سفر در سفر

پٹالہ سے ٹھٹھہ تک۔  عروج و زوال کی کہانی!

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
 ہم اقبال کی بات مانتے ہوئے قومی شاہراہ این پانچ پہ شہر قائد سے مشرق کی جانب عازمِ سفر تھے۔ کلومیٹرز کی سینچری پہ ہماری نظروں کے سامنے دو ہزارسالہ قدیم شہر ابھر رہا تھا۔سلطان جام نظام الدین نندا کا آباد کیا ہوا شہر،بادشاہوں کا شہر۔ ٹھٹھہ۔ جس کی بندرگاہ پہ سنہ1699  میں جب بحری جہاز لنگر انداز ہوا تو شہر کی گلیوں کو حیرت سے تکتے کپتان نے اپنے دفتر اطلاع بجھوائی کہ یہ شہر لندن سے بڑا ہے۔سکندر اعظم کے زمانے میں یہ شہر پٹالہ بندرگاہ کی نسبت سے پٹالہ کہلاتا تھا لیکن آج دنیا اسے ٹھٹھہ کے نام سے جانتی ہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ یہ شہر تین سو ستائیس قبل از مسیح سے بھی پہلے آباد تھا۔اور بدلتے وقت کے ساتھ اس شہر کے نام بھی بدلتے رہے ہیں۔سکندر اعظم کے دور میں اس شہر کا نام پٹالہ تھا جس کی وجہ شہرت پٹالہ بندرگاہ تھی۔یہاں دریائے سندھ ڈیلٹا بناتے ہوئے بحیرہ عرب میں جاگرتا ہے ۔
یہی شہر سلطان محمد شاہ تغلق کے دور میں بھی آباد تھا مگر سندھی مؤرخوں کے بقول اس شہر کی باقاعدہ بنیاد سلطان جام نظام الدین نندا نے رکھی لیکن اگر ایشیا کی تاریخ دیکھی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جام نظام الدین نے پہلے سے آباد اس شہر کی  جدید سطحوں پہ دوبارہ آباد کاری کی۔اوائل میں یہ شہر مکلی کی پہاڑی کے نیچے آباد ہونے کی وجہ سے تہہ تہہ کہلاتا تھا جو گزرتے وقت کے بدلتے لب و لہجے کے ساتھ ٹھہ ٹھہ سے ہوتا ہوا ٹھٹہ ہوا اور آج اردو میں ٹھٹھہ اور سندھی میں ٹھٹھو / ثثو کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ٹھٹھہ شہر پہ پہلا عروج تب آیا جب سمہ خاندان نے اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔یہ وہی سمہ خاندان ہے جس نے برہمن راجہ داہر کی جنگ و دشمنی میں محمد بن قاسم کا ساتھ دیا تھا۔بعد ازاں سترہویںسمہ حاکم سلطان جام نظام الدین دوم عرف جام نندو نے اپنا مرکز دیبل سے ٹھٹھہ منتقل کر لیا۔مکلی قبرستان میں سب سے پہلا مقبرہ اسی سلطان کا ہے جو آج بھی منفرد فن تعمیر کا شاہکار ہے۔سمہ خاندان کے علاوہ اس شہر پہ سومروں، ارغون، ترخان اور مغلوں نے بھی حکومت کی ہے۔صدیوں کے اس سفر میں اس شہر نے بہت سے عروج وزوال دیکھے ہیں بلکہ اپنے وجود پہ سہے ہیں۔مغلیہ دور حکومت ٹھٹھہ کے عروج کا دور تھا۔تب یہ شہر ترقی یافتہ اور متحرک و مرکزی شہر مانا جاتا تھا۔برسوں پہلے ٹھٹھہ اپنی کیٹی بندر، شاہ بندر اور دیبل بندر گاہ جیسی بڑی بندرگاہوں کے سبب کاروباری مرکز کے طور جانا جاتا تھا۔یورپ اور ایشیا کے ممالک کا تمام کاروبار یہیں سے ہوتا تھا۔لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور انگریز سرکار نے کراچی میں بندرگاہوں کا جال بچھانا شروع کر دیا اور ٹھٹھہ کی بندرگاہیں آہستہ آہستہ ویران ہوتی چلی گئیں۔ ہر عروج کو زوال ہے اور پھر جب مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہوا تو اپنے ساتھ اس شہر کی رونقیں بھی لے ڈوبا۔برطانوی راج کا سورج طلوع ہوا تو اس کی شعائیں ٹھٹھہ کی نسبت کراچی پہ زیادہ روشن ہوئیں جس سے ٹھٹھہ کے اجالے اندھیروں کے مسافر ہونے لگے۔وہ شہر جو کبھی سندھ کا مرکز ہوا کرتا تھا کراچی کی ابھرتی حیثیت میں گم ہونے لگا۔انگریز سرکار نے کراچی کو سندھ کا نیا دارالحکومت بنایا اور کراچی میں جدید بندرگاہ کا قیام عمل میں لایا جس سے ٹھٹھہ مکمل طور پر ماضی کی دھند میں  چھپ گیا۔
شہر قائد سے کلومیٹرز کی سینچری پہ واقع اس شہر بے مثال کی کسی زمانے میں مثالیں دی جاتی تھیں۔وقت کی دھول کے اس پار کبھی اس شہر کو باب الاسلام بھی کہا جاتا تھا۔ یہیں سے ایشیا میں اسلام کی روشنی پھیلی تھی اور ایشیا کی سب سے پہلی مسجد بھی یہیں ہے۔ایک وقت تھا جب ٹھٹھہ کو علم و فن کا مرکز کہا جاتا تھا۔یہاں سیکڑوں درسگاہیں آباد تھیں۔ بلکہ مؤرخوں کے مطابق اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں سندھ کی سیاحت پہ آنے والے ایک انگریز سیاح نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ٹھٹھہ میں کم و بیش چار سو ایسے مدارس دیکھے جن میں دین و دنیا کے تمام علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہاں اندازاً بارہ سو مدرسے اور چار سو یونیورسٹیاں قائم تھیں جہاں دنیا بھر سے علم کے متلاشی اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔


ٹھٹھہ اسلامی فن تعمیر کی تاریخی وراثت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج بھی اس کی اجڑی عمارتیں اپنی سندھی، ہندو اور راجھستانی فن تعمیر کا شاہکار ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔یہاں کی قدیم عمارتوں پر لکڑی کا کام آج بھی دیدہ زیب ہے اور دیکھنے والوں کو مسحور کرتا ہے۔ٹھٹھہ کی اجڑی عمارتیں اور کھنڈرات اس کے شاندار ماضی کے گواہ ہیں۔ 


شاہ یقیق، عبداللہ شاہ اصحاب، شاہ گور کنج، شاہ مراد شاہ شیرازی، محمد ہشام ٹھٹھوری، پیر پاتھو، جمیل شاہ داتار، شیخ حالی، حاجی اللہ ڈنو میندھرو، صوفی شاہ عنایت، شاہ پریوں ستیوں اور مفتی فتح علی جتوئی سمیت کئی مشہور و معروف عالم دین یہاں پیدا ہوئے اور آج بھی اس کی مٹی میں آسود خاک ہیں۔
چودھویں صدی عیسوی اس شہر کے لیے خوش بختی اور زمانے میں عروج کی صدی تھی۔تب یہ شہر نہ صرف اسلامی فنون کا مرکز مانا جاتا تھا بلکہ پچانوے سال تک سندھ کا دارالحکومت بھی رہا۔مغلیہ دور اس شہر کے اوج میں بے پناہ اہمیت کا حامل رہا۔ پھر سنہ  1739کی جنگِ کرنال میں یہ شہر ایران کے بادشاہ نادر شاہ کے زیرِ تسلط آیا اور نظر انداز ہوتے ہوتے ماضی کی دھند میں کھو سا گیا۔چودھویں سے سترہویں صدی کے درمیان اس شہر نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔اس دور کی بہت سی تاریخی عمارتیں آج اپنی بے توقیری پہ نوحہ کناں ہیں۔یہاں کی کھدائی کے دوران قدیم نوادرات دریافت ہوئے ہیں۔ آج اس شہر کے بیشتر قدیم مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔
کبھی یہ شہر اتنا سر سبز و حسین ہوتا تھا کہ امیر خسرو جیسے بلند پایہ شاعر اپنی شاعری میں محبوب کو ٹھٹھہ کے پھولوں سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔حیدرآباد دکن کے ایک شاعر عثمان اس شہر بے مثال کے بارے کہتے تھے کہ:
ننگر ٹھٹھہ ہیرے جیسا شہر خوبصورت شہر ہے،اس میں دھان کی سبز فصلیں ہیں،اس میں کشادہ باغ، ہرن اور خوبصورت جنگل ہیں۔
 ہم تپتی دھوپ میں کھڑے اس اجڑے ہوئے ٹھٹھہ کے کھنڈرات پہ نوحہ کناں تھے کبھی جس کے باغات مشہور تھے جس کے انار اور کھجور اپنے منفرد رنگ اور شیرینی کے سبب اپنی پہچان آپ تھے۔ہمارے سامنے باغات تو درکنار آگ برساتے سورج سے چند لمحے عافیت دینے کو کوئی درخت تک نہ تھا ۔جہاں ہر وقت سیکڑوں مدرسوں میں علم و فن کے مباحثے ہوا کرتے تھے، اب ان گلیوں میں بے ہنگم ٹریفک کا شور، دکانداروں کی آوازیں اور گاہکوں کا رش رہتا ہے۔
 ٹھٹھہ آج بھی اپنے قدرتی وسائل کی دولت کے سبب شاندار مستقبل کا منتظر ہے۔اگر ذرا سی  توجہ دی جائے تو ٹھٹھہ کا عروج پھر سے واپس لوٹ سکتا ہے۔اس کا فن اور فنکار پھر سے جاگ سکتا ہے،اس کی اجڑی بندرگاہوں پہ پھر سے جہاز لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔
چھ سو سال تک اپنا عروج دیکھنے والے ٹھٹھہ کو زوال کی سیاہ چادر مکمل اوڑھنے میں ڈیڑھ سو سال لگے۔یہ شہر یکلخت عرش سے فرش پر نہیں گرا بلکہ صدیوں کی روشنیوں کو نگلنے میں بھی صدیاں لگی ہیں۔
ٹھٹھہ اسلامی فن تعمیر کی تاریخی وراثت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔آج بھی اس کی اجڑی عمارتیں اپنی سندھی، ہندو اور راجھستانی فن تعمیر کا شاہکار ہونے کی گواہی دیتی ہیں۔یہاں کی قدیم عمارتوں پر لکڑی کا کام آج بھی دیدہ زیب ہے اور دیکھنے والوں کو مسحور کرتا ہے۔ٹھٹھہ کی اجڑی عمارتیں اور کھنڈرات اس کے شاندار ماضی کے گواہ ہیں۔ ||


مضمون نگار کی حال ہی میں ٹلہ جوگیاں پہ تاریخ و تصوف کے حسین امتزاج پہ مبنی جوگی، جوگ اور ٹلہ نامی کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس سے قبل ان کی تین کتب دیوسائی ، وطن، فرض اور محبت اور  کوسٹل ہائی وے پہ ہوا کا دروازہ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
[email protected]

 

یہ تحریر 93مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP