لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید کی خدمات کے حوالے سے سعید سادھوکی تحریر
پچھلے سال خواتین کے عالمی دن پر ٹویٹر کی ایک سپیس چل رہی تھی۔ بلوچستان کی خواتین اپنے مسائل پر بات کر رہی تھیں۔ میں حیران تھا کہ ان کی گفتگو کی سطح اس قدر شان دار تھی کہ سپیس میں موجود مرد انہیں ٹوکنے لگے تھے۔ وہ یک طرفہ شدت سے پاک تھیں ، وہ بلوچ روایات کی پاس داری کرتے ہوئے اپنے لیے اور انسانی نسلوں کے لیے جدت اور بہتری کے سلیقے بتائے جا رہی تھیں کہ ایک دم سے ایک دو مردانہ آوازوں سے سپیس میں شور ہوا اور انہیں بہت واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ آپ خواتین جب تک علیحدگی پسند گفتگو کریں گی ہم میں بیٹھ سکتی ہیں اگر آپ نے اسلام آباد طرز پر جدید ترین خواتین کے مسائل ڈسکس کیے تو آپ کی آواز بلوچستان میں دبا دی جائے گی۔
یہ تھا وہ مکالمہ جو مجھے بلوچستان لے گیا۔
ایسا کیا ہو رہا ہے کہ خواتین کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ جس صوبے کی روایات نے دیہی خواتین کی خواندگی کی شرح دوہندسوں تک نہ پہنچنے دی، وہاں کی خواتین ایک دم ایسی کیسے ہو سکتی ہیں۔
یہی وہ سوالات تھے کہ مجھے اپنے سوالات کے لیے بلوچستان کا رخ کرنا پڑا۔
میں ایک تصویر دیکھتا ہوں کہ ایک جرنیل اپنے جوان کی میت وصول کرتے ہوئے ڈبڈبا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ بلوچستان کے طول و عرض سے آئی ہر میت وہ خود وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہر بار اس سے قبل اس کے آنسو وصول کر جاتے۔ ہم دوست نجی محافل میں ان کا تذکرہ مونس بلوچستان کے نام سے کرنے لگے تھے۔ مجھے ان واقعات میں بلوچستان اور جنرل سرفراز بڑے دلچسپ لگنے لگے تھے۔
تربت اس بات کی بہت بڑی مثال ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے کہ تعلیم بڑھے ، روزگار چلے، یار کوئی پہیہ گھومے، سڑکوں تک کی تعمیر تک میں وہ ذاتی رسوخ برتتے۔بارڈر فینسنگ کا سلیقہ ان کا جدا تھا، جس علاقے میں فینسنگ ہوتی تھی وہیں وہ جرگے کرنے پہنچ جاتے۔باڑ لگانے کے دوران پیدا ہونے والے مقامی مسائل کو وہ موقع پر جرگوں کے ذریعے حل کرتے چلے جاتے اور باڑ روز بروز آگے بڑھتی جاتی۔ یوں سمجھیے کہ باڑ سرحد پہ لگ رہی تھی اور وہ باڑ کو پائیداری اپنے مکالمے سے دیے جا رہے تھے۔
جرگوں میں جنرل سرفراز کا سلیقہ بے حد مختلف تھا۔ وہ مکمل وینٹی لیشن پر یقین رکھتے تھے۔
اگر کوئی بزرگ کسی غصے میں ہیں ، ناراضی میں گفتگو کر رہے ہیں یا احتجاجی بات کرنا چاہ رہے ہیں ، وہ ماتھے پہ بل لائے بنا نہ صرف سنتے بلکہ انہیں مزید بولنے پر بھی اکساتے تا کہ ناراض آدمی خود کو مکمل وینٹیلیٹ کر سکے۔وجہ وہ جانتے تھے کہ دہائیوں سے اس صوبے نے محرومی اور قدامت پرست قبائلی نظام کی موجودگی میں جدت کی چکا چوند نہیں دیکھی ہے۔وہ صوبے کو جدید، آسان، امن اور رواداری کے ٹریک پر لانے کو بے چین تھے۔
یہ وہ عادت تھی جس نے ایک جانب انہیں عوام میں مقبول ترین بنا دیا تو دوسری جانب عوام کا اعتماد ریاستی میکنزم پر مضبوط ہونے لگا۔پھر ہر منصوبے میں شفافیت قائم رکھنے کے لیے لوکل لوگوں کو ذمہ داریاں سونپ دیتے ۔کسی بھی منصوبے میں ان کے افعال کا محورو مرکز فقط عام آدمی تھا۔کسی جگہ سے گزرتے ہوئے انہیں جھونپڑی میں بچے کتابوں کے ساتھ دکھائی دیے۔ وہیں رکے اور کچھ عرصے بعد وہ جھونپڑی ایک خوبصورت تعلیم گاہ میں ارتقا پا گئی۔ ایسے سیکڑوں تعلیم دان انہوں نے ذاتی توجہ سے اگائے جہاں ننھے ننھے پھول تعلیم کی خوشبو کما کر بڑے ہو رہے ہیں۔
تعلیمی اداروں کی بحالی ان کا سب سے بڑا ہدف رہا ہے ۔
پنجاب کے لوگ اگر اپنی بیٹیوں کو کیڈٹ کالج بھیجنا چاہیں تو ہمارے پاس دو آپشن بچتے ہیں، اپر پنجاب صوابی سے مستفید ہوتا ہے تو لوئر پنجاب کی بیٹیاں تربت کے گرلز کیڈٹ کالج میں جانا پسند کرتی ہیں۔ تعلیمی سطح پر انہوں نے بلوچستان کو جدید اور سماج کو تیز بہدف تبدیل کر دینے والی تکنیک کے حامل تعلیمی اداروں کے تحائف دیے۔یہ ان کی ذاتی کاوش ہی تھی کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تربت جیسا شہر آزاد میڈیا ذرائع کے مطابق 60 فیصد سے زیادہ ٹرن آئوٹ دیتا ہے۔
ٹرن آئوٹ کی یہ فیصد2018 کے الیکشن میں بھی 272 میں سے پندرہ بیس حلقوں کو ہی نصیب ہوئی تھی۔ جمہوریت پر بلوچ عوام کا اعتماد مضبوط کرنے اور آزادانہ شفاف اور منصفانہ انتخابات ان کا وہ کارنامہ تھا جو پاک سر زمین کے بدخواہوں کو لا مختتم ٹیسوں سے نواز گیا۔
یہ سب اس تعلیم کی بدولت ہوا جس کی بیج کاری انہوں نے پورے انہماک سے آئی جی ایف سی ہوتے ہوئے شروع کر رکھی تھی۔
ایک بہترین کمان دار کی ہر نشانی کے حامل لیفٹیننٹ جنرل سرفراز پیشہ ورانہ اصولوں پر نہایت سخت مگر عوام کے لیے نہایت ہی نرم دل واقع ہوئے تھے ۔
کسی بھی علاقے سے گزرتے ہوئے وہ اکثر مزدوروں اور بچوں کے پاس جا ٹھہرتے۔ چائے کے چھپر ان کی پسندیدہ جگہ اورغریب کان کن ان کے پسندیدہ لوگ تھے۔
کسی تصنع یا بناوٹ کے بنا ان میں گھل مل جاتے اور ہمیشہ گفتگو کے دوران ان کے زیادہ سے زیادہ مسائل کی کھوج میں رہتے۔ عوام کے ساتھ ان کا میل جول ایسا دوستانہ تھا کہ رسول بخش بگٹی جیسا سکول کا بچہ ان سے بے دھڑک اپنے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی فرمائش کر دیتا ہے اور پھر بستی کرکٹ کا میدان بن جاتی ہے۔ یہ ریشم کی نرمی یونہی انہیں عطا نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ رزم حق و باطل میں وہ فولاد صفتی ثابت کر چکے تھے، سوات آپریشن اور وزیرستان آپریشن میں آپریشن اور کمان اپنے ہڈوں پر سہی اور جنگ میں دو بار زخم کمائے ، گو کہ انہیں ہلال امتیاز اور تمغہ بسالت دہشت گردی کے خلاف سوات اور وزیرستان آپریشن میں اعلیٰ ترین بہادری پر دیے جا چکے تھے لیکن فوجی کی زندگی کے سب سے قیمتی تمغے ان کے پاس موجود تھے ۔جنگ کا زخم فوجی کی زندگی کا قیمتی ترین تمغہ ہوتا ہے جو انہوں نے دونوں بار دہشت گردی کے خلاف کمایا۔
جوانوں سے چار قدم آگے رہ کر ہر حملے میں شامل ہونا، ہر آپریشن میں موجود ہونا وہ خوبی تھی جو انہوں نے اپنی فطرت ثانیہ بنا رکھی تھی۔
دہشت گردوں کے صفائے کے ماہر کے طور پر پہچانے جانے والے سرفراز علی کی آنکھ نہایت تیکھی تھی۔
وہ دشمن کی بو کے ساتھ ساتھ اس کی متوقع چال تک کو جانچنے میں لمحہ نہیں لگاتے تھے۔ ان کے پیشہ ورانہ ساتھیوں کی یادیں ایسے واقعات سے اٹا اٹ ہیں کہ ان کے اچانک جاری ہو جانے والے احکامات آئے اور کچھ ہی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ یہ احکامات کس قدر بڑی تباہی کے نہایت قریب سے انہیں بچا لے گئے یا منصوبے میں کی گئی بالکل معمولی سی تبدیلی نے ان کے ہاتھ دہشت گردوں کی کھیپ لگوا دی۔
یہی وجہ تھی کہ انہیں ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس جیسے نازک اور تکنیکی ترین عہدے کی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی۔
امریکہ میں ملٹری اتاشی رہنے والا لائق ، قابل اور مہارتوں سے بھرا سرفراز علی ، دہشت گردی اور دہشت گردوں کا سپیشلسٹ، آئی جی ایف سی کے طور پر بلوچستان تعینات ہوا۔ بلوچستان میں ملک دشمن ایجنسیوں کے مفادات کی بھرمار تھی اور سرفراز کو اب بہت سے میدانوں میں مختلف جتھوں اور ان کی نفسیات سمیت اپنے مقاصد حاصل کرنا تھے۔
وہ وقت پاک سر زمین کے بدخواہوں کی زندگی کا ایسا لمحہ بن گیا جس کی ٹیسیں پورے کرہ ارض کے بت خانوں میں آج بھی گونج رہی ہیں ، چاہے وہ بت خانہ' را' کا ہو یا موساد کا۔
خواتین کو قومیانے بلکہ ریاستانے میں ان کا سٹانس بہت سنجیدہ تھا۔
وہ اس بات پر اندھا یقین رکھتے تھے کہ بہن اور بیٹی اگر تعلیم سے مصافحہ کرتی ہے تو پھر شعور اور ترقی معانقہ کیے بنا نہ ٹلے گی۔
تعلیم کے شعبے میں انہوں نے خواتین کو ہمیشہ ترجیح دی۔ سماج اور روایت کی قدامت میں مکمل ملفوف عورت اب جاگ رہی تھی۔ گلوبلائزیشن کے اس عہد میں انگڑائی لیتے اس انسان کو تھپکی اور شعور کی طاقت درکار تھی۔ تعلیمی اداروں میں ان کے لیے سہولیات بھرا ماحول مہیا کرنا بہت ضروری تھا۔ بدخواہوں پر یہ عمل کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ بہت روڑے اٹکانے کی کوششیں بھی ہوئیں مگر وومن ایمپاورمنٹ کی مثال قائم کرنے میں کامیابی لازم تھی۔ وہ بلوچ خواتین کے لیے پیراملٹری فورسز کے دروازے کھولنے میں کامیاب ہوئے۔
اس ایک عمل سے خواتین سماجی، معاشی خود انحصاری کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی کی اس منزل کی طرف چل پڑی ہیں جس کا راستہ فقط آگے اور بہتری کی منزل کو ہی لیڈ کرتا ہے۔
سنجاوی زیارت کے نزدیک دراصل وہ گائوں تھا جہاں وہ ٹھٹھک کر رہ گئے۔ جونہی وہ شہر میں داخل ہوئے انہیں خود کو ہمہ دم دیکھتی ان گنت آنکھیں محسوس ہوئیں۔ انہیں لگا یہ قصبہ بہت انہماک اور بے حد احترام سے انہیں دیکھ رہا ہے۔
یہ ایک روٹین کا جرگہ تھا۔
وہاں کے عوام انہیں یوں دیکھنے لگے جیسے یاتری مقدس مقام کی یاترا کرتے ہیں۔ ذرا دیر ٹھہر کر جب وہ ان میں گھل مل گئے تو گائوں کے قدیم ترین بزرگ نے بڑے تیقن دار لہجے میں بتایا کہ پچھلے 75 سالوں میں کسی بھی کور کمانڈر کا ان کے گائوں میں یہ پہلا دورہ ہے۔ بظاہر تو وہ ان کے ساتھ بالکل گھل مل کر مسائل پر بات کرنے لگے لیکن وہ اس ایک واقعے سے کسی نتیجے پر پہنچ چکے تھے ۔ سو انہوں نے لگاتار جرگوں کا سلسلہ جاری کر لیا۔ ڈیرہ بگٹی، پنجگور ، پشین، خاران ، تربت ،جیکب آباد کے مضافات خبروں میں آنا شروع ہوئے۔ وہاں کے جھونپڑی سکول پکے ہونے لگے اور بچوں کو کتابیں ملنے لگیں ۔ عوام کا اعتماد بحال ہوتے ہی بلوچستان میں عوام بے خطر سفر کرنے لگے۔ معیشت کے سوئے اشاریوں میں ہل چل ہونے لگی۔ انہی کی موٹیویشنل اور عطا کردہ اعتماد تھا کہ 2021 اور 2022 میں پی ایم اے کاکول کی اعزازی شمشیر بلوچستان کے کیڈٹس نے حاصل کی۔ وہ نہ صرف اس پہ بہت خوش ہوئے بلکہ انہوں نے دونوں کیڈٹس سے ملاقات کی اور پیٹھ تھپتھپائی۔
وہ قیمتی اذہان کی ہمیشہ قدر کرتے چاہے وہ مخالف فکری نظریے سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی زندہ مثال اس سال کے بلوچستان ایکسیلنسی ایوارڈ ہیں ۔ جن میں چن چن کر قیمتی افراد کو شامل کیاگیا۔ ڈاکٹر عبداللہ شاہ کاکڑ نسبتاً مخالف فکری نظام سے لیکن قیمتی پاکستانی ذہن کے پروفیسر ہیں جو بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔جب بلوچستان ایکیسلنس ایوارڈ دیا گیا تو بلوچ فکری، ادبی اور سماجی حلقوں میں حیرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ خود ڈاکٹر صاحب حیرت اور خوشی سے دوچار تھے ۔ کیوں نہ ہوں جنرل سرفراز بلوچستان ایکیسلنس کے انعام سے بلوچستان کے کسی قیمتی ذہن کو کیسے محروم رکھتے۔
یہی ان کا شعور تھا جو ان کے اندر مکالمے کی لچک، شعوری اختراع کے امکانات اور اپنے لوگوں سے پیار کا بآواز بلند عندیہ دیتا ہے۔
مضمون نگار مختلف موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 581مرتبہ پڑھی گئی۔