قومی و بین الاقوامی ایشوز

اسلامو فوبیا کی نئی لہر اوربھارت کی مسلمان مخالف پالیسیاں 

مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے متاثرین کی یاد میں بین الاقوامی دن  22 اگست کے حوالے سے ایک تحریر 

بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے پیش نظر محبت ،اخوت اوربھائی چارے جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی جگہ اب شدت پسندی اور مذہبی منافرت نے لے لی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں عالمی سطح پر ہونے والے کچھ اہم واقعات پر نظر ڈالی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیاکے مختلف خطوں میں پائے جانے والے سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر اقلیتوں کے افراد کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ مظلومیت کا شکار یہ لوگ یا تو بنیاد پرست کہلاتے ہیں یا پھر انہیں دہشت گردوں کے زمرے میں ڈال دیا جاتاہے۔ مذہبی انتہا پسندی میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہواہے۔ مذہب کے نام پر دنیا بھر کے مسلمان بالخصوص پاکستانی اسی پوری دنیا میں زیر عتاب نظر آتے ہیں۔انہیں مذہب کی بنیاد پر دہشت گرد بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات اور مقدس ہستیوں کی توہین و تضحیک بھی آئے روز دیکھنے کومل رہی ہے۔ گرین پاسپورٹ یا سبز ہلالی پرچم کا ذکر آتے ہی مہذب عالمی دنیا کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ پوری دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے مثبت کردار اور قربانیوں کی معترف ہے مگر دوسری طرف اسے دہشت گرد ملک بھی قرار دیتی ہے۔اگر آپ کو یقین نہ آئے تو بیرون ملک سفر کر کے دیکھ لیجیے۔ ائر پورٹس پر روک کر جامہ تلاشی لینا، حقارت اور تضحیک آمیز رویہ روا رکھنا، سکریننگ ، سکیورٹی چیکس کے نام پر مسلمانوں کی تذلیل ، یہ سب تو اب قصہ ماضی ہوچکا، اب تو اعلانیہ طور پرانہیں مذہبی انتہا پسند کہہ کر دہشت گردی کا استعارہ بنا دیا جاتاہے۔ اسلاموفوبیا کی اس نئی لہر کی بدولت فلسطین ، کشمیر، برما اور بوسنیا سمیت دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہا ں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہے۔    



2014ء میں امریکی تجزیاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ کے سوا دنیا کے تمام خطوں میں مذہب کی بنیاد پر سماجی نفرت اور پابندیوں میں بے پناہ اضافہ ہوا جبکہ حکومتوں اور مخالف عقیدے کے لوگوں کے ہاتھوں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے خلاف تشدد اور امتیاز نے نئی بلندیوں کو چھوا۔رپورٹ میں دنیا کے 198 ممالک میں 2007 ء سے لے کر 2012 ء تک کے حالات کا جائزہ لیا گیاتھا ۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دنیا کے 25 سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں سے پاکستان، مصر، انڈونیشیا، روس اور برما میں لوگوں کو حکومت اور مخالف عقیدے کے گروہوں کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر سب سے زیادہ پابندیوں اور تشدد کا سامنا ہے۔
عالمی سطح پر تشدد اور مذہبی منافرت کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے زیراہتمام 2019ء سے ہر سال 22اگست کو مذہب یا عقیدے کی بنیاد پرتشدد کے متاثرین کی یاد میں بین الاقوامی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد مذہبی منافرت اور تشددکوختم کرکے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اس عالمی دن کو منانے کے بل کی منظوری سے کچھ عرصہ قبل ہی نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 49 سے زائد نمازی شہید ہوئے تھے۔یہ دن مہذب دنیا کو جھنجوڑ کر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 18کی یاد دلاتا ہے جس میں کہا گیا کہ اس دنیا میں ہر شخص کو فکر، ضمیر اور مذہب کی مکمل آزادی کا حق حاصل ہے۔اپنی نوعیت کے اس منفرد عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ سے وابستہ غیر جانب دار ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو انسانی حقوق، مذہب اور عقیدے کی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔ ماہرین کے مطابق مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دینے سے ہی سے یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے دنیا بھر کے ممالک کی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ عدم برداشت کے انسداد اور مذاہب کے پیروکاروں یا غیر مذہبی افراد کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں میں تیزی لائیں کیونکہ مذہب کو بنیادی  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا تشدد کو ہوا دینے کے لیے کسی صورت استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
اگر دیکھا جائے تودنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ مسلمان مذہبی بنیادوں پر تشدد کا شکار ہیں۔ گزشتہ سال امریکی صدر جوبائیڈن نے وائٹ ہاؤس میںایک تقریب کے دوران مسلمانوں کوعید الفطر کی مبارکباددیتے ہوئے ا عتراف کیا تھا کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان تشدد کا شکار ہورہے ہیں۔اس اعتراف کے بعد انھوں نے امریکہ میںپہلے مسلم شخص رشاد حسین کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کا سفیربھی مقرر کیا تھا۔2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر، فلسطین، بوسنیا، بھارت، روہنگیاسمیت دنیا کے 20 ممالک میں گزشتہ پچاس برسوں کے دوران 20لاکھ سے زائد مسلمانوں کو مذہبی بنیاد پر شہید کیا گیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کاخون پانی طرح بہایاجارہا ہے۔مسجد اقصیٰ کا فرش اور مقبوضہ کشمیر کی وادی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوچکی ہے۔ مقبوضہ جموںوکشمیر کی خواتین کو محاصرے اورتلاشی کی کارروائیوں کے بہانے بھارتی فورسز کے ہاتھوں مسلسل اغوا، جنسی تشدد، غیر قانونی حراستوں اور چھیڑ چھاڑ کا سامنارہتا ہے جبکہ بھارتی حکومت نے ''آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ''نام سے ایک کالا قانون بھی بنارکھا ہے جس کے ذریعے جنسی تشدد میں ملوث بھارتی فوجیوں کو سزا سے بچایا جاتاہے۔بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو غیر قانونی حراست میں لینے کے لیے دو کالے قوانین''پبلک سیفٹی ایکٹ'' (PSA)اور''غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کاقانون''(UAPA) بنا رکھے ہیں۔اسی طرح Citizen Amendment Act (CAA) کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس کے تحت National Population Registeration (NPR) پر تیزی سے کام ہو رہا ہے تا کہ قومی سطح پر بھارتی شہریوں کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرتے ہوئے اقلیتوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ یہ قانون بنانے کا مقصد بھارت میں موجود تارکین وطن اور اقلیتوں کے خلاف اقدامات سخت کرنے ہیں۔ ان قوانین کے پیش نظر اصل ٹارگٹ لاکھوں مسلمان ہی ہیں تاکہ انہیں بھارتی شہری ہونے کے اعزاز سے خارج کر کے بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔  
2014ء میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں اقلیتوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سکھ ، عیسائی ،پارسی اور بنگالی سب ہی ان کے نشانے پر ہیں۔ ہندوتوا پالیسیوں پر عمل پیرا بھارتی حکومت نے مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ حکومت کی ایما پر اقلیتوں کی عبادت گاہوں، گھروں ، مساجد اور دیگر املاک کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ انہیں مذہب کی آزادی ہے نہ جینے کا حق۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر معمول کی بات ہے۔ ان تمام اقدامات نے بھارت کے سیکولر ہونے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔درحقیقت بھارت میں تشدد کی پالیسی اپنانے کا مقصد ہندو راشٹریہ کوفروغ دینا ہے۔ 
فروری 2020ء میں دہلی میں حکومتی ایما پر تین روزہ تشدد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا جس میں مسلمان پڑوسیوں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا۔جلائو گھیرائو اورپر تشدد مظاہروں کے دوران 50 معصوم افراد اپنی جان سے گئے۔بھارتی حکومت کی جانب سے جاری مسلمانوں کے خلاف اقدامات میں گائے ذبح کرنے پر مکمل پابندی ہے۔ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا نہیں کری سکتیں جبکہ انہیں نئی عبادت گاہوں کی تعمیر سے بھی روکا جا رہا ہے۔ بابری مسجد کے تاریخی تنازعے پر سپریم کورٹ کا ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دینا انہی اقدامات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر تشدد اور ظلم و ستم کے واقعات اب معمول بن چکا ہے۔ جون 2019ء میں جھاڑکھنڈ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بھارتی سیکولر چہرے سے مکمل نقاب اتار دیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ چند مسلح ہندو تبریز انصاری نامی ایک مسلما ن کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا تے ہوئے اسے اسلام سے تائب ہونے پر مجبور کررہے ہیں جبکہ ایسا نہ کرنے پر اس پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ جے سری رام کا نعرہ لگائے ۔جب تبریز نے ایسا نہ کیا تو اس پر اس قدر وحشیانہ تشدد کیا گیا کہ وہ جاں بحق ہو گیا ۔ اس طرح بزور قوت مذہب چھڑوانے کے کئی واقعات آئے روز سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ 
2019ء میں کورونا وائرس کی وباء پھیلی توبھارتی حکومت نے اس کے پھیلائو کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی۔اسے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔بے شمار من گھڑت ویڈیوز دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان کورونا وائرس کی روک تھام کی حکومتی پالیسیوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ بالآخر ان پر بے جا پابندیاں لگائی گئیں اور بے پناہ تشدد کیا گیا۔ 
 بھارتی شہری دنیا کے دیگرترقی یافتہ ممالک میں بھی ہندوتوا پالیسی پر گامزن ہیں۔ برطانیہ ، امریکہ، نیوزی لینڈ، عرب ممالک اور متعدد یورپی ممالک میں وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نفرت آمیز تقاریر کرتے ہیں تاکہ اسلاموفوبیا کے نام پر دنیا بھر کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا یا جا سکے ۔ اپریل 2020ء میں متحدہ عرب امارات میں کچھ ہندوئوں نے ایک ایسا ہی احتجاجی مظاہر ہ کیا جس میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر بدنام کیا گیا ۔  
حال ہی میں بین الاقوامی امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ وہ بھارت کو مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرے۔ کمیشن نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت پر پابندی عائد کرے تاکہ آئندہ وہ بنیادی انسانی حقوق کی   سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب نہ ہو سکے۔ 
اسلاموفوبیا کو بنیاد بنا کر تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر اگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ وہ بھارت سے مسلمانوں اور اقلیتوں کو نکال باہر کرے گا توایسا کرنا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اس طرح نہ تو بھارت سرکار کو کچھ حاصل ہو گا اور نہ ہی خطے میں امن و امان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
دنیا بھر میں قیام امن کی خاطر ہنگامی بنیادوں پر کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ممالک کو پابند کرے کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور خاص طور پر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے مطابق مذہب یا عقیدے کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔میرے خیال میں غیر قانونی پابندیوں کا خاتمہ، تشدد یا نفرت پر اکسانے والے عوامل ، جبری تبدیلی اور نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگا کر مذہبی منافرت، شدت پسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتے ہوئے ایسے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے جس سے دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگوں کی دل آزاری نہ ہو۔ 
 نریندر مودی کے انتہا پسندانہ عزائم اور پالیسیوں نے دو قومی نظرئیے کی اہمیت، وجود اور سچائی کو ایک مرتبہ پھر سب پر آشکار کر دیا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح  کی انتھک محنت اور جدو جہد کے پیچھے یہی دو قومی نظریہ ایک بے مثال قوت کے طور پر موجود تھا جس کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ایک بار پھر ایسے حالات پیدا ہورہے ہیں جن کو اگر مناسب طریقے سے دانشمندی کے ساتھ کنٹرول نہ کیا گیا تو قریب ہے کہ یہی دو قومی نظریہ دیگر اقلیتی اقوام کے لیے ایک اہم  Point of no return   بن جائے جس کا خاتمہ بھار ت کی ایک اور تقسیم پر ہو؟  


مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور قومی و بین الاقوامی موضوعات پر مضامین لکھتی رہتی ہیں۔
[email protected]
 
 

یہ تحریر 45مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP