹن کی اسی پیش گوئی کا سہارا لے رہے ہیں جس کے مطابق اس تصادم میں چینی اور روسی تہذیبوں کا جھکاؤ مغرب مخالف فریق کی جانب ہوگا، اگر دیکھا جائے تو دنیا کے موجودہ بدلتے ہوئے منظرنامے میں ان کا جھکاؤ واضح طور پر پاکستان، ایران جو کہ اس زمانے کی طاقتور اسلامی ریاستیں ہیں کی جانب ہے اگرچہ پاکستان کو فی الوقت مغربی ممالک کا ایک اچھا دوست ہی سمجھا جا رہا ہے لیکن اس حلقے کے مطابق عالمی سیاست میں بڑھتے ہوئے چین او ر روس کے کردار کے باعث مستقبل قریب میں پاکستان کا شمار بھی مغرب مخالف بلاک میں ہوگا۔ دوسری جانب اس تھیوری کا ابطال کرنے والے وہ سیاسی مبصرین ہیں جو ’’تہذیبوں کے درمیان تصادم‘‘ کے نظریے کو عملی شکل میں ڈھلتے ہوئے نہیں دیکھ رہے۔ وہ اپنے دفاع میں مغرب کا مشرق وسطیٰ بالخصوص شامی تنازعے سے فرار اختیار کرنے والے تارکین وطن، جو کہ مذہب کے لحاظ سے مسلمان ہیں ،کو اپنے ہاں پناہ دینے کی مثال پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں اگر جاری جنگ و جدل کا تعلق اسلام اور مغرب کے درمیان ٹکراؤ، دوسرے لفظوں میں تصادم سے ہے تو پھر مغرب کیوں ان تارکین وطن کو اپنے ہاں ٹھہرا رہا ہے جبکہ خود مسلمان ملکوں کا اس لحاظ سے کردارکچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ان کی رائے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اس وقت عالم اسلام کے تمام ممالک بھی آپس میں خوشگوار تعلقات نہیں رکھتے بلکہ کئی اہم معاملات میں کچھ اہم اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف مغرب کے ہاتھوں میں ہاتھ دئیے کھڑے نظر آتے ہیں۔یہی مکتب فکر یہاں ایک دوسری مثال کا بھی سہارا لیتا ہے۔ ان کے مطابق اگر تہذیبوں کے درمیان تصادم حقیقی ہے تو پھر کیوں ایسا ہے کہ مغرب اور کئی اسلامی ممالک آپس میں قریبی سیاسی، سفارتی، معاشی، تجارتی اور امدادی تعلقات رکھتے ہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ سیموئیل پی۔ ہنٹنگٹن کی بیان کردہ فالٹ لائن کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار نہیں کر لیتے؟
دیکھا جائے تو دونوں ہی گروہ اپنے حق میں مضبوط دلائل پیش کر رہے ہیں لیکن اگر ہم بنظر غائر یہ جائزہ لیں کہ موجودہ عالمی سیاست کا نظام کن بنیادوں پر استوار ہے تو ہمیں فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔دراصل حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بین الاقوامی سیاست پہ چل رہی ہے اور یہ تھیوری صرف اپنے مفاد کو پوجتی ہے۔مذہب، اخلاقیات، انسانی قدریں، یا سیموئیل پی۔ہنٹنگٹن کی زبان میں تہذیب کہہ لیں، یہ سب یہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔یہاں ہر ملک اپنے مفادات کے تابع ہے ، یہاں کی خارجہ پالیسی میں نہ تو کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ اس تھیوری کی نمائندگی کرنے والے ایک سیاسی مفکر تھامس ہابزنے کہا تھا کہ ’’انسان فطری طور پر خود غرض ہے۔‘‘ یہ اس کی سرشت میں شامل ہے کہ یہ طاقت کے حصول کے پیچھے بھاگے گا۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ اس وقت سبھی ممالک اپنی پالیسیاں صرف اور صرف اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر بنا رہے ہیں جس میں اگر کوئی مقصد ہے تو صرف اور صرف طاقت کا حصول اور اپنا مفاد، باقی کچھ نہیں۔
مضمون نگار ایک معروف صحافی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 1209مرتبہ پڑھی گئی۔