ابتدائے آفرینش سے نیکی و بدی کی آویزش جاری رہی ہے۔ بدی اگرچہ کچھ وقت کے لیے حاوی ہو جاتی ہے لیکن نیکی اور حق بالآخر غالب ہو کر رہتا ہے۔ روئے زمین پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے، بارگاہ الٰہی سے مختلف ادوار میں انبیاء کرام مبعوث کیے جاتے رہے اور پھر آخری کتاب اور خاتم النبیینۖ کی صورت میں یہ سلسلہ ہدایت مکمل ہوا۔ چونکہ ابلیس کو وقت مقرر تک مہلت دی گئی ہے لہٰذا طاغوطی قوتیں وقتاً فوقتاً حق کو مٹانے کی ناکام کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ اسی بابت آنحضرت محمدۖ نے فرمایا تھا کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
اسباب سانحہ مشرقی پاکستان پر روشنی ڈالتے ہوئے بریگیڈیرسعد اللہ خان لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کا اس قدر اثر ودسوخ تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسلامیات کا استاد بھی ایک ہندو تھا اگرچہ ڈھاکہ میں درجن بھر سے زیادہ ہندودیہات تھے لیکن ان کے رعب و دبدبے کے باعث کسی مسلمان کا وہاں جانا محال تھا۔ ہندوؤں نے بڑی دیدہ دلیری سے بہاری مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا جس کے ردِ عمل میں مغربی پاکستان سے فوجی دستوں کو بھی بلوایا گیا۔ جب ظالموں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو کچھ لوگ بھارت بھاگ گئے اور بھارت کے تعاون سے مکتی باہنی کی تشکیل ہوئی۔
جہاد لفظ ''جہد'' سے نکلا ہے جس کے معنی کوشش کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں حق کی سربلندی ،دینِ اسلام کی اشاعت و حفاظت کے لیے جسم و جاں اور مال و متاع کی بے دریغ قربانی جہاد کہلاتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ۔''ایمان والے اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں تو شیطان کے دوستوں سے لڑو بیشک شیطان کا داؤ کمزور ہے''(النساء 76)
مسلمان کا جذبہ ایمانی، جوش جہاد اور ذوق شہادت ایک ایسی قوت ہے جس سے باطل قوتیں ہمیشہ لرزاں رہی ہیں۔ تاریخِ اسلام میں سیکڑوں ایسے روشن ابواب رقم ہیں کہ جب کفر نے دینِ اسلام کو للکارا تو مٹھی بھر مسلمان توحید کی طاقت سے فتح یاب ہوئے۔ غزوہ بدر، جنگِ قادسیہ اور فتح اندلس اس کی زریں مثالیں ہیں۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب مسلمانوں کا جذبہ ایمانی کمزور ہوا اور حُب دنیا نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا تو باہمی نا اتفاقی اور خانہ جنگی سانحات کا باعث بنی۔ اس ضمن میں خالد ہمایوں لکھتے ہیں:
''تاریخ اسلام میں تین بڑے سانحات رونما ہوئے ہیں، پہلا بغداد، دوسرا غرناطہ اور تیسرا مشرقی پاکستان۔ مؤخر الذکر کا تعلق ماضی قریب سے ہے۔ ''
(1)
سقوطِ ڈھاکہ کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرقِ پاکستان خصوصاً ڈھاکہ میں ہندو طبقہ سازشیں کررہا تھا۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد اللہ خان نے مشرقی محاذ پر لڑائی کی اپنی کہانی کو 1975ء میں '' مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک'' کے نام سے رقم کیا۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی اس کتاب کو ''لاء ٹائمز پبلی کیشنز لاہور'' نے شائع کیا جبکہ ''رانا منصور امین'' نے اس کا اردو ترجمہ کیاہے۔ اس نادر کتاب میں جہاں وجوہاتِ سقوطِ ڈھاکہ پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں پاک فوج کے عظیم سپوتوں کی بہادری کی داستانیں بھی رقم کی گئی ہیں جو ہمارے مستقبل کے معماروں کیلیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
بریگیڈئیر سعد اللہ خان سقوطِ ڈھاکہ کے دوران مشرقی پاکستان میں دریائے میگھنا کے کنارے آشو گنج سیکٹر میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ وہ ایک درویش منش انسان تھے ان کا مؤقف تھا کہ خانہ جنگی کے دوران بھی لوگوں کے دل فتح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ محض ہتھیار ایسی جنگوں کے لیے کافی نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوام نے بھی انہیں عزت و تکریم سے نوازا۔ اواخر 1970ء سے لے کر دسمبر 1971ء تک کے عرصے میں مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے خلاف بے حد پروپیگنڈا کیا گیا۔ مکتی باہنی تنظیم کو بھارت کی معاونت سے تقویت ملی اور انہوں نے مشرقی پاکستان میں خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے قتل و غارت کی، خواتین کی بے حرمتی کے ساتھ بچوں کا بھی قتلِ عام کیا۔ لیکن صد افسوس ان کے انسانیت سوز جرائم کا موردِ الزام پاک فوج کو ٹھہرایا گیا۔حالانکہ بریگیڈیر سعد اللہ خان جیسے افسران جس علاقے میں اپنے فرائض منصبی انجام دیتے وہاں کی عوام سے عمدہ سلوک روا رکھتے جس کے باعث عوام کے دل فتح کر لیتے۔
اسباب سقوطِ ڈھاکہ پر روشنی ڈالتے ہوئے بریگیڈیرسعد اللہ خان لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کا اس قدر اثر ودسوخ تھا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اسلامیات کا استاد بھی ایک ہندو تھا اگرچہ ڈھاکہ میں درجن بھر سے زیادہ ہندو دیہات تھے لیکن ان کے رعب و دبدبے کے باعث کسی مسلمان کا وہاں جانا محال تھا۔ ہندوؤں نے بڑی دیدہ دلیری سے بہاری مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا جس کے ردِ عمل میں مغربی پاکستان سے فوجی دستوں کو بھی بلوایا گیا۔ جب ظالموں کے خلاف کارروائی شروع کی گئی تو کچھ لوگ بھارت بھاگ گئے اور بھارت کے تعاون سے مکتی باہنی کی تشکیل ہوئی۔
بریگیڈیئر سعد اللہ خان رقم طراز ہیں:
'' 1969ء میں عوامی لیگ کی مقبولیت اپنے نقطہء عروج کو پہنچنے کے بعد اب آہستہ آہستہ گھٹ رہی تھی۔ اس کی چال زوال کی طرف تھی اگر یہی چال قائم رہتی تو بعد ازاں عام انتخابات عوامی لیگ کے لیے بہت برے نتائج سامنے لا سکتے تھے۔۔۔ اسے اندرون و بیرون ملک بھاری امداد حاصل تھی- دو غیر ممالک اس کی مالی معاونت کے سلسلے میں مصروف تھے۔ ان کے اپنے مفادات تھے بڑے بھولے پن سے وہ جیتنے والوں کی پشت پناہی کررہے تھے- عوامی لیگ نے موقع کا ادراک کرلیا تھا اور اس مسئلہ سے فائدہ اٹھانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ '' (2)
یہ ایک نازک وقت تھا جس میں سیاسی قیادت کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی اور ایک خون آلود کہانی رقم ہوئی۔ مصنف کے نزدیک اگر ہتھیار ڈالنے کا حکم نہ دیا جاتا تو پاک فوج مشرقی پاکستان میں کم از کم چھ ماہ بھارتی افواج اور باغی قوتوں سے نبرد آزما ہو سکتی تھی۔
اس موقع پر اسلحے اور جوانوں کی کمی کے باوجود پاک فوج اور مقامی محبِ وطن رضاکاروں نے بھارتی فوج اور مکتی باہنی کی یلغار کا بھرپور مقابلہ کیا اور سیسہ پلائی دیوار بن گئے توحید کی قوت ایک ایسی قوت ہے جو مردِ مومن کو جرائت رندانہ عطا کرتی ہے ، سقوطِ ڈھاکہ کے حالات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس وقت بھی پاک فوج کے جوانوں میں وہی ملی جوش و خروش کار فرما نظر آتا ہے۔ بریگیڈئیر سعد اللہ خان اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں:
''کمانڈنگ افسر یاسین نے نوجوانوں کو بتایا تھا کہ اگر زندہ رہے تو یہ ہمارے گھر ہیں اور اگر مارے گئے تو یہ ہماری قبریں ہیں، اس لیے ہتھیاروں کے لیے خندقوں کو بڑی محبت اور احتیاط سے تیار کرو ۔''(3)
علامہ محمد اقبال ''مردِ مومن'' کے کردار کے ان اسرار کو سراہتے ہوئے اپنی نظم ''طارق کی دعا'' میں فرماتے ہیں:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کے پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
(4)
مصنف کی رائے میں،دنیا بھر میں کم ہی فوجی دفاع کے معاملے میں پاکستانی سپاہی کے عزم سے لگا کھاتے ہیں۔ کیونکہ مسلمان ہمیشہ حق اور رب کی رضا کے لیے جہا د کرتا ہے۔ کیپٹن ذوالفقار (جو زلفی کے نام سے معروف تھے) اور ان کے بھائی (لیفٹیننٹ سرفراز) کا تعلق ایک فوجی گھرانے سے تھا۔ فوج کی پالیسی اس امر کی اجازت دیتی تھی کہ دو بھائیوں میں سے ایک مغربی پاکستان کو لوٹ سکتا تھا۔ اس بابت کپتان ذوالفقار نے اپنے چھوٹے بھائی کو لوٹ جانے کا مشورہ دیا لیکن جذبہ ایثار اس قدر بلندی پر تھا کہ لیفٹیننٹ سرفراز نے بڑے بھائی کو واپس جانے کی التجا کی۔ مختصر یہ کہ دونوں بھائی جنگی محاذ پر ثابت قدم رہے بعد ازاں ''اکھوڑہ '' کے محاذ پر کیپٹن ذوالفقار نے جامِ شہادت نوش کیا اور سرفراز غازی کہلائے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران دشمن تعداد میں زیادہ اور جدید اسلحے سے لیس تھا۔ وہ بار بار فضائی حملے کرتا تھاجبکہ پاک فوج نے ناکافی اسلحے کے ساتھ قوتِ توحید سے مقابلہ کیا۔ اس ضمن میں محاذ کا ایک واقعہ ملاحظہ ہو:
''۔۔۔اسی وقت ہمارے تین تھکے ہوئے دشمن ہمارے سامنے سے گزرے۔ ہمارے جوان چلائے ''ہاتھ اوپر،ہاتھ اوپر'' مگر وہ بھاگتے رہے اور ہمارا سپاہی جاوید ان کو پکڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ میں نے چلاتے ہوئے کہا '' گولی کیوں نہیں چلاتے ہو؟ جوانوں میں سے ایک نے جواب دیا، جناب ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں بچا۔''۔(5)
مسلمان مردِ مجاہد جب بھی میدانِ جنگ میں وارد ہوتا ہے تو اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتاہے۔ دنیائے آب و گِل اس کے نزدیک پر کا ہ کے برابر غیر اہم ہوتی ہے۔ ''اکھوڑہ کی لڑائی'' میں کیپٹن امتیاز، میجر خرم، میجر بخاری اور میجر شمشیر نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیے- جاپانی کہاوت ہے کہ موت پر سے ہلکی اور فرض پہاڑ سے بھاری ہوتی ہے۔ ایک مقام پر مصنف نے جب میجر شمشیر کو توپ خانہ کی گولہ باری کے ذریعے دشمن کو مصروف کرنے کا حکم دیا تو اس پُر عزم مجاہد نے عرض کیا کہ انہیں قریب آنے دیجیے ہم ان کو پوری تیاری سے ملیں گے۔ اسی طرح کیپٹن کاظم، کیپٹن سعید، صوبیدار تازہ گل، سپاہی عارف اور دیگر تمام مجاہدین نے سرفروشی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ اس معرکے کے دوران جہاں دشمن کی فوج کو بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے زیادہ شراب دی جاتی تھی وہیں پاک فوج کے جوان نعرہ تکبیر سے اپنی روح کو گرماتے تھے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گا ہ کہا تھا، جس میں مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان اسلامی روایات کے امین ہونگے مگر بیرونی سازشوں اور اندرونی نااتفاقی کے بموجب ایسا نہ ہو سکا۔ اس کے باوجود مشرقی پاکستان کے غیور اور حب الوطن پاکستانی عوام اس سانحہ پر پاک فوج کے شانہ بشانہ رہے۔ ''برہمن باریہ '' کے مقام پر دشمن حملہ آور ہوا تو پاک فوج کے پاس اسلحہ ناکافی تھا، اس موقع پر بنگالی مسلم سکول و کالج کے طلبہ رضاکارانہ طور پراسلحہ اپنے سروں پر لاد کر لائے اور کُمک فراہم کی۔ بقول مصنف:
''چاندنی رات میں سفید کپڑوں میں ملبوس یہ طلبہ رحمت کے فرشتوں کی طرح نظر آتے تھے۔ '' (6)
اس موقع پر مشرقی پاکستان کے حب الوطن عوام میں ایک نام'' حضرت علی'' کا ہے جو اپنی رضا کار ٹیم کے ساتھ پاک فوج میں شامل ہوئے اور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ اسی طرح ایک مثبت کردار استاد ''عبدالمنان''
کا ہے۔ انہیںکہا گیا:
''اپنی زبان اپنے مکتب تک ہی محدود رکھو۔ تمہاری امداد کے لیے کبھی کوئی پاکستان سے نہیں آئے گا' ان کا جواب ہوتا تھا۔ ' میری مدد کے لیے اللہ کافی ہے!' '
اپنے یقین و ایقان کا دفاع کرتے ہوئے استاد ''عبدالمنان'' شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ اگر چہ متحدہ پاکستان کی نظریاتی سرحدیں متزلزل ہو رہی تھیں لیکن عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ ایک محبِ وطن بنگالی نوجوان ''ہادی'' کے والد کو صرف اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ ان کے مرشد کاتعلق ملتان سے تھا۔
مختصر یہ کہ سانحہ مشرقی پاکستان نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کا ایک بڑا سانحہ ہے۔ سیاسی قیادت کی کمزوری اور دشمن کی ریشہ دوانیوں کے باعث ملک دو لخت ہوگیا۔ لیکن اس الم ناک گھڑی میں مشرقی پاکستان میں موجود پاک فوج نے عزم و استقلال سے ملک کا دفاع کیا۔ زندہ قومیں اپنے ماضی سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ ہم اس وقت بھی ففتھ جنریشن وارفیئر کا مقابلہ کررہے ہیں۔ مسلمان کا جذبہ جہاد و شہادت، طاغوتی قوتوں کے لیے ہمیشہ خطرے کا باعث رہا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس گوہرِ نایاب کی حفاظت کریں اور اسے تقویت دیں۔
حوالہ جات:
1) خالد ہمایوں، قومی ڈائجسٹ(ماہنامہ) لاہور، دسمبر 2017، ص11۔
2) سعداللہ خان، بریگیڈیئر، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک'' مترجم، رانا منصور امین، مشمولہ قومی ڈائجسٹ(ماہنامہ) لاہور، دسمبر 2017، ص 24۔
3) ایضاً، ص 73۔
4) علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال، لاہور، زاہد بشیر پرنٹرز، 2012،ص 204۔
5) سعد اللہ خان، بریگیڈیئر، مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک''، مترجم، رانا منصور امین مشمولہ قومی ڈائجسٹ(ماہنامہ)، ص 122۔
6) ایضاً، ص 85۔ ||
مضمون نگار پى ايچ ڈى سكالر ہیں اور ايك سركارى كالج ميں بطور ليكچرار فرائض انجام دے رہى ہیں۔
یہ تحریر 348مرتبہ پڑھی گئی۔