ستمبر1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو یہ کالم نگار پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ عمر ہوگی یہی کوئی نو برس۔اُس زمانے میں پہلی جماعت میں داخلے کے لیے سرکاری عمر پانچ برس متعین کی گئی تھی۔ پانچ برس کی عمر جانچنے کا طریقہ بڑا دلچسپ تھا۔ صدر معلم صاحب یا داخلے کا فیصلہ کرنے والے اُستادِ محترم داخلے کے اُمیدوار بچے کو حکم دیتے کہ وہ اپنا دایاں ہاتھ اپنے سر کے اوپر سے گزار کر اپنا بایاں کان پکڑلے۔ اگر بچہ اس طریقے سے کان پکڑنے میں ناکام رہتا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی وہ پانچ برس کا نہیں ہوا۔ ابھی اُس کے 'پڑھنے' کے دن نہیں آئے۔ابھی تو کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔آج کی طرح نہیں ہوتا تھا کہ جوں ہی بچہ چلنا اور بولنا شروع کرتاہے،توماں باپ اُسے علومِ انگلیشیہ سکھانے کے لیے کسی گٹ پٹ کرتے جہنم میں جھونک آتے ہیں،جس کا نام ہوتا ہے: ''چلڈرن پیراڈائز''۔ یوں چند گھنٹوں کے لیے ماں باپ، بالخصوص ماں کو بچے کی دیکھ بھال اور پرورش کے جھنجھٹ سے نجات مل جاتی ہے۔ ہمارے بچپن میں پانچ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے بچوں کو بالعموم گھر یا مسجد میں 'بغدادی قاعدہ' پڑھایا جاتا تھا ۔ کلمے سکھائے جاتے تھے۔نماز کی مشق کروائی جاتی تھی،الف، ب کی تختی لکھوائی جاتی تھی اور اُردو کے ابتدائی قاعدے سے شناسائی کروا کراردو میں سَو تک گنتی بھی سکھا دی جاتی تھی۔کیا اچھا زمانہ تھا کہ لوگ اپنے نونہالوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ دلوانے کو ترجیح دیتے تھے۔ نجی سکول 'نالائقوں کی نرسری' سمجھے جاتے تھے اور محض کمانے کھانے کا ایک ذریعہ۔ جب کہ سرکاری سکولوں کا معیار بلند ہوتا تھا اورفیسیں کم۔اب وہی سکول بڑی حقارت سے 'پیلے سکول' کہے جانے لگے ہیں۔ معیار میں پستی تو اُس وقت آئی جب تمام نالائق تعلیمی ادارے قومیا کر گھوڑے گدھے سب برابر کر دیے گئے۔
ستمبر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے کان میں یہ باتیں تو پڑتی تھیں کہ رن کَچھ میں بھارتی فوجوں سے جھڑپ ہو رہی ہے۔ مگر ایک روز سنا کہ بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے۔بس اُس روز سے شب و روز ہی بدل گئے۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے، جن کو پوری قوم 'صدر ایوب' کہتی تھی، قوم سے خطاب کیا۔کلمہ طیبہ پڑھ کر،کلمے کے نام پر قوم کودشمن کے مقابلے میں متحد ہوجانے کی دعوت دی اور یہ تاریخی فقرہ کہہ کرتمام قوم کا جذبہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا (قوم بھی تو اُس وقت کوئٹہ سے کومیلا تک پھیلی ہوئی تھی)کہ
''دشمن کو معلوم نہیں ہے کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے''۔
'صدر ایوب' کو ہم بھی اُس وقت محمد ایوب خان کا پورا نام سمجھتے تھے۔ 'صدر' گویا اُن کے نام کا جزو بن گیا تھا۔ہم نے اُس زمانے میں اور اُس زمانے کے لوگوں کو 'ایوب خان'…'جنرل ایوب'… یا صرف 'ایوب صاحب'کہتے کم ہی سنا۔جو بھی کہتا 'صدر ایوب' ہی کہتا۔ 'صدر ایوب' لوگوں کی زبانوں پر ایسا چڑھا کہ ایوب خان کے بعد جب یحییٰ خان نے صدارت سنبھالی تو 'صدر یحییٰ' بڑا 'اوپری اوپری' سا اورانتہائی نامانوس لقب لگتا تھا۔ہماری زبانیں تو صرف 'صدر ایوب' کہنے کی عادی تھیں۔
قوم کا جذبہ ایسا بلند تھا کہ 'لہوریے' تو عین عالمِ جنگ میں دیگیں پکوا پکوا کر جوق در جوق (گویا جلوس بنائے) محاذِ جنگ کی طرف بڑھتے چلے جاتے تھے کہ مجاہدوں کو کھانے کا ہوش کہاں ہوگا۔ کھانا ہم پہنچائیں گے۔ دشمن کے طیاروں سے فضائی معرکہ پیش آتا تو زندہ دلانِ لاہور بے خوف و خطر چھتوں پر چڑھ کر اس' آتش بازی' کا تماشا دیکھتے۔ ملک کے دیگر خطوں میں بھی یہی حال تھا۔'صدر ایوب' نے 'قومی دفاعی فنڈ' قائم کردیا تھا۔یہ فنڈ جمع کرنے کے لیے اُس حالتِ جنگ میں بھی جابجا کیمپ لگ گئے تھے۔ان کیمپوں میں لاؤڈ سپیکر پر رضا کار ہر وقت اعلانات کرتے رہتے اور ہم جیسے بچے مائیک پر ملی نغمے سنانے کے لیے موقعے کی تاک میں کھڑے رہتے۔ ایک بار ہمیں سب سے چھوٹا بچہ کہہ کر مائیک پر بلایا گیا تو ہم نے بڑے جوش و خروش سے صرف ایک شعر پڑھ کر بقول معلن… 'مشاعرہ لوٹ لیا'…
میں طارق بنوں گا، میں خالد بنوں گا
بڑا ہو کے میں بھی مجاہد بنوں گا
اُس وقت سپاہی سے لے کر صدر تک پوری قوم جذبۂ جہاد سے سرشار تھی۔'قومی دفاعی فنڈ' میں لوگ رقوم ہی نہیں جمع کراتے تھے،جنگ سے متاثر ہو کر بے گھر ہونے والے پاکستانی بھائی بہنوں کے لیے گرم کپڑے،لحاف، گدے، اشیائے خور و نوش اوردیگر اشیائے ضرورت بھی جمع کرائی جاتیں۔حتیٰ کہ ہم بچوں نے اپنے کھلونے بھی اپنے ننھے منے بھائی بہنوں کے لیے لے جاکر جمع کرادیے۔
جنگ سترہ دنوں تک جاری رہی اور ان سترہ دنوں میں ایثار اور قربانیوں کی نادر مثالیں ظہور میں آئیں۔ایک قربانی تو وہ تھی جو ہمارے جاں باز مجاہد سرحدوں پر جان کی بازی لگا کر دے رہے تھے ،دوسری طرف پوری قوم ایک مثالی قوم بنی ہوئی تھی۔ ان سترہ دنوں میں تاجروں نے کسی قسم کی کوئی ذخیرہ اندوزی نہ کی۔ کسی شے کی چور بازاری نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ کسی چیز کی قیمت بھی نہیں بڑھی۔رات بھر 'بلیک آؤٹ' کی وجہ سے بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر تاریکی میں ڈوبے رہتے، مگر کسی دوسرے جرم کی تو کیا ان سترہ دنوں میں کسی 'چوری' کا بھی کوئی کیس پورے ملک میں کہیں رجسٹر نہیں ہوا، اورجیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا،ملک بھی تو اُس وقت کوئٹہ سے کومیلا تک پھیلا ہوا تھا۔
شہری دفاع کے اداروں کی طرف سے بم باری کے دوران میں جان بچانے کے لیے جابجا خندقیں کھوددی گئی تھیں۔ حکم تھا کہ سائرن بجنے پر خندقوں میں جاکر اِس طرح پیٹ کے بَل لیٹ جائیں کہ کہنیاں زمین پر ٹکی ہوئی ہوں اور سینہ زمین سے اُٹھا ہوا ہو۔مگر لوگوں میں ہمت و بہادری کا جذبہ حماقت کی حد تک پھیلا ہوا تھا۔ ان خندقوں کو بڑے تو کبھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ہم بچے ہی آنکھ مچولی کھیلتے وقت اپنے چھپنے کے لیے استعمال کرلیتے تھے۔
وہ سترہ دن قومی یکجہتی کے دن تھے۔ قومی زبان، قومی لباس، قومی پرچم،قومی نغموں اور قومی دفاع کا ہر زبان پر چرچا رہتا تھا۔ پاکستانی فوج پوری قوم کی آنکھ کا تارا بنی ہوئی تھی۔ کوئی اکیلا سپاہی بھی کہیں کسی کو نظر آتا تو ہجوم لگ جاتا۔ فضا ''پاک فوج زندہ باد'' کے نعروں سے گونج اُٹھتی۔
محشر بدایونی کا ایک نغمہ اُن دنوں ہر وقت ہمارے وردِ زبان رہا کرتا تھا، اُسی کے بول پر آج کی گفتگو کا اختتام کرتے ہیں:
اپنی قوت اپنی جان
لا الٰہ الا اللہ
محمد رَّسول اللہ
ہر پل، ہر ساعت، ہر آن
جاگ رہا ہے پاکستان ||
مضمون نگار معروف نثر نگار ہیں۔ ایک اخبار کے لیے کالم بھی لکھتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 66مرتبہ پڑھی گئی۔