متفرقات

عبدالاعلیٰ فاضلی کی حراست اور کشمیر ی پنڈت ! 

17 اپریل 2022 کو بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی نے مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والے ''عبدالاعلیٰ فاضلی '' کو گرفتار کر لیا۔ یہ نوجوان کشمیر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے اور اس کا گناہ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حق یعنی بھارتی تسلط سے آزادی کے حق میں آواز اٹھانا ٹھہرا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ 11سال قبل یعنی 6 نومبر 2011 کو مقبوضہ وادی کے ماہانہ ڈیجیٹل میگزین '' دی کشمیر ولا '' (The Kashmir Walla)  میں"The Shackles of Slavery will break" (غلامی کی یہ زنجیریں کبھی تو ٹوٹیں گی'' )کے عنوان سے ان کی ایک تحریر شائع ہوئی جس میں انھوں نے بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں کی ریاستی دہشتگردی پر کھل کر تنقید کی، ان کی اس تحریر کی چند سطور یہاں شامل کرنا بے جا نہ ہو گا۔ 
''کشمیر کے عوام بھارتی قبضے سے آزادی چاہتے ہیں۔ کشمیر میں 1947 میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کو بھولا نہیں جائے گا۔ ہم 1965 سے 1989 کے مابین ہونے والی ہزاروں شہادتوں کو بھی فراموش نہیں کرینگے۔ 1989 سے 2010 تک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں 1 لاکھ کشمیریوں کی شہادت کو بھی یاد رکھیں گے کیونکہ ہماری آزادی کے خواب کو کبھی قتل نہیں کیا جا سکتا۔ کشمیر میں بھارتی افواج کا مورال بتدریج ٹوٹ رہا ہے۔ کشمیر بھارتی کا ''اٹوٹ انگ'' ہونے کی بات پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا کیونکہ تمام کشمیری ذات پات برادریوں سے بالاتر ہو کر جموں و کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہم بالآخر آزادی حاصل کر لیں گے''
بھارتی میڈیا نے اس حریت پسند کی تحریر کی آڑ میں یہ تاثر پیدا کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے کہ بھارت بھر میں موجود کشمیری طالب علموں کی سکالر شپس اور ڈگریاں فی الفور منسوخ کر دینی چاہئیں کیونکہ ان کے دل میں آزادی کی تمنا ہے اور بھارتی سرکار کی جانب سے انھیں کوئی سہولت مہیا نہیں کی جانی چاہیے۔ آزادی کے حق میں آواز اٹھانے پر فاضلی کو دہشتگردوں تک سے تشبیہ دی جا رہی ہے اور پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف بھی اس ضمن میں بے بنیاد پراپیگنڈہ جاری ہے۔ یاد رہے کہ عبدالاعلیٰ فاضلی یونیورسٹی گرانٹس کمیشن آف انڈیا یعنی یو جی سی کی مولانا آزاد فیلو شپ کے تحت کشمیر یونیورسٹی سے فارماسیوٹیکل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے ۔ اس واقعے کے بعد سے کشمیر سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کے خلاف بھارتی ذرائع ابلاغ میں طوفان برپا ہے اور انھیں بھارتی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ گذشتہ برس پاکستان اور بھارت کے مابین ٹی ٹونٹی میچ میں پاکستان کی فتح پر خوشی منانے والے تین کشمیری طالب علموں کو حراست میں لے کر جیلوں میں ڈال دیا جن کی کچھ روز قبل آگرہ ہائیکورٹ نے کڑی شرائط اور دو لاکھ روپے جرمانے کے عوض ضمانت منظور کی حالانکہ ان طلباء کے والدین اس قدر تنگ دست ہیں کہ انھیں چندے کی صورت میں پیسے اکٹھے کر کے یہ جرمانہ جمع کرانا پڑا۔ 
ایک جانب بھارت کشمیری مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا تو دوسری طرف 11 مارچ 2022 کو ریلیز ہونے والی فلم' کشمیر فائلز' اس وقت بھارت میں سب سے بڑا معاملہ بنی ہوئی ہے، جان بوجھ کر سرکاری سطح پر اس کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ 170 منٹ طویل اس فلم نے پانچ بھارتی ریاستوں اتر پردیش، اترا کھنڈ، منی پور، پنجاب اور گوا میں ہونے والے انتخابات تک کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ فلم بھی اسی ہائبرڈ وارفیئر کا حصہ ہے جس کے تحت ہندو برادری میں مجموعی طور پر بھارتی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جذبات میں شدت لائی جا رہی ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے اس فلم کی کہانی، اس کے کرداروں اور اس کی لانچنگ پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ 
سب سے پہلے تو یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ کشمیری پنڈتوں کیساتھ ہوا کیا؟ 30 جنوری 1990 کو کشمیری حریت قیادت کے زیر اہتمام سرینگر کے لال چوک پر بڑے عوامی اجتماع کی کال دی گئی۔ بھارتیہ خفیہ ایجنسیوں کی اطلاعات کے مطابق ،حالات کو دیکھتے ہوئے اس اجتماع میں لاکھوں افراد کی شرکت متوقع تھی اور یہ تاثر بہت پختہ ہو گیا کہ اس میں عوام بھارت سے کشمیر کی مکمل آزادی کا اعلان کر دیں گے ۔ بھارت کسی قیمت پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا تھا اسی وجہ سے 19 جنوری 1990 کو جگ موہن ملہوترا کو دوسری بار مقبوضہ ریاست کا گورنر بنا کر بھیجا گیا جس کو بھارتی حکومت کی جانب سے مکمل اختیار دیا گیا کہ ہر قیمت پر نہ صرف مذکورہ اجتماع کا انعقاد روکیں بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو بھی کچلیں ، واضح رہے کہ جگ موہن نے اس بات کا اعتراف اپنی خود نوشت سوانح عمری'' مائی فروزن ٹربیولنس ان کشمیر'' میں کیا جو 1991 میں شائع ہوئی۔ 
اس ضمن میں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ 1989 میں دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے ٹوٹنے سے عالمی سطح پر یہ تاثر پختہ ہوا کہ اگر سوویت یونین جیسی عالمی طاقت ٹوٹ سکتی ہے ، دیوار برلن کا انہدام ممکن ہے اور قزاقستان ، کرغزستان، تاجکستان ، ترکمانستان، ازبکستان، آذر بائیجان اور آرمینیا سمیت دس سے زیادہ نئی ریاستیں وجود میں آ سکتی ہیں تو کشمیر کی آزادی کیوں ممکن نہیں؟  اسی تاثر کے پیش نظر کشمیر کی تحریک آزادی نئے موڑ میں داخل ہوئی اوراس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جگ موہن نے نہ صرف اس عوامی اجتماع کو ہونے سے روکا بلکہ منصوبہ بندی کے تحت کشمیری پنڈتوں کے استحصال کا وہ قضیہ گھڑا گیا جس سے نہ صرف تحریک آزاد ی کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا بلکہ بھارتی مسلمان آج تک اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جگ موہن کو محض چند ماہ بعد یعنی 26 مئی 1990 کو عہدے سے ہٹانا پڑا کیونکہ انھوں نے 128 دنوں میں ریاستی دہشتگردی کا وہ بازار گرم کیا جس کی بازگشت عالمی سطح پر بھی سنائی دینے لگی اور دہلی سرکار کے پاس انھیں ہٹانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ 
تقریباً تین گھنٹے طویل '' کشمیر فائلز'' نامی یہ فلم 1990 میں بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کشمیری پنڈتوں پر ہوئے مبینہ مظالم کے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم میں ''کشمیری پنڈت '' کا کردار نامور ادارکار انوپم کھیر نے ادا کیا جو درحقیقت خود کشمیری برہمن ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اپنے انتہا پسند بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں۔ ان کی اہلیہ کرن کھیر چندی گڑھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر لوک سبھا کی رکن ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی وقت میں بالی وڈ انڈسٹری دنیا بھر میں ''بھارتی سافٹ امیج'' اجاگر کرنے کے باعث پہچانی جاتی تھی مگر اب مسلم دشمنی کے زہر نے اس شعبہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مسلمانوں و دیگر اقلیتوں کے خلاف بیانات دینا بالی وڈ میں چلن کی صورت اختیار کر چکا ہے اور جو اداکار جتنا زیادہ ہندو نیشنل ازم کا ثبوت دیتا ہے، اسے ہندو تنظیموں کی جانب سے اتنا ہی فروغ دیا جاتا ہے ۔ انوپم کھیر کے علاوہ فلم میں متھن چکروری بھی شامل ہیں جو اپنی زندگی کے اوائل میں نکسل تحریک سے جڑے رہے، 2014 میں ممتا بینرجی نے ترنمول کانگرس کے ٹکٹ پر انھیں راجیہ سبھا کا رکن بنایا مگر گذشتہ برس 2021 میں مغربی بنگال کے ریاستی انتخابات میں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا مرکزی چہرہ بن گئے ، انھوں نے اپنی پارٹی کے نظریات کے تحت خود کو ہندو نیشنل ازم کے رنگ میں ڈھال لیا اور وقتاً فوقتاً ممتا بینرجی پر مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے پر تنقید کرتے رہے۔ بہر حال یہ تو بات تھی فلم کی کاسٹ کی، اب اس کے محرکات اور پوشیدہ عوامل پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ جس کے ذریعے بھارت عالمی سطح پر کسی طرح مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو ''دہشتگردی'' سے تعبیر کرنے کی سعی میں مصروف ہے۔ 
ہندی زبان میں بننے والی اس فلم کو متعدد ریاستوں میں ٹیکس فری قرار دیا گیا اور مودی سرکار ہندوئوں پر زور دے رہی ہے کہ وہ ہر حال میں اسے ضرور دیکھیں۔ سرکاری ملازمین کو آفر دی جا رہی ہے کہ اگر وہ فلم دیکھیں تو انھیں خصوصی تعطیل فراہم کی جائے گی ۔ سوشل میڈیا پر بھی کشمیر فائلز کی پروموشن جاری ہے مگر اس کے نتیجے میں ہندوئوں میں مجموعی طور پر بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بھرمار ہے جن میں مسلمانوں کے خلاف سرعام نفرت انگیز تقاریر کی جا رہی ہیں، تمام ہندوئوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہبھارت میں دیگر مذاہب کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ان کا قتل عام اور بائیکاٹ ضروری ہے۔ اس منظم مہم کے نتیجے میں مسلمانوں کوبھارت کے لیے عفریت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ فلم میں محض مسلمانوں پر ہی نشانہ نہیں سادھا گیا بلکہ کشمیری پنڈتوں پر ہونے والے مظالم کے لیے کانگرس سرکار کو بھی براہ راست طور پر ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ 
یہ بات بہرکیف کسی حد تک خوش آئند ہے کہ خود بھارت میںبعض اعتدال پسند حلقوں، گو وہ مٹھی بھر ہیں، کی جانب سے اس فلم کی تخلیق اور اس کے مقاصد پر تنقید جاری ہے۔ یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ کہانی میں '' درست حقائق'' پہلی ترجیح نہیں تھی نہ ہی اسے بنانے کا مقصد کشمیری پنڈتوں کے لیے انصاف یا ہمدردی کا حصول ہے ۔ اسے بنانے کا واحد مقصد بھارتی مسلمانوں اور آر ایس ایس کی مخالف جماعتوں کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرنا ہے۔ کشمیر فائلز میں مسلمانوں کو شیطانی روپ میں پیش کیا گیا اور یہ بھی دکھانے کی کوشش کی گئی کہ مسلم مرد ہندو عورتوں کو لبھا کر انھیں ہندو ازم سے دور کر رہے ہیں۔ یہ دکھانے کا مقصد آر ایس ایس کی مہم '' لو جہاد'' کے نظریات کو فروغ دینا تھا۔ 
مبصرین کے مطابق وادی کشمیر کو بجا طور پر زمین پر جنت قرار دیا جاتا ہے مگر ایک طویل عرصے خصوصاً 5 اگست 2019 کے بعد سے قابض بھارتی فوج نے اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے اور یوں یہ خطہ '' سلگتی جنت '' بن کر رہ گیا ہے۔ بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ فلم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی ہے اور اس کے ذریعے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی گئی مگر اعتدال پسند حلقوں کی جانب سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا ماضی کے محض اسی واقعے پر نگاہ ڈالنا ضروری تھا ؟ کیا بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی اس سے بڑی اور المناک کوئی مثال نہیں ہے؟یہاں ضروری ہے کہ اس تناظر میں نیلی قتل عام، کنان پوشپورہ، چٹی سنگھ پورہ، گجرات ، دہلی فسادات اور کشمیری پنڈتوں کے مبینہ استحصال پر ایک کیس سٹڈی کے طور پر نگاہ ڈالی جائے۔ 
مقبوضہ وادی میں بھارتی درندگیوں کا تذکرہ کرتے کنان پوشپورہ واقعے پر نگاہ نہ ڈالی جائے تو یہ غالباً کسی طور مناسب نہیں ہو گا۔ رواں برس 23 فروری کو ''کنان پوشپورہ سانحہ'' کے 31سال پورے ہو چکے ہیں، ''کنان'' اور ''پوشپورہ'' کپواڑا ضلع میں واقع دو جڑواں گائوں ہیں۔31 برس قبل 1991 کی 23 فروری کو اس وقت انسانیت شرمندہ ہو گئی جب بھارتی قابض فوجیوں نے کریک ڈائون اور تلاشی کے نام پر ان گائوں میں قیامت برپا کر دی اور ''ہیومن رائٹس واچ'' کے مطابق 100 سے 150 کے درمیان خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کی گئی اور یہ مکروہ سلسلہ رات بھر جاری رہا ۔ 80 برس سے لے کر 13 برس کی بچیوں تک کو اس سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ایسا سانحہ ہے جس پر افسوس ظاہر کرنے کے لیے الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیںمگر انسانی حقوق کے ادارے اس تمام صورتحال پر تاحال خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب بھارتی صوبے آسام میں '' نیلی '' کے مقام پر 18 فروری 1983 کو محض چھ گھنٹوں کے اندر 2191 مسلمانوں سے زندہ رہنے کا بنیادی حق چھین لیا گیا تھا ۔ بظاہر یہ ایسی بات ہے کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا مگر ''بھارت '' کی تاریخ ایسے اندونہاک واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ آسام کے 14 دیہات '' علیسنگھا ، کھلا پتھر ، بسُندھری ، بغدُبا بیل ، بورجلا ، بنٹنی ، اِندر ماری ، بغدُبا ہبی ، ملادھاری ، متی پربت ، متی پربت نمبر8 ، سبہتا ، بوربری اور '' نیلی '' میں اس وقت قیامت بپا ہو گئی جب صبح کے تقریباً 9 بجے آر ایس ایس نے اچانک مسلمان اکثریتی علاقوں پر دھاوا بول دیا اور چند گھنٹوں کے اندر  ان علاقوں کے تمام مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ انڈین ایکسپریس کے '' ہمندر نارائن '' ، آسام ٹربیون کے '' بیدبراتا لاہکر '' اور اے بی سی نیوز کے '' اجے شرما'' اس نسل کشی کے عینی شاہد تھے اور انھوں نے اپنے اخبارات میں اس معاملے کی پوری تفصیلات بیان کیں ۔کہاجاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ اپنی نوعیت کی سب سے بھیانک نسل کشی تھی ۔ 
اس کے علاوہ مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی پراسرار گمشدگیوں کا گھنائونا سلسلہ بھی تسلسل سے جاری ہے اور ان گمشدہ افراد کے اہل ِخانہ عجب اذیت میں مبتلا ہیں کیونکہ ان بد قسمت خواتین کو بیوائوں میں شمار کیا جا سکتا ہے نہ ہی کسی دوسرے زمرے میں۔ مودی سرکار ان '' نصف بیوائوں'' کی حالت زار پر کوئی فلم کیوں نہیں بناتی؟ بہرکیف حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس ضمن میں عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ کشمیری پنڈتوں کے استحصال اور اس کے ساتھ ساتھ پورے بھارت میں بسنے والے مسلمانوں و دیگر اقلیتوںکی حالت زار کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو اس ضمن میں زمینی حقائق کی شفاف دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ دنیا حقیقت اور پراپیگنڈے کے مابین فرق کر سکے۔ ||


[email protected] 

یہ تحریر 438مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP