شیر دریائے سندھ گارتنگ ندی کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔پاکیزگی کے سوتے پانیوں کی روانی سے پھوٹتے ہیں۔لداخ کی سرزمین پر دیوتاؤں کی مجلس لگتی ہے تو سرزمینِ ہند سے پاپی یاتری اپنے گناہوں کی پوٹلی سروں پہ سجائے جھیل مانسرور میں اشنان کرنے چلے آتے ہیں۔شِو جی کی پوجا کرتے ہیں پاپ دُھلتے ہیں۔یاتری رگ وید کے اشلوک پڑھتے ہیں۔ مٹکوں میں اپنے عزیزوں کی راکھ کو پوَترّ پانیوں میں بہاتے ہیںاور سندھو ساگر جھیل مانسرور کی گود ہری کرتے ہوئے کیلاش کی پہاڑی کو عبور کرتا ہے۔خانقاہوں میں چراغِ ولایت جلتے ہیں۔بدھ راہب اور راشی مظاہرِ فطرت کی لطیف فضائوں میں عبادت کرتے ہیں۔کیلاش کی نوکیلی چوٹی سے سورہ رحمان کی آیتوں کی عملی تفسیر کْھلتی ہے اور تبت کے برف زار سفید خیمے روحانیت کی آماجگاہ بنتے ہیں۔خانہ بدوشوں کے ریوڑ فطری نصب شدہ چراگاہوں میں چرتے ہیں۔ ٹھہری ٹھہری آبشاروں کی ابدالی جُنبش سے دودھیا دریائے سندھ کسی مسلم مومن کی مانند تبت کے اس پربت کے سات چکر کاٹتا ہے۔دِلی مراد کا راستہ کُھلتا ہے۔قدرت دریاؤں کی تسبیح کے اس امام کی مکمل نگہداشت کرتی ہے۔کیوں کہ اِس نے آگے چل کرانسانی زندگی کے لیے سہولتوں کے اسباب مہیا کرنے ہیں۔ دریائے سندھ سیب،اخروٹ شاہِ بلوط، شہتوت، خوبانی اور دیگر پھلدار درختوں کو جنم دیتا ہے۔ سیکڑوں چٹانوں کے بیچ مچھلیوں کی فصلوں کو پروان چڑھاتا ہے۔شوخ و شنگ گھاس کے چبوتروں پر مویشی اور ڈنگروں کو خوراک فراہم کرتا ہے اور کڑکتے جاہ و جلال رکھتے گلیشیئرز کو اپنے اندر سمو کر مسطح پربتی سیڑھیاں انسانی زندگی کو فراہم کرتا ہے۔یہ دریائے اباسین ہے یعنی دریاؤں کا باپ اور اس پاکیزہ دریا نے زندگی کا ہر رنگ دیکھ رکھا ہے۔کہیں اس دریا کو وش آتکے اور پخیر راغلے کہا جاتا ہے۔کہیں والیو ماہرہ اور خوش آمدید کہا جاتا ہے۔پھر اٹک کے مقام پر پنجابی اسے جی آیاں نوں کہتے ہیں اور ٹھٹھہ والے اسے پلی کری آیا کہتے ہوئے بحیرہ عرب کے سپرد کر دیتے ہیں۔کچھ محققین کے مطابق"دریائے سندھ جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا دریا جو دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے، اس کی لمبائی 2000 میل یا 3200 کلو میٹر ہے۔ اس کا مجموعی نکاسی آب کا علاقہ 450,000 مربع میل یا 1,165,000 مربع کلو میٹر ہے۔ جس میں سے یہ پہاڑی علاقہ ( قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش) میں 175,000 مربع میل یا 453,000 مربع کلومیٹر بہتا ہے اور باقی پاکستان کے میدانوں میں بہتا ہے۔"
سادھو بیلہ دریائے سندھ کے آخری کنارے پر آباد ایک جنگل تھا۔اس کے بعد دریائے سندھ بحیرہ عرب کے وسیع پانیوں کے سپرد ہو جاتا ہے۔1823ئمیں علی بابا بالچند نیپال سے سکھر کی جانب سفر کرتے ہیں۔وہ فطری مظاہر کے دلدادہ تھے۔وہ ہمیشہ گُرو نانک دیو جی کے بڑے پُتر شری چند کی بانیّ کو پڑھتے اوراُن کی مذہبی سِکھشا کو اپناتے تھے جو فرقہ''اُداسی'' کے معتبر بزرگ مانے جاتے ہیں۔بابا جی نے اپنی اوائل عمری میں ہی ایک الگ دریا کے اندر جزیرے نما پتھریلے چبوترے پر کُٹیا بنا لی تھی۔وہ دیوتائوں کی طاقت پر بھی وشواس رکھتے اور سندھو ماہی کے اِس نہایت قدرتی جزیرے پر وشرام کرتے ہوئے زندگی کا پیشتر حصہ یہاں پر ہی بسر کرتے تھے۔وہ اندھی ڈولفن سے روز و شب گفتگو کرتے۔(اس ڈولفن کو سو سو اور مقامی زبان میں بلھن بھی کہتے ہیں۔ ڈولفن پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔یہ واحد نایاب قسم صرف سندھو دریا میں پائی جاتی ہے جو سادھو بیلے کے آس پاس بھی دیکھی جا سکتی ہے) علی بابا بالچند گرد و نواح سے آنے والے یاتریوں کو تیرتھ استھان میں آنے کی اجازت دیتے اوراُنہیں زندگی کے پاٹ سمجھاتے۔زائرین کے لیے بھنڈار خانہ بنوایا اور اپنے ہاتھوں سے برگد، نیم اور پیپل کے درخت لگائے۔تقریباً چالیس برس تک اس جزیرہ کی حفاظت کی اور اسے انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا۔مہا بھارت میں دریائے سندھ کو دولت مند لکھا گیا تھا اور فارسی ادب میں مہَرا جبکہ عربوں نے اسے مہران کہا۔سکھر میں دریائے سندھ چونے کی بنی چٹانوں کی ایک مِیل سے بھی کم گھاٹی سے گزرتا ہے۔سمندری حشرات کے اجسام سے جس طرح چونے کے پتھر پر سوراخ ہوتے ہیں۔ویسے ہی پتھر سکھر کے آس پاس کناروں پر پڑے ہیں۔چقماق کے ذخیرے معلوم ہوتے ہیں۔
سندھو ساگر کہیں کہیں عمودی کھائیاں پار کرتے کرتے مہا پربتوں کے بیچ مقید ہوجاتا ہے۔اس کا جوش و طلاطم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ہمالیہ اور قراقرم کی ہیبت اِسے چنگھاڑنے پر مجبور کرتی ہے۔دیو ہیکل چوٹیوں کے نیچے یہ جھاگ اُڑا کر اپنی شورش اور توانائیاں گنوا بیٹھتا ہے۔برف کے تودوں کی آمد اسے بیزار کرتی ہے اور تنگ گھاٹیوں کی بندش اسے محدود کرتی جاتی ہے۔کئی گہرے سبز اور مٹیالے پہاڑوں کی غلام گردشوں سے رہائی پاتے ہی ایک بار پھر شدید ولولے سے نکلتا ہے اور بے رحم قدرتی دُنیاؤں کو اپنے سرسبز و شاداب نخلستان کا فیض بکھیرتا ہے۔خوبرو نسائی کمر کے بل اس کی کمر میں پڑتے ہیں اور یہ کئی تہذیبوں کے دروں ، جنگجوؤں کے راکھ ہوتے ریت ومٹی کے ملبوں ،غضبناک برساتی نالوں اور روحانی آبشاروں کو اپنی جھولی میں ڈالتے ہوئے پانچ دریائوں کی رومانی کہانیوں کو اپنے سینے سے لگائے بحیرہ عرب میں جا اُترتا ہے۔مگر ساری ریاضت سادھو بیلہ کے اپنے بیلی بالچند جی کو سونپ جاتا ہے اور خود طویل مسافتوں کا بوجھ لیے پانیوں کے ہمراہ اگلی منزل کی جانب بڑھ جاتا ہے۔
انسان اپنے اَکھڑپن اور تندخوئی سے جب بے قابو ہو جائے تو اُسے سہج میں لانے کے لیے اوتاراُترتے ہیں۔علی بابا بالچند جی کو بھی ہندوؤں نے اپنے لیے اوتار سمجھنا شروع کر دیا تھا۔اُن کے نام کو بابا بان کھنڈی کے نام سے معروف کر دیا۔اِس جزیرہ کو مختلف روایتی کہانیوں سے منسوب کیا جاتا ہے۔جس میں ایک نام میر سہراب خان کا بھی ہے کہ اُنہوں نے یہ جزیرہ بابا بان کھنڈی کو تحفہ دیا تھا۔اس عمارت کے اندر اب بھی مور پائے جاتے ہیں جو اپنے پنکھ پھیلا کر خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔نو ایکڑ اور 5165 سکوئر فٹ پر پھیلے اس علاقہ میں کچھ عمارتیں خالصہ طرزو تعمیر کی عکاس ہیں جو نانک شاہی اینٹ سے بنی ہیں اور کچھ حصہ برطانوی عہد میں تعمیر ہوا۔ مندر کی تعمیر کاآغاز 1889 میں ہوا ۔بھارتی ریاست راجھستان کے شہر جے پور کا ملاگوری سنگ مرمر استعمال ہوا ہے جن سے مندر بھی بنائے گئے۔یہ جگہ مذہبی اعتبار سے ہندؤوں کا سب سے بڑا مقدس مقام ہے۔ان مندروں میں''ہنومان'' اور گنیش مندر کے علاوہ سمادھیاں بھی پائی جاتی ہیں۔اِن ہندو مندروں میں سکھ مت کے بانی گرونانک دیو کی تصویریں بھی آویزاں ہیں۔ سادھو بیلا میں ایک چھوٹی سی لائبریری بھی موجود ہے جس میں بہت اہم مذہبی کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے۔جو ہندی اور سنسکرت زبانوں میں موجود ہیں۔آج کل اس سادھو بیلا میں مذہبی عمارتوں کے علاوہ لنگر خانہ اور ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔بابا بان کھنڈی کا میلہ ہر برس تین دِن کے لیے جون میں چودھویں چاند والے دن شروع ہوتا ہے جس میں انڈیا سمیت دنیا بھر سے یاتری آتے ہیں۔اور زرد پٹکے گلوں میں لٹکائے اپنے مہاراج بھگوان کے آستانے پرماتھا ٹیکے بجھن گاتے ہیںاور عقیدت کے گھڑیال بجاتے ہیں۔
ڈی این اے کا کوڈ میری جینیاتی ہڈی میں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ مجھ میں آرکیالوجیکل مٹی کے اثرات کہیں کہیں موجود ہیں۔میرے ہاتھوں کی کلائیوں پر اساطیری قدیم اہراموں، مندروں، مسجدوں اور درباروں کی گھڑیاں باندھ دی گئی ہیں۔جو اپنے مطلوبہ وقت پر بجنا شروع ہو جاتی ہیںاور میں دونوں بازوؤں کو پنکھ بنا کر اُڑنے اور دونوں پاؤں کو رتھ کے پہیے بنا کر دوڑنے لگتا ہوں۔یہی کششِ ثقل مجھے اس قدیم مقام کی طرف کھینچتی ہے اور میں مصروفیت کے تیز دوڑتے زمانے کو روک کر وقت اور رفتار کی دیوار پھاند لیتا ہوں۔
ہم تیرتی بطخوں کی مانند کشتی کے عرشے پر سوار سادھو بیلہ کی جانب رواں دواں تھے۔ہمارے لبوں سے دعائیہ کلمات نکل رہے تھے اور سیکڑوں برس کی تاریخ لیے دریائے سندھ ہمیں اپنی داستان سُنا رہا تھا اور مانجھی اجرک اوڑھے مولود گا رہا تھا۔ ||
مضموں نگار، شاعراور سفرانچہ نگاراور دو کتابوں کے مصنف ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 78مرتبہ پڑھی گئی۔