علم، ہدایت اور رہنمائی اس ارضِ کائنات کے وہ بنیادی عناصر ہیں جن کی ضرورت ہر بنی نوعِ انسان کو ماں کی گود سے لحد تک مسلسل رہتی ہے۔ سیکھنے اور سکھانے کا عمل اس مادی دنیا میں کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ رہنمائی یا قیادت ہر معاشرے میں تبدیلی لانے کی کنجی تصور کی جاتی ہے اور اسی لیے اعلیٰ رہنمائی اور قیادت ہی بہترین معاشرہ اور بہترین کردار بنانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ ایک بہترین قیادت ہی کارگر اور متوازن راہیں متعارف کرواسکتی ہے،جن اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے ایک عام شخص، بندۂ مومن کی منازل تک پہنچ پاتا ہے۔
انہی اصولوں کی پیروی اور ایک باوقار بندۂ مومن بننے کی جستجو نے مجھے پاک فوج کا حصہ بنادیا۔ فوج میں آنے سے پہلے ہی مجھے قیادت اور فنِ سپہ گری کو پڑھنے اور سمجھنے کا شوق تھا۔اپنے محبوب نبی کریم ۖ کی حیاتِ طیبہ اور مختلف غزوات میںآپ کی اعلیٰ وارفع حکمتِ عملی اور بہترین سپہ سالاری میرے لیے ایک عملی نمونے کی صورت میںہمیشہ مشعلِ راہ تو تھے ہی مگر طالب علمی کے زمانے میں ایک دن میری نظر اقبال کے اس شعر پر پڑی:
نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری سوچ کو مفہوم مل گیاہو، کانوں میں بالِ جبریل ، ضربِ کلیم اور اسرارِ خودی کے نغمے گونجنے لگے ہوں۔ میرے رگ و پے میں سپہ گری کے سب رموز و اسرار ایک دوجے کا ہاتھ تھامے ایک آہنی زنجیرکی مانند لبیک کی صدا میں سرمست قطار در قطار میری روح میں تحلیل ہوگئے ہوں۔ یہی وہ لبیک کی صدا تھی جس کو پروان چڑھانے کے لیے میں نے فوج میں شمولیت اختیار کی۔
اقبال نے اپنی شاعری میں ایک رہنما یا قائد کو زمین پر اﷲ کے نمائندے سے تعبیر کیا ہے جو اﷲ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مضبوط کردار کا حامل انسان بنتا ہے اور جب ایسا ہو جائے تو پھر اقبال کے فرمودات کی روشنی میں بندئہ مومن خود کو اللہ کی مرضی میں ڈھالیتا ہے۔ تقویٰ کا لبادہ اوڑھ کر مومن ایسا ہو جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں ویسا دیکھنے لگتی ہیں جو اﷲ کی رضا ہو ، اُس کا ہر عمل ایساعمل بن جاتا ہے جیسا اﷲ چاہتا ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کار ساز
جیسا کہ ''مردِ مسلمان'' میں کہا کہ
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردارمیں، اﷲ کی برہان
یعنی انسان کو مضبوط کردار کا مالک اور اﷲکا فرمانبردار ہونا چاہیے۔
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
کہ انسان کو اتنا طاقتور اور بہادر ہونا چاہیے کہ وہ حق کے لیے کھڑا ہوسکے اور ساتھ ہی اس میں اتنی عاجزی و انکساری کا خمیر ہو کہ کسی کو معاف کرنے کا حوصلہ بھی ہو کیونکہ قائدانہ خصوصیت عاجزی اور عظمت کا بہترین امتزاج ہی تو ہے۔
اگرچہ اقبال نے ایک رہنما یا سپہ سالار کے لیے اپنی شاعری میں مردِ مومن، انسانِ کامل ، مردِ حق، مردِ دانا وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن فوج میں آنے کے بعد ایک مسلمان سپہ سالار کے جو اوصاف اپنی زندگی کے بنیادی اصولوں میں مَیں نے شامل کیے و ہ یہی تین رہنما اصول تھے:
نگہ بلند ، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
اقبال کے فلسفۂ قیادت میں جس مردِ مومن کا بطورِسپہ سالار تذکرہ کیا گیا ہے اس کے اوصاف میں سب سے پہلے بلند نگاہ کا ذکر ہے۔
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
یعنی ایک سپہ سالار کی حیثیت سے اُسے اپنی حکمتِ عملی میں جس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ پیش آتی ہے وہ اس کی دور اندیشی ہے گویا عقاب کی اڑان جتنی بلند ہوگی، شکار کا چنائو اتنا ہی آسان ہوگا۔ دُور اندیشی زمانۂ امن میں نہ صرف ہر طرح کی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے میں معاون ہوتی ہے، بلکہ حکمتِ عملی کے دوران کسی بھی منصوبے کو ہر طرح کی غلطیوں سے پاک بھی کرتی ہے۔لہٰذا ایک کامیاب لیڈر کا اپنے مقصد کاصحیح تعین اوردور رَس نتائج سے آگاہی سب سے ضروری وصف ہے۔
اقبال کے مردِ مومن سپہ سالار کی دوسری بنیادی صفت ''سخن دلنواز'' ہے یعنی ایک فوجی لیڈر کوبات کرنے کا وہ فن بھی آنا چاہیے کہ اُس کے زیرِ کمان تمام افراد اُس کی دی گئی ہدایت پر کامل یقین رکھ کر بھرپور عمل کریں۔
ایک کامیاب سپہ سالار کو چاہیے کہ اس کا اندازِ تکلم اتنا دلنواز ہو کہ اس کی جماعت میں شامل ہر فرد کا دل جیت لے۔پرکشش گفتگو قیادت کا لازمی عنصر ہے۔ گفتگو کے ذریعے ہی سپہ سالار اپنے زیرِ کمان لوگوں کے مسائل اور رجحانات کو جان سکتا ہے۔ جب ایک قائد کا کردار ایسا ہوگا تواس کے زیرِ کمان سپاہی اس کے حکم پر دیوانہ وار دشمن کی صفوں پر ہیبت بن کر ٹوٹیں گے اور اپنے مشن کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
تیسری صفت جو اقبال نے ایک مسلمان سپہ سالار کے لیے ضروری اور اہم ترین قرار دی ہے وہ ''جاں پُرسوز'' ہے ۔ اپنے قافلے کے جاں نثاروں کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے قائد کوجماعت کے ہرفرد کے لیے سچی تڑپ اور محبت کا لازوال جذبہ پیداکرنا ہوگا۔ ایک ایسا دل جو قرآن و سنت کی روشنی سے مکمل طور پر آشنا ہو صرف اُسی دل میں عشق اور جنون کا وہ دیپ روشن رکھ سکتا ہے جو اُسے مومنانہ خوبیوں سے سرفراز رکھے۔
اگر ایک سپہ سالار میں یہ تین اوصاف پائے جائیں کہ بیک وقت اس کے ارادے بلند ، اندازِتکلم شائستہ ، پُروقار اور دل ایمان کی حرارت سے منور ہو تو اقبال کی نظر میں وہ لیڈر نہ صرف ایک کامیاب میرِ کارواں ہے بلکہ ایک ایسا مردِ مومن بھی ہے جس کاتذکرہ ہمیں جابجا اقبال کی شاعری میں ملتا ہے۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں ||
یہ تحریر 184مرتبہ پڑھی گئی۔