جب ارمغان چنددنوں کا تھا اور میں اس کے جسم کی مالش کرتی تھی تو ذہن میں یہی ہوتا تھا کہ اس نے کل تک آرمی آفیسر بننا ہے تو اس کی مالش کی ٹپس مجھے معلوم ہونی چاہئیں کہ جوان کے گٹھنے، پائوں چھاتی سب کیسے ہونے چاہئیں کہ وہ آرمی کے لیے فٹ ہو۔
زندگی بھر بیٹے کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق آرمی کے لیے تیار کرتی رہی اسی طرح کرتے کرتے 1998 آگیا۔
جب بیٹاایف ایس سی کے رزلٹ کا انتظار کررہا تھا اور میں رات دن اللہ کی بارگاہ میں جھکی ہوئی اس کے آرمی میں جانے کے لیے دعائوں میں مصروف رہتی تھی۔ان دنوں انٹر نیٹ کی سہولت نہیں تھی اس لیئے تین، چار اخبار ہرروز کے لگوائے ہوئے تھے تاکہ آرمی میں کمیشن کی ایڈورٹائزمنٹ نظروں سے چوک نہ جائے۔ان دنوں یونیورسٹیوں میں ایڈ مشن کے لیے میڈیکل کالجز میں سیلف فنانس تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی البتہ انجینئرز کے لیے یو ای ٹی میں سیلف فنانس پر کچھ سیٹیں ہوتی تھیں۔
نسٹ کااپنا الگ ٹیسٹ ہوتا تھا اور پاس ہونے کے بعد وہاں داخلہ ملتا تھاجس میں جنٹل مین کیڈٹ ، نسٹ سٹوڈنٹس اور paying cadets ہوتے تھے۔
مئی میں اخبار میں انجینئرز کی سلیکشن کے لیے اشتہار آچکا تھا ۔
یہاں جو بچے جنٹل مین کیڈٹ کی حیثیت سے منتخب ہوتے انہیں انجینئرنگ مکمل کروانے کے بعد آرمی میں کمیشن دیا جاتا تھا۔اس داخلے کا پہلا مرحلہ راولپنڈی جا کر نسٹ میں ایک تحریری امتحان دینا تھا۔بیٹے نے یہ پہلاٹیسٹ پاس کر لیا۔اب اگلا مرحلہ ISSBکا تھا۔تھوڑے دنوں میں اس کی آئی ایس ایس بی کے لیے کال آگئی ۔اس کا سنٹر گوجرانوالہ بنا تھا۔
روانگی سے پہلی رات میرا بیٹا صحن میں اکیلا بیٹھا تھا۔کچھ پریشان سا اور چپ چپ۔میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اسے چوما (اب بھی کبھی پریشان ہوتو ایسا ہی کرتی ہوں)اور پوچھا کیوں پریشان ہو میرے بچے؟؟''امی میرے ساتھ دو جرنیلوں کے پوتے اور ایک کسی کرنل کا بھانجا ہے۔''
اس کے علاوہ بھی شہر کے نسبتاً کھاتے پیتے گھروں کے بچے جارہے ہیں
پتہ نہیں میراانتخاب ہوتا بھی ہے یا نہیں؟؟ بس اتنی سی بات پر، پریشان مت ہو، لوگ اس طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ ہماری فوج ان چنداداروں میں سے ایک ہے جہاں میرٹ ہے اور قابلیت کی قدر کی جاتی ہے۔
اور پھر ایسا ہی ہوا۔ بیٹا آئی ایس ایس بی گیا۔ امتحان دیا اور نتیجہ اﷲ پر چھوڑ دیا اور اُس روز اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہمارا آرمی کا کوئی بیک گرائونڈ نہیں تھا اور نہ ہی ہمیں کسی قسم کی آگاہی تھی کہ کس طرح کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے لیکن میرے بیٹے کا منتخب ہو جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ آرمی میں سفارش نہیں بلکہ قابلیت کی بنا پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔جن بچوں کو اتنی محنت سے منتخب کیا جاتا ہے، اُن کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وطن کی محبت ان کے دل میں عود آتی ہے۔ انہیں اللہ کی راہ میں بے خوف ہو کر جان لٹا دینا سکھایا جاتا ہے۔
جب ایک مہینے کے بعد بیٹا پہلی مرتبہ گھر آیا تو ہم اسے پہچان نہیں سکے تھے ۔
اس کے سوجے ہوئے پائوں، ٹنڈ منڈ کٹے ہوئے بال، رت جگے ،سب کچھ اتنا بدلا ہوا تھا کہ میں سوچتی تھی کہ بچوں کی ٹریننگ سے پہلے آرمی آفیسرز کی مائوں کو ٹریننگ دی جانی چاہیے کہ آرمی میں بچوں کے ساتھ کیا کیا کچھ ہوتا ہے ۔
جب ارمغان پہلی مرتبہ گھر آیا تو اس سے السلام علیکم سر کہنے، اپنے کولڈ باتھ کے قصے، صبح سویرے ڈرل، سارا دن کلاسز اٹینڈ کرنے کے دوران نیند آ جانے کی باتیں کھانے کے دوران ذرا سی چمچ کی آواز پر بھوکا اٹھ جانے اور تراویح کے دوران سو جانے کے قصے سن سن کر کبھی میں ہنس پڑتی تھی اور کبھی رو پڑتی تھی۔وطن کی محبت ان جوانوں کی نس نس میں اتار دی جاتی ہے اور اسی میں قوم کی بقاء پوشیدہ ہے۔
جن دنوں وہ ایف ایس سی کے پیپرز دے رہا تھا ان دنوں اس کی منگنی کے لیے گھر میں بات چیت چل رہی تھی۔میری بچپن کی دوست اور کزن کی خوبصورت اور امیر کبیر بیٹی کے لیے وہ لوگ ارمغان کو اپنا بیٹا بنانا چاہ رہے تھے۔میں جانتی تھی کہ وہ لڑکی بہت اچھی ہے اور میرے بیٹے کے ساتھ وہ خوش رہے گی لیکن جب ارمغان کو آرمی میں کمیشن ملا تو اچانک ان لوگوں کے رویےّ میں واضح تبدیلی آگئی۔مجھے علم تھا کہ وہ لڑکی میرے بیٹے کی پہلی پسند ہے اور ان کے بدلے ہوئے رویے سے میں بہت پریشان تھی۔
آخر ایک دن میں نے اپنی دوست سے پوچھا کہ آپ لوگوں میں بہت تبدیلی آگئی ہے جبکہ ہم لوگ تو منگنی کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔اب جو بات انہوں نے بتائی اسے سن کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک آرمی آفیسر کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے، اس کی ایک مہینے کی تنخواہ میں تو ہماری بیٹی کے دو سوٹ بھی نہیں بن سکتے۔" تو پھر..؟ میں نے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ بس آرمی میں نہ جائے، پاکستان سے باہر جا کر پڑھائی کرے اور اچھی earning کرے، ہماری بیٹی بہت کھلے ہاتھ سے خرچ کرنے کی عادی ہے۔''
جب میں نے بیٹے کو ساری بات بتائی تو اس کے پاس دو راستے تھے۔ اپنی محبت یا آرمی کا کیریئر،آخر اس نے اپنی محبت کو قربان کر کے آرمی کو جوائن کر لیا۔
یا شاید اس نے محبت کو قربان نہیں کیا بلکہ محبت کو حاصل کر لیا۔
اس کا عشق، اس کی محبت آرمی ہی تو تھی۔ بہر حال یہ تقدیر کا فیصلہ تھا کہ بعدازاں میر ابیٹا طبی بنیادوں پر یونیفارم نہ پہن سکا اور اس کا پاک فوج کا یونیفارم آفیسر کے طور پر حصہ بننے کا خواب پورا نہ ہوا لیکن اُن نے پاک فوج کے ساتھ اپنے حصے کی محبت ضرور دکھائی، شاید یہی اصل چیز ہے۔
وطن کے بیٹے وطن پر کبھی اپنی محبت قربان کرتے آئے ہیں کبھی اپنی چند دنوں کی دلہن، کبھی اپنے نوزائیدہ بچے کو دیکھنے کی خواہش اور کبھی اپنی جان....
اے نگار وطن تو سلامت رہے۔
مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
آرمی کے سارے جوان اور سارے آفیسرز مجھے اپنے بیٹے ارمغان جیسے عزیز ہیں۔
ہماری فوج ہے تو ہم ہیں
پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد ||
(عروبہ زہرا امتیاز احمد کی والدہ ہیں جو پاک آرمی کے لیے میرٹ پر سلیکٹ ہوئے لیکن بعدازاں طبی بنیادوں پر اکیڈمی سے پاس آئوٹ نہ ہو سکے)
[email protected]
یہ تحریر 51مرتبہ پڑھی گئی۔