ڈینگی بخار کا پرانا نام ہڈی توڑ بخار تھا۔ یہ مرض نیا نہیں بلکہ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔ مون سون اور گرم مرطوب آب و ہوا کے موسم میں دنیا کے 110سے زائد ممالک کے افراد ڈینگی بخار کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی اڑھائی کروڑ سے زائد آبادی اس موذی اور جان لیوا مرض کا شکار ہے۔ڈینگی بخار کا ذکر چین کے میڈیکل انسائیکلو پیڈیا میںہے جس کے مطابق اسے ''زہریلے پانی کا بخار'' قرار دیا گیا۔ یہ بخار 562عیسوی میں بھی پایا گیا۔ تاریخ میں اس مرض کے وبائی شکل میں پھیلنے کا ذکر سترہویں صدی میںبھی آیا۔
ڈینگی وائرس کے پھیلائو کا باعث بننے والا مخصوص مچھر عام طور پر گھروں میں پرورش پاتا ہے اگرچہ یہ خیال کیاجاتا ہے کہ یہ وائرس افریقی اور گرم ممالک میںپایا جاتا ہے، لیکن گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ڈینگی بخار کے ہزاروں مریض سامنے آئے ہیں۔2017,18ء میں بارشوں میں غیر معمولی اضافے اور شدید سیلاب کی وجہ سے مچھر کا پھیلائو لاہور ، کراچی، راولپنڈی، فیصل آباد اور کئی دیگر علاقوں میںہوا۔ سیکڑوں افراد ڈینگی مچھر اور بخار کے ہاتھوں انتقال کرگئے جبکہ ہزاروں متاثر ہوئے۔
پھیلائوکے اسباب
ڈینگی سے پیدا ہونے والا بخار ایک خاص قسم کے مچھر ایڈیزایجپٹائی (Aedes aegypti) کے کاٹنے سے پھیلتا ہے ۔ اس مچھر کے جسم پر سیاہ اور سفید پٹی بنی ہوتی ہے۔ عموماََ یہ مچھر صبح اور شام کے وقت کاٹتا ہے ۔ اس کا مسکن صاف پانی ہے ، گھر کے باہر یا اندر جہاں بھی پانی کھڑا ہوگا، مچھر اس میں انڈے دے دیتا ہے اور یہ انڈے مختصر وقت میں مچھر بن جاتے ہیں ۔ اس مرض کے علاج کے لئے اب تک کوئی حفاظتی دوا یا علاج کے لئے مخصوص ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔ اس مرض سے بچنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے بھی جو تجاویز دی ہیں وہ سب حفاظتی نوعیت کی ہیں۔
تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ ڈینگی کا مرض تشویشناک ہونے کے باوجود ایسا مرض نہیں ہے کہ اس سے خوف زدہ ہوا جائے ، یہ مرض ٹائیفائیڈ سے زیادہ نقصان دہ نہیں بشرطیکہ اس کا علاج بروقت شروع کردیا جائے۔
ڈینگی بخارکی علامات
اس وائرس کا حملہ ہوتا ہے تو مرض کی علامات ظاہر ہونے میںتین سے پانچ دن لگتے ہیں۔ بعض اوقات اس کی علامات دس دن کے بعد سامنے آنے لگتی ہیں۔ڈینگی بخار کی علامات میں سردرد اور سر میں بھاری پن کا احساس ہونا ، جسم میں ہلکی دردیں جبکہ آنکھوں اور کمر میںدرد شدت کے ساتھ نمایاں ہونے لگتا ہے، مریض کمزور اور بے چین ہوجاتا ہے ۔ علامات ظاہر ہونے کے تیسرے روز ہاتھ پائوں اور جسم پر سرخ دھبے نمایاں ہونے لگتے ہیں، مریض کے پھیپھڑوں ، گردوں اور آنتوں میں انفیکشن ہوجانے سے تھوک ، پیشاب اور پاخانے میں خون کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، اس وائرس سے متاثرہ افراد میںسے90 فیصد مریض عام علاج معالجے اور غذائی ردو بدل سے روبہ صحت ہوجاتے ہیں ۔ ایسے مریض جو ڈینگی وائرس کی زیادہ مقدار خون میں سرائت کرجانے سے نازک صورتحال تک جا پہنچیں، ان کو صاف خون لگا کر اس وائرس سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن انتقال خون کے وقت تسلی کرلی جائے کہ خون دیگر تمام متعدی امراض کے وائرس، جراثیم و بیکٹیریا سے پاک ہو۔
اس میں سب سے پہلے ایسی غذا ئیں استعمال کی جائیں جو قوت مدافعت میں اضافے کا باعث بنیں،پھلوں میںانار اور ٹماٹر قدرتی طور پر بیماریوں کے خلاف جنگی سپاہیوں کا کام کرتے ہیں۔ سبزیوں میں ادرک ، لہسن او ر پیاز اینٹی وائرل اور اینٹی بائیوٹک خصوصیات کے حامل ہیں، علاوہ ازیں ایسی خوراک استعمال کی جائے جو نظام ہضم میںفتور پیدا نہ کرے اس لئے لازمی ہے کہ زود ہضم اور ہلکی غذائیں کھائی جائیں۔ اس کے علاوہ سبزیاں پکاتے وقت سرخ مرچ کم سے کم استعمال کریں ۔ہری مرچ اور ہلدی کامناسب استعمال کریں، ہلدی بھی جسمانی مدافعتی نظام میں بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔
ڈینگی سے بچائو کی حفاظتی تدابیر
یہ تحریر 4مرتبہ پڑھی گئی۔