گوشہ عساکر

آ گیا ہے کاکول۔۔۔میرے جیسا بلڈی فول

 پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کی کمپنی لائنز میں رات کے وقت اکثر یہ آوازیں سننے کو ملتی ہیں''آگیا ہے کاکول، میرے جیسا بلڈی فول۔۔۔۔۔''یا''ہائے اماں جی، کتھے پھسایا جے۔۔۔۔۔۔۔''   
ایک فوجی آفیسر کی زندگی میں پی ایم اے کی وہی اہمیت ہے جو مچھلی کے لیے پانی کی ہوتی ہے۔ دل میں خیال آیا کہ پی ایم اے میں گزارے ہوئے سنہری لمحات کو قلمبند کیا جائے لیکن کمیشن حاصل کرنے کے 24سال بعد اِن واقعات پر خامہ فرسائی کرنا، جُوئے شیر لانے کے مترادف محسوس ہورہا تھا۔اپنی سروس کے آخری جی ٹو میجر فتح کے پُرزور اصرار پریہ ہمت کرہی بیٹھا۔ 8نومبر1995کا دن مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔مجھے فخر ہے کہ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد ہوں جوپاک فوج میں بھرتی ہوا۔پی ایم اے میں پہنچنے کے بعدایک 17 سال کا بچہ ''جنٹلمین کیڈٹ'' بن جاتا ہے، جس کو بار بار یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ جنٹلمین ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں پی ایم اے گیا تو انتہائی معصوم تھا۔ Joining Instructionsکے مطابق تمام چیزیں خریدیں۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پی ایم اے میں کریں گے کیا؟ خاص طور پر نیکر کا کیا کام؟کیونکہ نیکرتو بچے پہنتے ہیں۔
 قسمت کی ستم ظریفی، میرا تعلق اُن کورسوں میں سے ایک کورس سے ہے جنہوں نے پی ایم اے میں اڑھائی سال گزارے (عام طور پر کیڈٹ دو سال میں پاس آئوٹ ہوتے ہیں)۔ دوسری بات ہے سردی کے موسم میں کاکول کی پہلی ٹرم، جس میں گزشتہ برسوں سے کئی گنا زیادہ سردی پڑی اور 5مرتبہ برف باری ہوئی۔ اب بھی عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ نیکر میں اگر برف پر دو گھنٹے لیٹے رہیں تو بھی بخارکیوں نہیں ہوتا۔ تیسری بات ہے Ragging۔ سنا تھا کہ جیسے ہی نئے کمانڈنٹ صاحب نے کمان سنبھالی تو انہوں نے کہا کہ یہRaggingوغیرہ کچھ نہیں ہوتی،ہر چیز تربیّت کا حصّہ ہے۔ شروع شروع میں بارش ہوتی تو پی ٹی بلاک کے اندر ہوتی اور ہم مزے سے برآمدے میں لیٹے لیٹے ،پی ٹی کرتے لیکن بعد میں تو حالت یکسر بدل گئی۔ بارش یا برف باری کی صورت میں اگرایک پیریڈ ہوتا، تو3میل اور دو پیریڈ ہوتے تو5میل بھگا دیتے۔بھاگ بھاگ کے دماغ خراب ہو گیا۔
زندگی میں ہر پہلی چیز کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ پہلے سٹاف حوالدار نوراﷲ ایک نہایت شفیق انسان تھے جوہر روز چھوٹی سی بات کا بہانہ بنا کر ایک ماں کی طرح روٹھ جاتے اور ہم پلاٹون والے اُن کو منانے کی کاوش میں لگ جاتے۔ ہر درخت کو دیکھ کر اُن کا حکم ہوتا، اِس کے دائیںسے جانا ہے اور بائیں سے واپس آنا ہے،جو سب سے پہلے واپس پہنچے گااُس کی چھُٹی۔۔Ready Shoot۔۔۔۔ہم سب جانتے تھے یہ لالچ دے کر ہمارا اتحاد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اِسی لیے واپسی پر سب ایک اُفقی لائین (Single File) میں واپس آتے، نہ کوئی ایک قدم آگے نہ ایک قدم پیچھے۔ میری نظر میں اخوّت اور بھائی چارے کا عملی مظاہرہ اِس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ اصل چیز تو 'وَن'ہے ' ٹُو تھرِی' کچھ بھی نہیں۔
سیلیوٹنگ ٹیسٹ کی اہمیت مسلّمہ ہے کیونکہ آج بھی سیلیوٹنگ ٹیسٹ پاس کیے بغیرکوئی پہلی ٹرم کا کیڈٹ ،مِڈ ٹرم بریک نہیں جا سکتا۔ سیلیوٹنگ میں ایڈجوٹینٹ نے مجھے فیل کر دیا۔ چونکہ ہماری آدھی سے زیادہ پلاٹون فیل تھی اس لیے سٹاف نوراﷲ دکھی ہو گئے۔ انہوں نے ری ٹیسٹ کے لیے میرا انتخاب کیا۔ پوری بٹالین کے آخر میں مجھے ٹیسٹ کا موقع دوبارہ دیاگیا۔ ایڈجوٹینٹ نے ٹیسٹ کے بعد قریب بلایا اور کہا 
"Your staff is saying that you are good chap, so I 
am passing you only because of your staff".Keep working hard.
پہلے پلاٹون کمانڈر میجر سہیل تھے۔ وہ فرماتے تھے جس چھُٹی والے دن آپ لوگ خود اپنے طور پر شیوکر کے تیار ہو کر بیٹھ گئے تواُس دن آپ صحیح معنوں میں فوجی بن جائو گے۔ یہ اور بات ہے کہ میں 27 سال بعد بھی صحیح فوجی نہیں بن سکا۔ مجھے اُمید ہے میرے جیسے اور بھی بہت سے ہوں گے۔
پہلے سارجنٹ سر طاہرنہایت تخیّلاتی ہونے کے ساتھ ساتھ' ظالم' بھی تھے۔ اُن کی سزائیں بہت ہی مُنفرد اوراذیت ناک ہوتیں۔ جیسے پوری پلاٹون کو بلاک کی چھت پر بٹھا کر باری باری تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹھنڈے اور گرم پانی سے بھری بالٹیاں اُلٹنا۔ اور ہر بالٹی ڈالنے پر بابر کمپنی کی چھت سی۔۔۔۔ سی۔۔۔۔ سی۔۔۔۔کی آوازوں سے گونج اٹھتی۔کبھی ڈانگری میں پتھر ڈلوا کر فرنٹ رُول کرواتے تو کبھی گورکھا پوزیشن میں گردن کا کباڑا نکال دیتے۔ ایک دن تو اُنہوں نے حد کر دی۔ مجھے 25 گلاس پانی پلایا۔ پیاس کی شدّت سے مرنا توسنا تھا، مجھے محسوس ہوا کہ میری موت زیادہ پانی پینے کی بنا پر ہو گی۔ لگ رہا تھا کہ پیٹ پھٹ جائے گا۔
ویسے سینئرز کی مختلف اقسام ہوتی ہیں چندتو اپنی انگریزی بہتر کرنے کی پریکٹس کرتے ہیں۔ سر سجاد  انگریزی کے ایسے میں ایسے الفاظ استعمال کرتے کہ ہر کوئی کمرے میں واپس جاکر ڈکشنری دیکھتا کہ انہوں نے کہا کیا تھا؟آج تک nincompoopianکا مطلب ڈکشنری میں نہیں ملا۔ ہم سوچتے تھے کہ سینئر ایسے نرم دل کیوں نہیں ہوتے کہ سزا کے لیے وہ ایک کونے میں لے جاتے اور سزا یہ  ہوکہ َون پرآنکھیں بند اورٹُو پر آنکھیں کھولنا،لیکن وَن ٹُو اُونچا بولنا ہے۔



دوسرے پلاٹون کمانڈر میجر منظر تھے جوموت کے منظر کے نام سے مشہور تھے(پی ایم اے میں ہر بندے کاپی ایم اے نام ہوتاہے، چاہے وہ آفیسرہو، سٹاف ہو یا کوئی جی سی اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ نام اُس کی شخصیت سے سو فیصد مطابقت رکھتا ہے)۔پی ایم اے کے بعد اُن سے دوبارہ ملاقات تقریباً 25 سال بعد ہوئی، جب وہ بریگیڈیئرتھے اوراپنی ریٹائرمنٹ کے قریب سونمیانی سمندر کے کنارے پر بیٹھ کرجب اُنہوں نے cribbingکی،خوشی توہوئی لیکن وقت کے بے رحم ہونے کا احساس بھی شدت سے ہوا۔
اُن کے بعد کیپٹن آفتاب پلاٹون کمانڈر بنے۔ ایک پیپر میں مجھے کچھ سوالوں کے جواب نہیں آتے تھے تو میں نے مناسب جانا کہ پرچہ خالی چھوڑ دیا جائے، جب پرچہ جمع کروایا تو انہوں نے پوچھا، خالی کیوں چھوڑ دیئے کچھ جوابات؟ میں بولا سر مجھے جواب نہیں آتے۔۔۔۔ وہ بولے۔۔۔۔۔۔
  .Can't you make a bloody..... tukka ?پوری آرمی سروس میں اس سنہری اصول پر عمل کیا۔ یقین جانئے ہمیشہ فائدہ ہوا۔تیسری ٹرم میں ہمیں معلوم ہوا کہ اگلا سال ہم تھرڈ پاک بٹالین (المشہور Jurassic Park)میں گزاریں گے۔ انہوں نے ہمیں اتنا رگڑا لگایا کہ سزا دے دے کر سٹافوں اور سی ایس ایم حنیف قادرتک کوہماری حالتِ زار پر ترس آگیا۔ بعد میں ہم سے ملنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ آپ لوگ تھرڈپاک میں شفٹ ہو رہے تھے تو میں نے سوچا! کیوں نہ آپکو اتنا تنگ کروں کہ آپ لوگ وہاں جا کر سکون اور چین کا سانس لو۔
پی ایم اے سے پہلے یہ مقولہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ "نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے"۔ویسے تو کلاس میں سونا، سونے کی وجہ سے سحری ترک کرنا اور پورا ویک اینڈ سونا، پی ایم اے میں عام سی بات ہے لیکن سخت برف باری کے موسم میں رینجز پر بڑے ہتھیاروں کی فائرنگ کے مظاہرے کے دوران سونا، یرموک میں چلتے چلتے سونا اور  LMG(لائیٹ مشین گن) اٹھائے اٹھائے سو جانا، وہ اعزازات ہیں جومیرے علاوہ کوئی حاصل نہیں کر سکا۔ جو ہر کیڈٹ کبھی نہ کبھی ضرور حاصل کرتا ہے۔
تیسری ٹرم میں بَنک مارنے کی غلط عادت پڑگئی۔ جب پلاٹون میٹس کو اِس بارے میں علم ہوا تو ایک دن اُنہوں نے مجھے کہا کہ پلاٹون کمانڈر بلا رہے ہیں کہ بَنک کیوں مارا۔۔جب میں وردی پہن کر وہا ں جانے لگا تو مجھے روک لیا، اور کہنے لگے کہ آئندہ ایسا نہ کرنا، اگر دوبارہ ایسا کیا تو معاف نہیں کریں گے۔ یہ ہوتا ہے پلاٹون سپرٹ، جو ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ سیدھا راستہ بھی دکھاتے ہیں۔
حسین اکبر سب سے منفرد پلاٹون میٹ تھا۔ ہمیشہ مجھے کہتا!یار2یا3 دفعہ relegateبھی ہو جائوں تو خیر ہے بس کسی طرح پاس آئوٹ ہو جائوں۔ فائنل ٹرم کے آخر میں، میں نے ایک بڑا سا چارٹ بنایا۔ اُس میں تمام لوگوں کی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں چسپاں کیں جس میں سب گنجے لگ رہے تھے۔ حسین نے مجھے بالوں والی رنگین تصویر دی۔ میں نے کہا! حسین صرفrelegatesکی تصویریں رنگین ہیں۔ وہ بولا یار تمھارے چارٹ کے لیے ہم relegate بھی ہو جائیں تو خیر ہے۔ اللّٰہ کی کرنی۔۔۔۔پاسنگ آئوٹ سے نو دن پہلے واقعیrelegate ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ اچھی بات کرنی چاہیے، ہو سکتا ہے وہ وقت قبولیت کا ہو۔



آخری ٹرم میں کافی سردی پڑی۔ میں ہیٹر کو بیڈ کے نیچے رکھ کر سوتاتھا۔ ایک رات دھوئیں سے آنکھ کُھلی تو معلوم ہوا کہ رضائی کو آگ لگی ہوئی ہے۔ رضائی کو برآمدے میں لے گیا اورآگ بجھائی۔ اِس بات کو یقینی بنایاکہ رضائی مکمل طور پر گیلی ہو جائے اور دوبارہ آگ نہ لگے۔ پھر رضائی کو سری لنکن بیرک کی چھت پر پھینک دیا۔ اُمید ہے آج بھی اُس رضائی کے چیتھڑے وہیں موجود ہوں گے۔
آخری ٹرم میں ہمارے سٹاف حوالدار میاں خان تھے۔ ایک دن وہ رات کو punishmentپریڈمنعقد کروانے آئے،کسی نے ایک بلی کی گردن میں میاں خان کا ٹیگ لگا دیا۔ وہ بلی بھی بڑی ڈھیٹ تھی، ڈیوٹی آفیسر کے سامنے جا کر بیٹھ گئی اور وہ بھی عین پریڈسٹیٹ کے وقت اورلگی میائوں میائوں کرنے ۔ڈیوٹی آفیسر بھی ہنس پڑے۔
ویسے تو پی ایم اے کے ساتھ اتنی یادیں وابستہ ہیں کہ جن کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ لیکن وہ چندباتیں جو چاہ کر بھی کبھی بھول نہیں سکتا۔۔۔۔۔منگل نالہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ دریائے نیل کا بھائی ہے، کاکول رینجزپر خیمہ زن  ہونے کے دوران شدید سردی کو ختم کرنے کے لیے رات بھر مورچے کھودنا، فوٹو گرافی کلب میں ہمیشہ سونا، ہر آئوٹ ڈور ایکسرسائز میں کمپنی ایڈ کا انتظارکرنا، صالح ستی جس کو ہر کوئی میرا جڑواں بھائی سمجھتا، فائنل ٹرم میں'ایس اے پی'
 (Self Actuallization Programme) کے دوران کلاس میں سموسے اور کولڈ ڈرنک وغیرہ مزے لے لے کر اُڑانا،اسالٹ کورس میں گولڈ میڈل حاصل کرنا، restrictionsکے دوران بگل کالز، فزکس کی کلاس میں ناشتہ، Extra duty (ED) کے بعد کا احساس جیسے ٹانگیں جسم کے ساتھ ہی نہیں ، شطّ العرب جیسا گندہ نالہ جس میں سزا کے بعد جسم پر کیڑے چپک جاتے، سی ایچ ایم (کمپنی حوالدار میجر) کرتار سنگھ (اصل نام اب یاد نہیں) کا شارٹ کٹ کے مجرموں کو پکڑنے کے لیے جھاڑیوں میں گھات لگانا، ہمارے ایک کورس میٹ المعروف بھنڈیاں کا اپنی امی کی بھنڈیوں کو یاد کرنا، اظہر کا ہر دفعہ سزا سے پہلے اپنے چہرے کی سمت اشارہ کرنا اور کہنا"Sir! Stiches"، ایک اور کورس میٹ کی disposableجرابیں جو مسلسل 3 ہفتے استعمال کے بعد پھینک دی جاتیں، سکردو سے تعلق ہونے کے باوجودہمارے ایک کورس میٹ کا باقیوں کی نسبت زیادہ سردی محسوس کرنااور جب4 گھنٹے سزا کے بعد سارجنٹ پلاٹون کو چھوڑتا کہ اب اتنے بجے دوبارہ فالن ہو گا تو ایک کورس میٹ المعروف پھُرتی کی آواز آتی۔۔۔'Sir!!! which dress?'  وغیرہ۔
پی ایم اے ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد پاکستان آرمی کے افسران نے اپنی ہمت اور قابلیت کا لوہا منوایا۔۔۔سلام پی ایم اے۔ ۔۔نَصْرمِّنَ اﷲِ وَفَتْح قَرِیْب ۔ ||


لیفٹیننٹ کرنل عمارمتیٰ الحسنین اعوان کا تعلق پاکستان آرمی ائیر ڈیفنس سے ہے۔ انہوں نے مارچ1998میں کمیشن حاصل کیا۔
 [email protected]


 

یہ تحریر 318مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP