متفرقات

قلعہ ہڑند 

کوہِ سلیمان کے پھیلتے ہوئے سائے گورچانی قبیلے کی بستیوں کو ڈھانپتے جاتے تھے۔راجن پور سے تقریباً بہتر(72) کلومیٹر دور مغرب کی جانب قلعہ ہری نند موجود ہے جِسے اب قلعہ ہڑند بھی کہا جاتا ہے۔جس کی پُشت پر تہذیبی رشتوں کی پوری لڑی نظر آتی ہے۔خشک پربتوں کے کِنارے آباد اِس قلعہ کے ایک طرف ہزاروں سال پرانی مہر گڑھ کی تہذیب اور دوسری طرف ہزاروں سال قدیم موہنجو دڑو کے کھنڈرات اپنی تاریخی شان و شوکت کے ساتھ مخدوش حالت میں موجود ہیں اور اس قلعہ سے اپنے تاریخی تعلقات کا راستہ دکھاتے ہیں۔


قلعہ ہری نند کے بدن پر سنگ وخشت کا لباس اُدھڑ کر کسی فقیر کے جُبہ کی مانند پھٹ چکا تھا۔ اس کے معمار اپنے ہی ہاتھوں کو کوستے ہوں گے کہ ان کا تعمیر کردہ شہکار کتنے ہی بے رحم ہاتھوں سے بار بار ملیا میٹ ہوا۔کتنے شہسوار اس قلعہ کی فصیل کے سائے میں کچھ دیر کو سستائے اور اگلے پڑائو کی جانب بڑھے۔کتنے جنگجوؤں نے اس شہکار عمارت کے مکینوں پر اپنی تیغ کے جوہر دِکھائے ۔ کبھی یہ قلعہ بھگوان اور خدا کے معبدوں میں گِھرا رہا تو کبھی آتش پرستوں اور ملحدوں کے بیچ میدانِ جنگ بنارہا۔ مگر اب یہ حنوط شدہ نعش کی مانند ساکت و بے جان ہے۔تمام سمتوں کی توانائی کے رنگ ماند پڑ چکے ہیں۔اُن معماروں کی ہنر مندی کا روغن اُتر چکا ہے۔اس عمارت کے کُھلے زخموں پر ہر گزرتا لمحہ نمک پاشی کرتا جاتا ہے۔اس کی پیشانی سے سندور مِٹ چکا ہے۔اس کی دیواریں بھی لہو رو رو کر اندھی ہو گئیں۔اس کی چھتیں سر پِیٹ پِیٹ کر بے آسمان ہو گئیں۔اس کی راہداریاں اپاہج ہو چکیں۔اس کی سیڑھیاں اُکتاہٹ کا کفن پہنے کب کی سو چکی ہیں۔اس کے اصطبل کی کُھرلیاں نحیف گھوڑوں کی طرح دم توڑنے پر آمادہ ہیں ۔اس کا مرکزی دروازہ زمیں بوس ہونے سے پہلے آخری مرتبہ اُن پہلے ہاتھوں کو ملامت کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی۔وقت بے رحم بیڑیاں پہنائے اس عمارت کو مسماری کے برزخ کی طرف دھکیل رہا تھا  کہ ہماری نگاہیں اس قیدی کی نگاہوں سے ٹکرائیں تو اس کا پورا وجود درد کے کسی چشمے کی مانند اُبل پڑا اور عہد رفتہ کی داستان سنانے لگا۔
کوہِ سلیمان کے پھیلتے ہوئے سائے گورچانی قبیلے کی بستیوں کو ڈھانپتے جاتے تھے۔راجن پور سے تقریباً بہتر(72) کلومیٹر دور مغرب کی جانب قلعہ ہری نند موجود ہے جِسے اب قلعہ ہڑند بھی کہا جاتا ہے۔جس کی پُشت پر تہذیبی رشتوں کی پوری لڑی نظر آتی ہے۔خشک پربتوں کے کِنارے آباد اِس قلعہ کے ایک طرف ہزاروں سال پرانی مہر گڑھ کی تہذیب اور دوسری طرف ہزاروں سال قدیم موہنجو دڑو کے کھنڈرات اپنی تاریخی شان و شوکت کے ساتھ مخدوش حالت میں موجود ہیں اور اس قلعہ سے اپنے تاریخی تعلقات کا راستہ دکھاتے ہیں۔داجل کا اڈہ قبائلی ثقافت کا مظہر ہے۔مردوں کی کثیر تعداد اپنی قدیم روایات کے ساتھ چوراہوں پر دِکھائی دیتی ہے۔گلہ بان اپنے ریوڑ چراتے ہیں اور اونٹوں کی قطاروں کے آگے ساربان گیت گاتا چلا جاتا ہے۔دور تک انسانی آبادی کے اثرات نظر نہیں آتے۔مستورات ٹوپی والے روایتی برقعے پہن کر بازاروں میں نکلتی ہیںاور بچے کھیل کود میں مگن ہیں۔کہیں کہیں مکئی کی گود چھلیوں سے بھر چکی تھی اور کماد کی فصلوں میں دس دس منزلہ مٹھاس پوروں میں بھری جا چکی تھی۔اسی قلعہ کے اندر کبھی کنیزیں اپنے حُسن کی مشعلیں روشن کرتیں مئے کشی کے دور میں عیش و طرب کا بازار گرم ہوتا اور مہکتے رنگوں کے لبادے اُڑتے۔مگر اب مکڑے جلالِ شاہی کے در و دیوار پر مرثیوں کے جال بُن چکے ہیں۔
تاریخ کے نامور قبائل اور جنگجوؤں نے پنجاب کا رُخ کیا۔کبھی آریہ اور وید اس دھرتی پراُترے۔پھر ایرانی اور یونانی اپنی سلطنت کو بڑھانے کے لیے آئے۔اگرچہ دنیا کی قدیم تاریخ میں بھی سلطنتِ بنی اسرائیل ہو یا فینقیہ کے باشندوں کی داستانیں ہوں، اقتدار کے لیے لڑائی انسانی لالچ کا ازلی محور ہے۔جب بھی کسی کے پاس طاقت آتی ہے وہ مزید طاقت کے لیے اپنا اقتدار بڑھاتا ہے۔اس قلعہ ہڑند کی بدقسمتی ہے کہ یہ اُس جگہ تعمیر ہوا جو بیرونی حملہ آوروں کی رہ گزر تھی۔اسی لیے جو بھی یہاں سے گزرااس قلعے کو فتح کرنا اپنا بنیادی ہدف سمجھا۔پھر جیسے ہی لڑائی شروع ہوتی عوام کُچلی جاتی۔اُن کے گھروں پر حملے ہوتے،فصلیں تباہ ہوتیں،مجبور و مقہور لوگ نیم پاگل ہو جاتے۔مگر ان مسلط کردہ جنگوں کے باوجود یہاں زندگی رواں دواں رہی۔
ہر بیس برس بعد اس قلعے نے انسانی خون کی قربانی مانگی ۔جس طرح یونان میں بیل کی قربانی کو مقدس سمجھا جاتا تھا جب وہ اناج کھلیانوں سے گھروں کو لاتے تھے۔اِس تہوار کو وہ لوگ بوفونیا کہتے تھے۔یہ قلعہ بھی بوفونیا جیسے تہوار کو کچھ عرصہ بعد منانے کی ضِد کرتااور اس ضِد کو پورا کرنے کے لیے تاریخ کے مہان یودھا اور جنگجو آجاتے اور انسانی لہو سے اس کی پیاس بجھاتے۔
اس علاقے کا سرحدی تعلق تو پنجاب سے بنتا ہے۔ مگر جغرافیائی اور تاریخی تعلق سورمائوں کی سرزمین سے ہے۔یونانی، ایرانی اور عرب فاتحین نے اس قلعہ کو فتح کرنے کے خواب دیکھے اور کشت و خون کے بعد فتح بھی کِیا۔راجہ ہری نند یا ہرناکوس جو ایک ہندو راجہ تھا، اس نے اپنے پِسرِ اوّل کے ساتھ مل کر اسے تعمیر کروایا۔یہ قلعہ موہنجودڑو انداز میں چھوٹی مربع اینٹ سے تعمیر کیا گیا جو وسیع رقبے پر مربع شکل میں سولہ مسدس برجوں اور شرقاً غرباً  دو دروازوں پر مشتمل ہے۔اس قلعہ کے اندر افقی اور نشیبی راہداریاں بھی ہیں جو خفیہ سرنگوں سے ملحقہ غاروں کے اندر کْھلتی ہیں۔ارد گرد چٹیل میدان تھا مگر آجکل کھجوروں کے باغات نظر آتے ہیں اور سرسبز کیکروں کے پھولوں کی بہتات ہے۔ محمد بن قاسم کی یلغار کے سامنے یہ قلعہ اور اس کے مکین مزاحمت کے باوجود تنکا ثابت ہوئے۔اس قلعہ پر سکندر اعظم سے لے کر محمد بن قاسم، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی تک سب حکمرانوں نے اپنا اپنا قبضہ جمائے رکھا۔
''سکندر نامہ'' کتاب جو کہ سکندر اعظم کی داستانیں سناتی ہے، اس میں دارا یوش کی ایک بیٹی سے الیگزنڈر کی شادی کی بابت لکھا گیا ہے جو اسی قلعہ میں ہوئی تھی۔سکندرِ اعظم ہندوستان کے کچھ علاقے فتح کرنے کے بعد واپسی پر ڈیرہ غازی خان رُکا اور اسی قلعہ ہڑند میں کچھ روز قیام کیا۔



احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں یہ دو علاقے ہڑند اور داجل خان آف قلات نصیر خان کو بطور تحفہ دیے جس کے بعد راجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے پھر اس پر حملہ کرکے اپنے قبضے میں لے لیا۔رنجیت سنگھ نے اٹھارہ سو بیس میں ڈیرہ غازی خان پر حملہ کیا۔اس وقت زمان خان ناظم تھا۔جو شاہ شجاع الملک کی جانب سے مامور تھا۔شدید لڑائی کے بعد سکھوں نے قبضہ کر لیا۔
اس کی تزئین و آرائش کا کام سکھوں کے دور میں شروع ہوا۔مگر مقامی قبیلہ گورچانی کی مزاحمت پر کچھ برس تعطل آیا مگر سکھا شاہی میں ہی اس کی مرمت مکمل ہوئی۔اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں پھر سے اس کو سکھوں سے واپس چھین کر خون میں نہلایا دیا گیا۔ اس کے بعد وقت نے اس بوڑھے قلعہ کی ہڈیوں سے رعنائی کا رس نچوڑ لیا۔ہر بیس، تیس برس بعد شیطان، گھوڑوں پر آگ برساتے مہم جُو لاتا اور اس کے گرد و نواح میں خشک سالی کا نیا دور شروع ہو جاتا۔لُٹیرے طاقت کے بچھو اور سانپ اِن مکینوں پر چھوڑتے اور اُن کی مٹی کو زہر آلود کر جاتے۔
احمد خالد ایک متجسس انسان ہے  جسے نئی جگہیں دریافت کر کے روحانی سکون ملتا ہے۔وہ مختلف اقوام کی داستانوں سے لمحہ ء موجود کے ساتھ مماثلت ڈھونڈ لیتا ہے۔وہ اپنی نظموں میں جذبوں کو مرکزیت دیتا ہے۔وہ اپنی دُنیا کا مہا گُرو ہے اور ہم اُن کی محفل میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ثمینہ تبسم ایک صوفی روح ہے جِسے قدیم راہداریوں میں اُگے بزرگ درختوں کی دعائیں لینی ہیں۔وہ خوابوں کی تعبیر کا علم بھی جانتی ہیں۔وہ مغرب میں مشرق کی نمائندگی کرتی ہیں۔ہم تینوں اس بیابان میں انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں اور انسان دیکھ کر حیرت زدہ تھے۔جسم کی جیل میں قید ہم تینوں تاریخ کے قبرستان کی جانب بڑھ رہے تھے۔فصیل کی ہیبت کا فسوں ہمارے بدن کی دیواروں میں جُڑے مسالے اور خون میں سرائیت کر چکا تھا۔ہم نے اتنی اونچی آواز میں کُرلاٹ ماری کہ آواز کے اثر سے قلعہ کے اندرونی اور بیرونی مضمرات اُبھر کر سامنے آ گئے۔جلوس گاہ میں اژدھے اور بے چین روحوں کا ایک ہجوم نظر آتا ہے اور ہم خوف کے مارے یہ قلعہ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
تھکے سورج کی بوجھل شعاعوں تلے بھربھری اینٹوں اور زمیں بوس گنبدوں کی منوں مٹی کے اوپر ہم نے مٹتے ہوئے نقوش کو مرکزی اور ضمنی توجہ سے دیکھا۔یہ قوموں کا برباد ہوا گمنام جزیرہ ہے جسے کھود کر از سرِ نو  برآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ایسا ہی ایک شہر پومپیائی بھی تھا۔جو دو ہزار سال قبل اٹلی کے ایک صوبائی شہر میں آتش فشاں پھٹنے سے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔وہ شہر ایسا مٹی میں دفن ہوا کہ دنیا نے معدوم سمجھ کراُسے بھلا دیا۔مگر سیکڑوں سالوں کے بعد جب اس کی کھدائی ہوئی تو پورا شہر پومپیائی برآمد ہو گیا تھا۔اس ظالم وقت کے تندور میں ہر لکڑی جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔طاقتور بے جان ہو جاتے ہیں۔سرسوتی کی سرزمین دشت سے بھر جاتی ہے اور سات دریائوں کا خطہ ریگ زاروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ایک ایسا ڈھانچہ جِسے کبھی تجارت اور ترقی میں فوقیت تھی آج نیست و نابود ہوگیا۔ کوئوں اور چڑیوں نے آسمان اپنے تئیں سر پر اُٹھایا ہوا تھا اور آس پاس لگے بوٹے ،جھاڑیاں اور گھاس یہاں پھیلی ہوئی کہانیوں کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔


مضموں نگار شاعر، سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]


 

یہ تحریر 61مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP