یوم دفاع

ایہہ پترہٹاں تے نئیں وکدے

صوفی غلام مصطفےٰ تبسم روزانہ صبح سویرے اٹھتے، صبح کی سیر کرتے، ناشتہ کے بعد تیار ہوکر ریڈیو پاکستان لاہور چلے جاتے ،وہاں وہ مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ آج صوفی تبسم صبح سے بے چین و بے قرار تھے۔ اُنہیں ارضِ پاک کی سرحدوں اور اُن کے محافظ جوانوں کی فکر تھی۔ وہ بے چینی سے کبھی گھر کے اندر اِدھر اُدھر چکر لگاتے اور کبھی گھر سے باہر نکل جاتے۔ معمول کے مطابق آج انہوں نے سیر بھی نہ کی تھی۔ اسی بے چینی اور بے قراری میں انہوں نے آخر ریڈیو کوآن کیا اور خبریں سننے کے لیے ریڈیو کی نوب گھمانے لگے اور نوب کو ریڈیوپاکستان کی فریکو  ئینسی پر روک دیا۔ سارا گھر اور خاص طور پر اُن کی والدہ اس فکر میں تھیں کہ مصطفےٰ (اُن کی والدہ اُنہیں ہمیشہ مصطفےٰ ہی کہتی) نے آج ناشتہ بھی نہیں کیا، وہ صبح سے بے چین و بے قرار سے کیوں ہیں۔ یک دم ریڈیو پر ترانے بندہوگئے اور خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ ''طاقت کے نشے میں چُور بھارتی فوج نے سیکڑوں ٹینک اوربھاری فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارہ واہ باجرہ گڑھی کے مقام پر حملہ کردیا ہے مگر پاکستانی افواج کے مجاہدوں اور جوانوں نے زبردست جوابی کارروائی سے دشمن کے متعدد ٹینک تباہ کردیے ہیں اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے ہیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے اس حملے کا مقابلہ اس قدر جواں مردی سے کیا جس کی مثال اس دنیا میں نہیں ملتی۔ چونڈہ کے محاذ کو دشمن کا قبرستان بنادیا اور ہمارے بہادر جری دلیر فوجیوں نے شہادت کا رُتبہ پالیا ہے۔'' سیکڑوں ٹینک اُس روز ملبے کا ڈھیر بنے اور بھارت کو عبرتناک شکست ہوئی۔
صوفی تبسم افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں کی شہادت کے دکھ کو برداشت نہ کرسکے اور اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔ ہمارے گھر کے تمام لوگ نمناک آنکھوں سے ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے تھے۔ صوفی تبسم اپنے کمرے میں جاکر بیٹھ گئے، اُن کے سامنے اُن کا قلم اور پیڈ تھا۔ آنکھ سے نکلنے والے آنسو اُن کے لفظوں کی زبان بن گئے۔ اس کرب ناک صورت حال میں انہوں نے جو مصرعہ لکھا امر ہوگیا۔ اُن کے لکھے ہوئے اس جنگی ترانے کو آج تک کوئی نہ بھول سکا۔ 
ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے
کیہ لبھنی ایں وچ بازار کُڑے 
ایہہ دین ہے میرے داتا دی 
نہ اینویں ٹکراں مار کُڑے 
ایہہ پتر وکائو چیز نئیں
مُل دے کے جھولی پائیے نی
ایہہ ایڈا سستا مال نہیں
کیتوں جا کے منگ لیائیے نی
ایہہ سودا نقد وی نئیں ملدا
تو لبھدی پھریں اُدھار کُڑے 
کچھ دیر میں ریڈیوپاکستان لاہور سے اُنہیں گاڑی لینے آئی اور وہ ریڈیو چلے گئے۔ ہم سب گھر والے شہید فوجیوں کے ماں باپ بہن بھائی بیٹیوں کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے خاموش بیٹھے رہے۔ گھر میں جنگ کی خبریں سنسنی پھیلا رہی تھیں ،شام کو فوجی بھائیوں کا پروگرام نشر ہونا تھا۔ سب ریڈیو کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آج جو ترانہ ریڈیو پر نشر ہوا وہ یہی ترانہ تھا ''ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے'' ملکہ ترنم نور جہاں نے بھی صوفی تبسم کی شاعری کو جس طرح سے اپنی مترنم آواز اور فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُنہوں نے اپنے وطن کی محبت سے سرشار ہوکر پاک افواج کے شہیدوں کی محبت کو دل سے محسوس کیا اور صوفی تبسم کے لکھے شاہکار جنگی ترانوں کو امر کردیا۔ 
پاکستان کے صوبے پنجاب میں سیالکوٹ کا مقام چونڈہ کے نام سے دنیا کی تاریخ میں بھارتی ٹینکوں کا قبرستان مشہور ہے جہاں پاک فوج نے ہمت و بہادری اور شجاعت کی لازوال اور بے مثال داستانیں رقم کیں۔  5 اور6 ستمبر1965ء کی درمیانی شب بھارتی فوج جنگ کا اعلان کیے بغیر بین الاقوامی سرحد کو پار کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں پاکستان میں داخل ہوئی تھی۔ بھارتی جرنیلوں کا منصوبہ تھا کہ 6ستمبر کی صبح لاہور کی سڑکوں پر بھارتی ٹینک اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو سلامی دیں گے اور شام کو لاہور جم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی کے دوران بیرونی دنیا کو خبر دیں گے کہ اسلام کا قلعہ پاکستان پر کفار کا قبضہ ہوچکا ہے لیکن بھارت کے ناپاک ارادوں اور منصوبوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب ان کی افواج کو مختلف محاذوں پر شکست اور پسپائی کی خبریں ملیں۔ صوفی تبسم نے 6ستمبر کے دن جنگ کی خبر سنتے ہی ریڈیوپاکستان کا رُخ کیا۔ اُنہوں نے وہاں جاتے ہی 6ستمبر1965ء کی جنگ کا پہلا جنگی ترانہ لکھا، وہ ریڈیوپاکستان لاہور سٹوڈیو میں ہی بیٹھ کر مصرعے لکھ رہے تھے جبکہ اعظم خان ترانے کا میوزک ترتیب دے رہے تھے ساتھ ہی مائیک پر کھڑی ملکہ ترنم نورجہاں اپنی سریلی آواز میں یہ جنگی ترانہ گا رہی تھیں۔ ریڈیوپاکستان کے سٹوڈیو سے فوجی بھائیوں کے پروگرام میں براہ راست یہ ترانہ نشر ہورہا تھا۔ یہ کام تھوڑے سے وقت میں نہایت مستعدی سے کیا گیا یوں جو پہلا جنگی ترانہ 6ستمبر کی شام کو ریڈیو پر نشر ہوا، اُس کے مصرعے کچھ یوں تھے 
میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں
اج تکدیاں تینوں سارے جگ دیاں اکھاں 
اس ترانے کے بعد جنگی ترانوں کا سلسلہ چل نکلا اور روزانہ صوفی تبسم اپنی شاعری سے افواجِ پاکستان اور عوام کے جذبوں کو گرماتے رہے۔
 6ستمبریومِ دفاع پاکستان ہمیں ہمیشہ اُن شہداء کی یاد دلاتا ہے جو 57سال قبل ہمارے عیار دشمن بھارت کے بزدلانہ حملے کو شجاعت اور جواں مردی سے ناکام بناتے ہوئے اپنی جانیں اپنے وطن پر نثار کرگئے تھے۔ لاہور میں بھی پاک فوج کی 150سپاہیوں کی ایک کمپنی نے 12گھنٹے تک بھارت کی ڈیڑھ ہزار فوج کو روکے رکھا اور ہماری پچھلی فوج کو دفاع مضبوط کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔ لاہور میں ایک اور جنگی محاذ پر میجر عزیز بھٹی پہرا دیتے رہے۔ وہ اُس وقت لاہور سیکٹر کے علاقے برکی میں کمپنی کمانڈر تعینات تھے۔ میجر عزیز بھٹی مسلسل پانچ دن تک بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے۔ بالآخر 12ستمبر1965ء کو بھارتی ٹینک کا گولا چھاتی پر کھایا اور جام شہادت نوش کرگئے۔ 
اس جنگ کے دوران بھارتی فوج نے 17دن میں 13حملے کیے۔ وطن کے ان بہادر سپوتوں کے کچھ کارنامے تو ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جنہیں رہتی دنیا تک جرأت و بہادری کی جاوداں مثالوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسے جرأت مند شہیدوں کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں ملک کے سب سے عظیم فوجی اعزاز نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ یہ اُن شہداء کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں آزادی کے چراغ روشن رکھنے کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ 
جذبوں سے سرشار ہمارے محب وطن شعراء نے اپنے جنگی ترانوں سے فوج اور پوری قوم کے خون کو گرمائے رکھا۔ اُن میں جوش و جذبہ پیدا کیا جس کے اثرات آج بھی  پوری قوم کے بچے بچے میں موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔ 
جو سبق ہمارے بزرگ ہمیں سکھاگئے ہیں وہ ہمارے خون میں سرائیت کر چکا ہے۔ وطن سے محبت ہمارا شعار ہے ہماری جان،ہمارا وطن ہے جس پر قربان ہونے کے لیے ہم ہمیشہ سے تیار ہیں۔ 
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے بری، بحری اور فضائی افواج کے جوش اور جذبے کو اپنے اس ترانے سے جلا بخشی 
اے ہوائوں کے مسافر اے سمندروں کے راہی
میرے سربکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی 
ایک اور جنگی ترانہ ستمبر1965 ء میں لکھا۔ 
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
بلند ہمتیں لیے
سپاہیو! بڑھے چلو
بہادرو! بڑھے چلو
بڑھے چلو، بڑھے چلو، بڑھے چلو
صوفی تبسم نے جنگ ستمبر1965ء کے حوالے سے جو بھی لکھا، جن فنکاروں نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا سبھی ترانے امر ہوگئے۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی فرمائش پر اُنہوں نے قصور شہر پر یہ ترانہ بھی لکھا۔ 
میرا سوہنا شہر قصور نی
ہویا دنیا وچ مشہور نی
ایہہ شہر اے ترکاں تازیاں دا
ایہہ بستی مرد دلیراں دی
ایہہ شہر سپاہیاں غازیاں دا
ایہہ بستی رب دیاں شیراں دی
ایہہ دیاں دُھماں دور دور نی
میرا سوہنا شہر قصور نی
صوفی تبسم نے ان جنگی ترانوں کو لکھ کر ایک مجاہدانہ کردار ادا کیا ہے جو اُن کی حب الوطنی کا بین ثبوت ہے۔ یہ ترانے آج بھی زبانِ زدِ عا م ہیں۔ 
جنرل ٹکا خان کے کہنے پر اُنہوں نے ''ہمارا توپ خانہ'' ترانہ لکھا۔ اُنہیں جنرل ٹکا خان نے خوبصورت توپ کا سونیئر پیش کیا جو اُن کے آرکائیوز میں موجود ہے۔ حکومت پاکستان نے اُنہیں اُن کی خدمات پر ''پرائڈ آف پرفارمنس'' تمغۂ امتیاز،  حکومت ایران نے نشانِ سپاس اور اب پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر 14اگست کو صوفی تبسم کو نشانِ امتیاز دئیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے جو پوری قوم کے لیے فخر کا باعث ہے۔ 


مضمون نگار، مصنفہ ، کالم نگار اور براڈ کاسٹر ہیں۔
 

یہ تحریر 327مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP