بلوچستان قدرتی معدنیات اور ذخائر سے مالا مال اور رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے ایک منظم سازش کے تحت دہشت گردی ، علیحدگی پسند تنظیموں کی کارروائیوں اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مجموعی ترقیاتی گراف زیادہ اوپر نہیں گیا۔سی پیک ، ریکوڈیک اور گوادر جیسے میگا پراجیکٹس سے ابھی تک خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔دہشت گردی کی حالیہ لہر اور بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے باوجود مسلح افواج کی طرف سے مقامی لوگوں کی امداد اور بحالی کا کام جاری رہتا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق حالیہ بارشیں پچھلے 30 سال کی بارشوں سے زیادہ ہیں۔اس سلسلے میں دوسرے اداروں کے ساتھ ساتھ پاک فوج اور ایف سی کی خدمات نمایاں ہیں۔
حالیہ بارشیں اور سیلاب کی تباہی
محکمہ موسمیات کے مطابق امسال وسط جولائی سے لے کر وسط اگست تک بارشوں کا ایک غیر معمولی سلسلہ جاری رہا۔ تا دم تحریر اس بارش نے پچھلے تیس سال کی بارش کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ 175 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے، رابطہ سڑکیں بہہ گئیں ۔ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کو ملانے والے پل متاثر ہوئے۔ پانی کے چشموں کی سپلائی متاثر ہوئی اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع لسبیلہ، بولان، جھل مگسی اورقلعہ سیف اللہ ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کے بنیادی مسائل ابھی تک صاف پانی کی فراہمی، حفاظتی بند کا نہ ہونااور ایمبولینسز کی عدم دستیابی ہیں۔
ہیلی کاپٹر حادثہ اور افسران کی شہادتیں
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 2،اگست کو بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا تھا جس میں 12 کور کے کمانڈر سمیت 6 افراد سوار تھے۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہیلی کاپٹر کو خراب موسم کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ ہیلی کاپٹر کا ملبہ لسبیلہ کے علاقے وندر میں موسی گوٹھ سے ملا۔ واقعے میں ہیلی کاپٹر میں سوار تمام 6 افسران اور جوان شہید ہوگئے جن میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی بھی شامل تھے۔شہدا میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز میجر جنرل امجد حنیف ستی، بریگیڈیئر محمد خالد، میجر سعید احمد، میجر محمد طلحہ منان اور نائیک مدثر فیاض شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس مشکل اور تکلیف دہ وقت میں پوری قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی لیکن کچھ بے حس حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر تکلیف دہ او ر توہین آمیز مہم جوئی کی گئی۔ یہ بے حس رویے ناقابل قبول اور شدید قابلِ مذمت ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہید
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا تعلق 79ویں لانگ کورس سے تھا اور وہ پاکستان آرمی کی ،6 آزاد کشمیر رجمنٹ کا حصہ تھے۔ جب موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 10 کورکی کمانڈ کر رہے تھے، اس وقت لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے پاس ٹرپل ون بریگیڈ کی کمانڈ تھی۔ اس کے بعد وہ امریکہ میں پاکستان کے سفارت خانے میں بطور ڈیفنس اتاشی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ امریکہ سے واپسی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈنٹ تعینات ہوئے اور 2018 سے دسمبر 2019 تک ڈی جی ایم آئی کے طور پر فرائض سرانجام دیئے۔ شہید لیفٹیننٹ جنرل سرفراز جنوری تا دسمبر 2020 میں آئی جی ایف سی بلوچستان بھی رہ چکے تھے ۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے سوات اور وزیرستان آپریشن میں بھی اعلیٰ عسکری خدمات سرانجام دیں اور اسی اعلیٰ ترین بہادری کے عوض انہیں دو بار تمغۂ بسالت سے نوازا گیا۔
پاک فوج کے ہونہار افسر سرفراز علی کو نومبر 2020 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔
لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی دسمبر 2020سے کمانڈر کوئٹہ کور کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے اور بلوچستان میں امن اور ترقی کے لیے اقدامات کر رہے تھے۔ اور بلوچستان کے عوام کی عظیم خدمت کر رہے تھے۔
بلوچستان میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے سلسلہ میں ہیلی کاپٹر پر جائزہ لینے کے لیے کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے یکم اگست 2022 کو ان کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا، 2 اگست 2022 کو( ساکران، موسی گوٹھ)ضلع لسبیلہ سے حادثے کے شکار ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا، اور اسی حادثہ میں لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے علاوہ 5 دیگر افسران شہید ہوئے۔ جنرل سرفراز شہید کے بیٹے سے رابطہ ہوا تو ان کا حوصلہ بلند تھا۔بلوچستان حکومت کے ترجمان نے بھی جنرل سرفراز کی خدمات کو سراہا۔
میجر جنرل امجد حنیف شہید
میجر جنرل امجد حنیف کا تعلق آزاد کشمیر کے شہر راولاکوٹ سے تھا اور وہ ڈائریکٹر جنرل کوسٹ گارڈ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ میجر جنرل امجد حنیف پاکستان ملٹری اکیڈمی میں میرے سینئر تھے۔ وہ نہایت محنتی اور اچھے اخلاق کے مالک اور ہنس مکھ تھے۔ شہید آفیسر نے اپریل 1994 میں آزاد کشمیر رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔میجر جنرل امجد حنیف نے سوگواران میں بیوہ، ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو چھوڑا ہے۔شہید کے بھائی سے رابطہ ہوا تو وہ جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظر آئے۔
بریگیڈیئر محمد خالد شہید
کمانڈر انجینئر 12 کور بریگیڈیئر محمد خالد کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ میرے کورس میٹ اور قریبی دوست تھے۔لاہور پوسٹنگ کے دوران ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی اور ان سے مسلسل رابطہ رہتا تھا۔انہوں نے اکتوبر1994 میں 20 انجینئر بٹالین میں کمیشن حاصل کیا تھا۔بریگیڈیئر محمد خالد اپنے کورس میٹس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ صابر اور شاکر انسان تھے۔شہید آفیسر کے کورس میٹ اپنی روایات کے مطابق ان کی فیملی سے رابطے میں ہیں اور ان کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔
میجر سعید شہید
پائلٹ میجر سعید کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔انہوں نے بیوہ، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو سوگوار چھوڑا ہے۔ شہید میجر سعید کے بزرگ والد نے بیٹے کی وردی کو چوما تو ایک سینئر آفیسر نے فرطِ جذبات سے میجر سعید شہید کے والد کا ماتھا چوم کر انہیں سلیوٹ پیش کیا۔ یہ مناظر بھی اکثر نظر آتے ہیں کہ ضعیف والدین سامنے موجود فوجی یا پولیس افسر کو یونیفارم میں دیکھ کر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ میں نے بریگیڈیئر اویس توقیر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ شہدا کے لواحقین سے اظہار عقیدت تھا۔ شہدا ہمارا فخرہیں۔ جب شہید کے بھائی سے رابطہ ہوا تو ان کا حوصلہ بلند تھا۔
میجر طلحہ منان شہید
معاون پائلٹ میجر محمد طلحہ منان نے بیوہ اور دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ان کا تعلق راوالپنڈی سے تھا۔جب کمانڈر راولپنڈی کور شہید کے والد کو قومی پرچم تھما رہے تھے تو منظر قابل دید تھا۔ شہید کے والد نے بتایا کہ میجر طلحہ بہت تابع فرمان تھا اور اپنی ڈیوٹی پوری لگن سے کرتا تھا۔جب ان کے والد محترم سے رابطہ ہوا تو ان کے والد کا حوصلہ بلند تھا اور وہ اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر محسوس کررہے تھے۔پاکستان کی قوم ایسے عظیم والدین کو سلام پیش کرتی ہے۔
چیف نائیک مدثر فیاض شہید
چیف نائیک مدثر فیاض کا تعلق نارووال سے تھا۔ نماز جنازہ شکرگڑھ گورنمنٹ ہائی سکول کے گرائونڈ میں ادا کی گئی، نماز جنازہ میں پاک فوج اور سول کے اعلی افسران سمیت عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی، فوج کے چاق چوبند دستے نے شہید کی قبر پر سلامی بھی پیش کی۔تحریر کے مصنف کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ پاکستان کے دوسرے اضلاع کی طرح ضلع نارووال کے سپوت بھی اپنے فرائض کی ادائیگی اور پاکستان کے دفاع کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ان کے بھائی سے جب رابطہ ہوا تو ان کا حوصلہ بلند تھا اورانہیں ملک کی خاطر اپنے بھائی کی شہادت پر فخر تھا۔
مسلح افواج میں خاص طور پر دوران ڈیوٹی ہلاک ہونے والے اہلکاروں اور ان کے اہلخانہ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ فوج میں شامل دستوں کا مورال بلند رکھنا بھی ہے۔
ایسے افسران اور جوانوں کے اہلخانہ کا قیادت کی سطح پر بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے، مثلاً جب سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ قبل یوم شہدا منعقد کیا گیا تو اس تقریب کے ختم ہونے کے بعد جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے ماتحت عملے کو کہا کہ وہ اس وقت تک وہاں موجود رہیں گے جب تک وہاں موجود اہلِ خانہ کے مسائل حل نہ ہو جائیں۔ حالیہ فضائی حادثے کے بعد بھی پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہدا کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور کہا کہ شہدا ہماری قوم کا فخر ہیں، ہم اپنے شہدا کے اہل خانہ کا ان کی عظیم قربانی پر کبھی بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر شہدا کے خاندانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ جڑے رہنا ہمارا فرض ہے اور ہم ان کی بھلائی کے ہمیشہ کے لیے ذمہ دار ہیں۔ مسلح افواج اپنی عظیم روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے شہدا کے خاندان کی بحالی کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔
متاثرین کی بحالی کے لیے پاک فوج کے اقدامات
حالیہ بارشوں نے پورے ملک کی طرح بلوچستان کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ہیں۔بلوچستان میں جھل مگسی کے علاقے گندھاوا اور گردونواح کے تمام علاقوں میں امدادی کام جار ی ہیں۔ سی ایم ایچ خضدار کے زیر اہتمام میڈیکل کیمپ قائم کیاگیا ، جہاں اب تک 115 مریضوں کا علاج کیاگیا۔ نصیر آباد کے علاقے گھنداک اور بابا کوٹ میں بھی متاثرہ آبادی کے لیے امدادی کام جاری ہیں ، پاک فوج کے جوان سیلاب متاثرین میں راشن اور تیار کھانا تقسیم کررہے ہیں۔ تحصیل مچھ کے علاقے آب گم میں بھی فلڈ ریلیف اور میڈیکل کیمپ قائم کیا گیا۔اس وقت وطن عزیز میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچارکھی ہے جس میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان متاثر ہوا ہے جہاں سیکڑوں مکانات منہدم، رابطہ سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں، خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں اور مویشی بھی سیلابی ریلے کی نذر ہوچکے ہیں ۔
کوئٹہ، چمن، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، سوئی، ڈیرہ بگٹی، مچھ، لسبیلہ، سبی، ہرنائی، دکی، کوہلو، بارکھان اور ژوب کے علاقے سیلابی ریلوں اور بارشوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ پچھلے سال بھی کوہلو کے علاقے میں کافی تباہی ہوئی تھی۔ ایسی نازک صورتحال میں صوبائی حکومت کے ساتھ ہمیشہ کی طرح مدد کے لیے پاک فوج اور ایف سی صوبے کے مختلف علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے عوام کو ریلیف فراہم کر نے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیواور بحالی کے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں، امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ بیمار افراد کے لیے پاک فوج کی طرف سے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ان میڈیکل کیمپس میں متاثرہ افراد کے لیے علاج ومعالجہ اور مفت ادویات کی فراہمی کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ متاثرین کو صحت سے متعلق سہولیات بہم مل سکیں۔ عوام کی مشکلات کے ازالے کے لیے پاک فوج اور ایف سی بلوچستان، پی ڈی ایم اے، ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی بھر پور معاونت کررہی ہے۔ سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ بھی لگایا جارہا ہے تاکہ امدادی کارروائیوں میں تیزی لائی جاسکے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان نے بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور موقع پر متاثرین کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایات دیں۔پاک فوج اور ایف سی کی جانب سے متاثرین میں پکا ہوا کھانا اور ٹینٹس فراہم کیے جارہے ہیں۔ علاوہ ازیں سوگوارخاندانوں میں مالی امداد اور متاثرہ خاندانوں کو مقامی روایات کے مطابق راشن اور ضروری امداد بھی دی جارہی ہے۔
ایک متاثرکن واقعہ کوئٹہ کینٹ کے علاقے میں پیش آیا جس نے افواج پاک سے محبت کے جذبے کو اور زیادہ تقویت دی، ایک فوجی جوان نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بارش میں بجلی کے کھمبے سے چپکے ایک شخص کی جان بچائی ۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ''جس شخص نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا''۔پاکستان کی مسلح افواج مشکل کی ان گھڑیوں میں اپنی عوام کی خدمت کے لیے سول اداروں کے ساتھ مل کر بھر پور کوشش کر رہی ہے۔لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مستقل بنیادوں پر ان آفات سے بچنے کے لیے ڈیم بنائے جائیں اور برساتی نالوں سے بچنے کے لیے حفاظتی بند تعمیر کیے جائیں، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔
یہ تحریر 690مرتبہ پڑھی گئی۔