قومی و بین الاقوامی ایشوز

بھارتی آبی دہشت گردی 

سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی کر کے پاکستان کو بنجر بنانے کا مذموم بھارتی منصوبہ 
اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے بھارت پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بننے ہوں یا پھر اپنی مذموم چالوں سے پاکستان کو کمزورکرنا ہو، بھارتی قیادت ہمیشہ پیش پیش نظر آتی ہے۔یہ سازشیں صرف دہشت گردی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بھارت آبی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو بنجر بنانے کے مذموم ایجنڈے پر زور و شور سے کام کر رہاہے ۔بھارت کی یہ آبی دہشت گردی تمام پڑوسی ممالک نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ساتھ ہے۔ اس ضمن میں ڈیڑھ سو سے زائد چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر بھارتی آبی دہشت گردی کا بین ثبوت ہے۔ 



 بدقسمتی سے گزشتہ تین عشروں میں پاکستان میں بارشوں اور گلیشئیرز کے پگھلنے کی وجہ سے آنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی خاطرخواہ بندوبست کیا گیا نہ ہی ملک میں نئے ڈیم تعمیر کئے گئے۔ بھارت پاکستان کی اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاکر پانی کو ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ چنانچہ بھارت آبی جارحیت کے ذریعے پانی کو Tool of Aggression   (بحوالہ ڈاکٹر ثاقب ریاض،ریسرچ آرٹیکل ،ریسرچ گیٹ،دسمبر 2020)   کے  طور پر استعمال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے پانی کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کرتا ہے اور پھر ہر سال مون سون کے موسم میں پانی کا ایک بہت بڑا ریلا پاکستا ن کی طرف دھکیل دیتا ہے جس کے باعث پنجاب اور سندھ کے اکثر مضافاتی علاقوں کو سیلاب کی صورت میں ایک بہت بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہ آبی دہشت گردی پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی کا سبب بنتی ہے۔بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور بڑے پیمانے پر فصلیں متاثر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ۔
بھارت گزشتہ کئی سا ل سے آبی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ہر سال متنازع ڈیموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان کے حصے میں جو دریا آئے تھے ان میں راوی، ستلج اور بیاس بھارتی علاقے سے جبکہ جہلم اور چناب کشمیر سے ہو کر گزرتے تھے۔ ستمبر 1960ء میں ایوب خان کے دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بنک کی ثالثی میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت دریائے سندھ اور دیگردریائوں کے پانی کی منصفانہ تقسیم عمل میں آئی۔ یہ تاریخی معاہدہ ''سندھ طاس معاہدہ''(Indus Water Treaty ) کہلاتا ہے۔معاہدے کے تحت چھ میں سے تین دریا بھارت اورباقی تین پاکستان کے حصے میں آئے۔ انہیں مشرقی اور مغربی دریا کہا جاتا ہے۔دریائے سندھ، جہلم اور چناب مغربی دریا ہیں جن کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا جبکہ راوی، بیاس اور ستلج مشرقی دریا ہیں جو بھارت کے حصے میں آئے۔چونکہ کشمیر سے آنے والے دریائوں کا پانی بھارتی زمینوں کی جانب استعمال نہیں ہو سکتا لہٰذا اس پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کی معیشت پر اثر انداز ہونا ہی بھارت کا حقیقی مقصد ہے۔ اسی طرح پاکستان کا دریائے چترال جو افغانستان سے ہو کردوبارہ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اس پر بھی بھارت افغانستان کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس دریا پر ڈیم تعمیر کرے۔ 
مشرقی دریا یعنی راوی، بیاس اور ستلج پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔ جب ان پر بھارت کا حق تسلیم کر لیا گیا تو اس نے فی الفور ان دریائوں پر بے شمار بند تعمیر کرکے پاکستان آنے والا پانی روک لیا جس کا نتیجہ لا محالہ یہ نکلا کہ قلت آب کے باعث پاکستان کے جنوبی علاقے زراعت اور آب پاشی سے محروم ہو گئے۔ 
 سندھ طاس معاہدے کے تحت یہ بھی طے پایا تھا کہ بھارت ڈیم تعمیر کرنے سے قبل پاکستان کو آگاہ جبکہ آبی ریلے چھوڑنے سے پہلے حکومت پاکستان کو باقاعدہ مطلع کرے گا لیکن عملی طور پر بھارت نے اس معاہدے کی کبھی پاسداری نہیں کی۔حقائق واضح کرتے ہیں کہ بھارت نے اس سلسلے میں ہمیشہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ۔ اگرچہ پاکستان نے کئی بار بھارت کی اس جارحیت کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی مگر بھارتی حکام نے اس پر کبھی کان نہیں دھرے۔
متنازع ڈیموں کی تعمیر میں اضافہ پاکستان کے لیے کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے ۔ گزشتہ سال بھارت نے اعلان کیا تھا کہ وہ دریائے سندھ پرچھ نئے ڈیم تعمیر کرے گا جسے عملی جامہ پہناتے ہوئے وہ 12 میگاواٹ کا پن بجلی منصوبہ، 19 میگاواٹ کا دربک شیوک ہائیڈرو پاور منصوبہ ، 24 میگاواٹ کا نیموشلنگ منصوبہ ، 25 میگاواٹ کاکارگل ہنڈرمین منصوبہ، 19 میگاواٹ کا منگدم سنگرا منصوبہ اور 18.5 میگاواٹ کا سنوک ہائیڈرو پاور منصوبہ مکمل کر چکا ہے ۔ اس سے قبل وہ بگلیہار ،کشن گنگا اور دیگر چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کے کئی علاقوں کو بے آب و گیاہ کر چکا ہے۔ دریائے چناب پر زیر تعمیر متنازع ڈیموں اور مختلف منصوبوں میں مایار ڈیم، لوئر کلنائی ڈیم اور پاکل دل ڈیم قابل ذکر ہیں۔ سلال ڈیم کے علاوہ وولر بیراج سمیت متعدد چھوٹے بڑے بھارتی آبی منصوبے مکمل ہو نے کو ہیں جبکہ دریائے سندھ پر نیمو بازگو اور چٹک، دریائے جہلم پر ربڑ ڈیم اور دریائے چناب پر درالہتی کے علاوہ درجنوں دیگر آبی منصوبوں کی فز یبلٹی رپورٹس آخری مراحل میں ہیں۔یہ منصوبے بظاہر پن بجلی کے حصول کے لیے قائم کیے گئے ہیں مگر در پردہ عزائم کچھ اور ہی ہیں۔   
پاکستا ن اور بھارت کے مابین پانی کا تنازع تو ایک مسلمہ حقیقت ہے ہی، خود متعدد بھارتی ریاستوں کے درمیان پانی کولے کر کئی تنازعات چل رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز سے بھارتیہ جنتا پارٹی پانی کے مسئلے پر پاکستان دشمنی کو ہوا دے رہی ہے۔بات صرف دریائے سندھ تک محدود نہیں ہے۔دریائے جہلم اور چناب کے پانی کا رخ موڑنے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ اوڑی کے خود ساختہ حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا:'' خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے!''مودی سرکار کا کہنا تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو توڑے بنا بھی پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترسا سکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کا یہ بیان محض گیدڑ بھبھکی  ہے کیونکہ شاید وہ بھول رہے ہیں کہ اس طرح جارحیت کا مرتکب ہوکر کسی ملک کا پانی بند کر دینا  جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف  ورزیتصور ہوگی جس کا کوئی ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔
بھارتی آبی جارحیت کے حوالے سے عالمی بنک کا کردا ر بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔سندھ طاس معاہدے کی رو سے عالمی بنک پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کا تنازع ختم کرانے کا ضامن ہے لیکن بھارتی ڈھٹائی کے سامنے وہ بھی بے بس نظر آتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ایک طرف ، بھارت عالمی بینک کی مصالحتی عدالت میں قانونی عمل رکوانے کی بھی بھرپور کوششیں کر رہا  ہے۔بھارت کے آبی منصوبوں کے متنازع ڈیزائن پر پاکستان نے 19 اگست 2016 کو عالمی بینک کی ثالثی عدالت سے باضابطہ رجوع کیاتھا۔پاکستان کے مدلل مؤقف اور طویل کوششوں کے بعد ورلڈ بینک نے مارچ 2022 میں عدالتی تشکیل کا عمل شروع کیا۔پاکستان کا کیس ٹھوس نکات پر مبنی ہے جو بھارت کو عالمی بنک کی ثالثی عدالت سے راہ فرار اختیار نہیں کرنے دے گا۔اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے جس کے مطابق سندھ طاس دو خود مختار ریاستوں کے مابین ایک ثابت شدہ مؤثر معاہدہ ہے جس کے تحت دریائے جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا حق  تسلیم شدہ ہے۔چنانچہ کسی بھی صورت میں بھارتی ایماء پر سندھ طاس معاہدے میں نظرثانی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔سندھ طاس معاہدے کی کسی شق کی یک طرفہ تبدیلی یا تشریح کو پاکستان تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی اس کی کوئی اہمیت ہے۔ 
 سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے ''انڈس واٹر کمیشنر''بھارت کے ساتھ متعدد بار مذاکرات کی میز پر بیٹھ چکے ہیں لیکن بھارت ہر بار روائتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژکردیتا ہے۔  
گزشتہ ماہ سندھ طاس معاہدے کو لے کر ایک قانونی جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب بھارت نے مبینہ طور پر سندھ طاس معاہدے کے اہم نکات میں ردو بدل کے لیے انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے صدر دفتر میں ایک اپیل دائر کرتے ہوئے پاکستانی حکام کو قانونی نوٹس بھجوا دیا۔ 
اس امر کا اظہار بھارتی وزیر برائے اطلاعات و نشریات کانچن گپتا نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھی کیا ۔ 
حکومت پاکستان کی طر ف سے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اپناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا مطلب پاکستان کو بنجر بنانا ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان نے دعوی کیا ہے کہ اگر بھارت متنازعہ ڈیموں کے ساتھ ساتھ 850میگا واٹ کے Ratle Hydropower Projects  لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ دریائے چناب پر ہیڈ مرالہ کے مقام پر پانی کے بہائو کو 40 فیصد کم کر دے گا۔ اس طرح پنجاب کے متعدد علاقے آب پاشی سے محروم ہو جائیں گے ۔ سندھ طاس معاہدے کی رو سے دریائے چناب کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم شدہ ہے لہذا اس میں ردو بدل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور پاکستان نے انٹر نیشنل واٹر ٹریٹی میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی مخالفت کی ہے۔(India Today, 27 Jan, 2023)
ویسے تودنیا بھر میں پانی کے حوالے سے مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان میں صورت حال سنگین ہے۔پاکستان ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی کی شدید کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ وطن عزیز میں 85فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔چولستان اورسندھ کے کئی علاقوں کے عوام پینے کے صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔دریائے سندھ اور دیگر آبی ذرائع کی نگرانی کے لیے'' انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(IRSA) قائم کی گئی جو دریاؤں کی مسلسل نگرانی کرتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پانی کی صور تحال کے متعلق اپنی رپورٹ جاری کرتی ہے۔ IRSAکی جانب سے پانی کی موجودہ صورتحال پر جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ کافی پریشان کن ہیں۔ 5 جون 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں پانی کے بحران نے سابقہ 22سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے ۔تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ بہت کم ہے۔ اس وقت تمام صوبوں کو50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے ۔ارسا کی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب اور جہلم سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔IRSA کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پانی کی قلت 40سے 50فیصد ہے جسے مجموعی طور پر صوبوں کے کوٹے سے منہا کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلیاں مستقل طور پر آبی وسائل پر اثر انداز ہوتی رہیں گی۔ گلیشیئرز پگھلنے کے عمل سے پانی کی آمد میں بہتری کی توقع تو بدستور موجود ہے لیکن اگر اسے محفوظ کرنے کے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تویہ پانی کی قلت پر منتج ہو گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2047ء تک زیر زمین پانی ناپید ہو جائے گا جس سے معیشت کو شدیدنقصان پہنچے گا۔ پاکستان کی قریباً 75فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے۔ بھارت دریائے سندھ کا پانی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے جس کا مقصد پاکستان کو بنجر بنانا اور بوقت ضرورت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ یہ صورت حال اس لیے بھی توجہ طلب ہے کہ اگر دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑنے اور دریائے جہلم پرپن بجلی بنانے کی آڑ میں بھارتی سازش کامیاب ہو جاتی ہے تو خدانخواستہ ہمیں وہ دن دیکھنا پڑ سکتا ہے جب تربیلا اورمنگلا ڈیمز کا انحصار صرف اور صرف بارش کے پانی پر ہوگا ۔
اس سارے منظر نامے کے پیش نظر پاکستانی اعلیٰ قیادت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی آبی دہشت گردی کو روکنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر سفارت کاری کو فعال بنائے کیونکہ اسی سے عالمی برادری کو باور کرایا جا سکتا ہے کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے نے سنگین صورت اختیار کی اور اگر اسے بروقت حل نہ کیا گیا تو قرین قیاس ہے کہ یہ تنازع جنگ کی صورت اختیار کر لے جس کے اثرات دو ممالک تک ہی محدود نہیں رہیں گے، عالمی سطح پر بھی وارد ہوں گے ۔ عالمی بنک کا دروازہ کھٹکھٹانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر ہنگامی بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر ازحد ضروری ہے۔ بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم جو پاکستان کی ترقی کا ضامن منصوبہ تھا ،سیاست کی نذر ہو گیا ۔ملک دشمن عناصر اس منصوبے کو متنازع بناکر اس کی تعمیر میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔موجودہ حالات میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے ۔بھاشا اور داسو ڈیم کو بھی جلد ا ز جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے باعث اکٹھا ہونے والا پانی جو ہر سال شہری و دیہاتی علاقوں میں تباہی پھیلانے کے بعد سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے ، کو محفوظ کیا جا سکے ۔ 
ملک میں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں اور بھارتی سازشوں سے بچا جا سکتا ہے بلکہ اس قیمتی پانی کومحفوظ بھی کیا جاسکتا ہے۔اس طرح پانی کے ضیاع کو روکنے میں مدد ملے گی ۔ زمینیں سیراب ہوں گی تو فصلیں اچھی ہوں گی اور اس طرح ملکی معیشت کو بھی سہاراملے گا ۔حکومت پاکستان اور اس کے متعلقہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے بھارت کسی بھی قسم کی آبی جارحیت اور دہشت گردی سے ہمیشہ کے لیے باز رہے ۔ آگہی اور شعور کے اس دور میں اگر ہم ابھی تک بھارتی سازشوں سے لاعلم ہیں تو اپنے ازلی دشمن کے عزائم سے باخبر رہنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہونا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا پانی روکنے کی کسی بھی بھارتی کوشش کو اشتعال انگیزی سمجھتے ہوئے اس کا معقول جواب دیا جائے ۔ اگربھارت اپنی روش پر قائم رہتا ہے تو اس کاجواب دینے میں پاکستان حق بجانب ہو گا۔ ||


مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
[email protected]

یہ تحریر 109مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP