یوم دفاع

تم سلامت رہو ہزار برس

 ماہِ ستمبر کی آمدآمد ہے۔ یادوں کا ہجوم دھاگوں کے اُس اُلجھے ہوئے گچھے کی طرح ہے جس کا سرا ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔



ایک عجیب سا احساس تھا جسے کوئی نام دینا مشکل ہوگا۔ وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ، کچھ کرگزرنے کا جذبہ۔ مادرِ وطن نے آج اپنے بیٹوں کو پکارا تھا اور شاید قوموں کی زندگی میں ایک ہی بار ایسا لمحہ آتا ہے جب ساری قوم، کیا فوجی تو کیا سویلین، ایک زبان پکار اٹھتے ہیں : اے ماں! ہم حاضر ہیں۔ 1965 میں پاکستانی قوم پر وہ وقت آگیا تھا۔


قلم بھی آج مدت کے بعد اٹھایا ہے الفاظ خیالات کا ساتھ نہیں دے رہے۔ یادوں کی چلمن کے اُس پار دیکھنے کی کوشش میں آنکھیں دھندلاسی گئی ہیں۔ بہرحال کوشش کرتی ہوں کہ یادوں کے ان اُلجھے دھاگوں کو لفظوں کی زباں دے سکوں۔
یہی ستمبر کا مہینہ تھا، بارشوں میں نہا کر ایبٹ آباد کی وادی کچھ اور بھی حسین ہوگئی تھی۔ پی ایم اے کاکول۔۔۔ اس حسین وادی کی پہچان ایک عظیم درس گاہ یہاں سے تربیت پاکر نکلنے والے ہر نوجوان کا ایمان تھا کہ مادرِ وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا ہی ان کا مقصد ِ حیات تھا۔ جب آپ یہ جذبہ لے کر میدان میں اُترتے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔
میں ستمبر1965 میں چند ماہ کی دُلہن تھی۔ میاں فوج میں کپتان تھے اور خوش قسمتی سے کاکول میں تعینات تھے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کاکول میں خواتین کی سرگرمیاں مرد حضرات سے کچھ زیادہ ہوتی ہیں یا شاید اس وقت ہوتی تھیں۔ لیڈیزکلب میں آئے دن کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔65 19میں کمانڈنٹ بریگیڈیئر سلطان ہوا کرتے تھے۔ ان کی بیگم ایک شفیق خاتون تھیں۔
آج بھی میں آنکھیں بند کرلوںتو وہ ہر لمحہ پوری تفصیل کے ساتھ ذہن کے پردے پر نمودار ہوجاتا ہے۔ ہم سب لیڈیز کسی کے ہاں چائے پر مدعو تھیں۔ اچانک بیگم میجر بابرکمرے میں داخل ہوئیں اور بتایا کہ رات کی تاریکی میں بھارت کی بزدل افواج نے لاہور پر حملے کی جسارت کی ہے۔ کچھ دیر کے لیے تو کمرے میں خاموشی چھا گئی، پھر ایک ساتھ ہر طرف سے آواز آئی۔ بتائیں اب ہمیں کیا کرنا ہے۔ '' یہ تو خیر بعد کی بات ہوگی ابھی تو آپ سب اپنے اپنے گھروں کو واپس جائیں۔ یہاں حضرات  آنے والے ہیں۔''
گھر پہنچی میاں پہلے سے موجود تھے۔ چہرے پر عجیب سی چمک تھی۔ کالا فوجی صندوق نکالا جاچکا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ انفنٹری کے افسر دو گھنٹے کے نوٹس پرہیں، صندوق تیار کرکے بستر بھی باندھنا ہوگا۔ آپ یقین کیجیے ڈر کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا۔ ایک عجیب سا احساس تھا جسے کوئی نام دینا مشکل ہوگا۔ وطن کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ، کچھ کرگزرنے کا جذبہ۔ مادرِ وطن نے آج اپنے بیٹوں کو پکارا تھا اور شاید قوموں کی زندگی میں ایک ہی بار ایسا لمحہ آتا ہے جب ساری قوم، کیا فوجی تو کیا سویلین، ایک زبان پکار اٹھتے ہیں : اے ماں! ہم حاضر ہیں۔ 1965 میں پاکستانی قوم پر وہ وقت آگیا تھا۔
کچھ ہی دنوں بعد یا شایدتیسرے ہی روز کلب کی میٹنگ میں بتایاگیا اسلحہ خریدنے کے لیے زرِ مبادلہ کی ضرورت ہے۔ زرِ مبادلہ کی ایک ہی صورت تھی اور وہ تھا سونا۔ خواتین اپنا سونا دے کر مادرِ وطن  کی حفاظت میں برابر کی شریک ہوسکتی تھیں۔ کل تک زیورات سے پیار کرنے والیاں آج ایک دوسرے سے بڑھ کر مادرِ وطن کی حفاظت میں حصہ ڈالنا چاہ رہی تھیں۔
الگ کمرے میں میز پر سفید چادر بچھا دی گئی تھی۔ ہر خاتون اپنی باری پر کمرے میں جاتی اور جو بھی رکھنا چاہتی تھی، میز پر رکھ آتی تاکہ اگر کوئی دوسرے سے کم دے  رہی ہو تو اُسے شرمندگی نہ ہو۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے میز زیورات سے بھر گئی۔ یقین کیجیے اس کارِ خیر میں اُن خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیاجو لیڈیزکلب کی ممبر نہیں تھیں۔ مگر اُن کے میاں کسی نہ کسی طرح پی ایم اے سے وابستہ تھے ۔یوں پی ایم اے سے ایک معقول مقدار میں سونا اکٹھا ہوگیا۔
سارادن عجیب گہما گہمی کا عالم رہتا ۔ دن بھر کبھی راشن کے پیکٹ بنائے جاتے تو کبھی دوائیں اکٹھی کی جاتیں۔ کشمیر کے محاذ پر لڑتے مجاہدین کے لیے گرم کپڑے اور کمبل اکٹھے ہوتے اور پھر انہیں برابر کرکے پیکٹ بنائے جاتے۔ یوں دنوں میں کاکول لیڈیز کلب نے ڈھیروںسامان محاذِ جنگ پر اپنے عظیم بھائیوں کی نذر کیا۔
ماضی کی یاد میں کھوئے جب میں اُس جذبے کو کوئی نام دینا چاہتی ہوں تو بس ایک ہی شعر ذہن میں آتا ہے۔
اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں
میں آج اس مقام پر کھڑے ہوکر پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ جس قوم کی مائیں اپنے شہید بیٹوں کی لاشوں پربین نہیں کرتیں بلکہ فخر سے اپنا سربلند کرتی ہیں، جس قوم کے بیٹوں کے ہاتھ اپنے ساتھی کا تابوت اٹھاتے ہوئے کانپتے نہیں بلکہ سلیوٹ کے لیے اٹھتے ہیں تو اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ میرا ایمان ہے کہ1965 والا جذبہ آج بھی دلوں میں ایک چنگاری کی طرح سلگ رہا ہے۔ بس ذرا ہوا دینے کی ضرورت ہے۔
1965ء میں نور جہاں نے اپنے نغمے فوج کے نام کیے تھے میں آج اپنی ساری دعائیں اپنے پیارے فوجی بچوں کے نام کرتی ہوں۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار


مضمون نگارکا تعلق عسکری خاندان سے ہے۔  محترمہ کے شوہرمیجر اختر بھٹی  پاک فوج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ۔۶۵ کی جنگ کے دوران  وہ بطور کیپٹن   پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تعینات  تھے۔ اِس شمارے کے لیےمضمون نگار نے ستمبر ۶۵کی یادوں کو تازہ کیا ھے۔ محترمہ کے دو بیٹے لیفٹیننٹ  جنرل محمد علی اور بریگڈئیر ذوالفقارعلی بھٹی بھی ان دنوں پاک فوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

یہ تحریر 424مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP