قومی و بین الاقوامی ایشوز

شدت پسندی اور باہمی نفاق کا خاتمہ کیوں کر

اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو جس مرتبے ، شرف اور اعزاز سے نوازا ہے، فرشتے اس مقام سے محروم ہیں ۔ جب کچھ نہیں تھا تو خدا تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تو خدا ہوگا ۔حُسنِ کائنات،اس کے خزینے اور رعنائی ابنِ آدم کے لیے ہے ۔ رب اللعالمین نے انسان کو تمام نعمتوں سے سرفراز کیا ۔ کائنات کے وجود پر جو پیرہن ہے اس میں انسان کی تمام ضروریات موجود ہیں ۔ تخلیق آدم کے بعد فرشتوں نے انسان کو سجدہ کیا، اسے وہ اعزاز و امتیاز بخشا گیا کہ فرشتے بھی متحیر رہ گئے ۔ ربِ کائنات نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا '' اور بلا شبہ ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم بخشی ہے۔ ''
 انسان اس دنیا میں اللہ کانائب، نمائندہ ، خلیفہ ، ترجمان ، زبان اور ہاتھ کا درجہ رکھتا ہے ۔ نیابتِ الہٰی بہت بڑا شرف ہے ۔ انسان کے لیے منصب خلافت حقیقی کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے ۔ مولا کریم نے انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام بھیجے جنھوں نے انسان کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رشد و ہدایت کا راستہ دکھایا۔ عقل و شعور کی دولت سے مالا مال کر کے انسان کو تسخیرِ کائنات کا حکم دیا ۔ کائنات کے سربستہ راز افشا کرنے کے لیے انسان کو توانائی بخشی ۔ 
نظامِ ہستی چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحیفے اور چار آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ۔ علم و آگہی کی روشنی سے انسان کے اذہان منور کر دیے ۔ ابنیاء کرام اور خلفائے راشدین نے توحید ، رسالت ، مساوات ، بھائی چارے ، اخوت و مروت ، عدل و انصاف ، حق و صداقت ، امن و سلامتی ، صلح و آشتی ، ایثار و قربانی ، عفو و در گزر ، جیو اور جینے دو ، امانت و دیانت ،رواداری و معاشرت اور احترام انسانیت کا پیغام دیا۔ کائنات کو مرکزِ مہر و وفا بنانے کے لیے ایسی جماعتیں منظر عام پر آئیں جنھوں نے انسانوں کو نیک کاموں کی تلقین کی ۔ برائیوں سے روکنے کا فریضہ انجام دیا۔  انسان نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے تسخیرِکائنات کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کہتے ہیں: 
بے ذوق اگرچہ نہیں ہے فطرت 
جو اُس سے نہ ہو سکا وہ تُو کر
 انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ربِ کائنات نے اپنی آخری کتاب ''قرآن مجید '' اپنے پیارے محبوب حُسنِ کائناتۖ پر نازل فرمائی ۔ تاجدار ختم نبوت ، سرور کائنات ، مقصود کائنات ، محمد مصطفی ۖ نے قرآن پاک کے ایک اک لفظ کی عملی تشریح کر دکھائی ۔ آپ ۖ قرآن پاک سے سانس لیتے تھے ۔ آپ ۖکی حیات ِ طیبہ حُسن و اخلاق کا مرقع ہے ۔ قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی ، سمجھی اورحفظ کرنے والی کتاب ہے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ کی جامع الصفات ذات پر اپنا دین مکمل کر دیا ۔ حجة الوداع کے موقع پر رحمت للعالمین ، ختم المرسلین، محمد عربیۖ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ انصاف ، عدل،اعتدال ، صبر، استقامت،برداشت، بھائی چارے،امن و سلامتی، انسانی مساوات ، تقویٰ، محبت اور عالمگیر اخوت کا ایسا چارٹر ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم عالمِ اسلام کو خوش حال زندگی کی تسبیح میں پرو سکتے ہیں۔ 
خلفائے راشدین نے تاجدار کائنات ، ختمی المرتبت ، پیکر ِ صدق و صفاامام الانبیاء محمد مصطفی ۖ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اپنا فریضہ انجام دیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ غیر مسلم قوتوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ۔ مادی قوتوں نے دولت کے بل بوتے پر انسان کو راہ راست سے ہٹا دیا ۔ انسان مشینی سانچے میں ڈھل گیا ۔ احساس و مروت کچلے گئے ، انسان نے دوسرے انسانوں کے حقوق کی لاش کے راکٹوں پر سفر شروع کر دیا ۔ سورج کی شعاعوں کو تسخیر کرنے والا اپنی ذات کے اندھیروں میں گم ہوگیا ۔ جب انسان انسانیت کے مرتبے سے گرتا ہے تو شیطانیت اسے دبوچ لیتی ہے۔ جس نے انسانیت کی لاج رکھنا تھی وہ انسانیت کی تذلیل کرنے لگا ۔ انسان اپنے مرتبہ سے نیچے سرکنے لگا اور اس حد تک پہنچ گیا کہ وہ انسانیت کے لیے خطرہ بننے لگا ۔ انسان نے انسانیت کے ساتھ وہ سفاکانہ کھیل کھیلا کہ انسانیت شرمانے لگی ۔
 انسان نے لالچ ، حرص ، طمع اور خود غرضی کے بل بوتے پر ہلاکو خان او رچنگیز خان کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آج پوری دنیا میں تحمل و برداشت اور بردباری ناپید ہو چکی ہے ۔ یورپ کی ترقی نے انسانیت کو سسکیاں لینے پر مجبورکر دیا ہے ۔ اخلاقیات سے عاری معاشرے آپس میں دست و گریباں ہو رہے ہیں ۔ماضی کے جھروکوں میں پہلی جنگِ عظیم (18۔ 1914ء )، دوسری جنگِ عظیم (1939- 45ء) کی تباہ کاریاں در اصل ہوسِ حکمرانی اور شدت پسندی کی آئینہ دارہیں۔ 11ستمبر 2001ء کو امریکن ٹریڈ سنٹر پر حملہ بھی مفاد پرستی اور شدت انگیزی کا شاخسانہ ثابت ہوا۔ عصر حاضر میں شدت پسندی ایک خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے ۔ دہشت گردی ، انسانیت کا قتل ، وحشت اور حکمرانی کے سائے سنگین ہو تے جا رہے ہیں ۔ شدت پسندی کی وجہ سے پوری دنیا  بدامنی کا شکار ہے ۔ بارود کے بل بوتے پر انسان دوسرے انسان پر حکمرانی کر رہا ہے ۔مذہبی ، لسانی ،علاقائی، سیاسی اور فرقہ واریت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے ۔ فروعی اختلافات روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں ۔ دنیا کے تمام مذاہب امن ، سلامتی ، حلم و بردباری اور احترام انسانیت کا درس دیتے ہیں لیکن شدت پسندی نے عالمی امن بھی تباہ کر دیا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں خود کشی کا رجحان بھی حیرت انگیز حد تک پہنچ چکا ہے ۔ اپنے نظریات دوسروں پر بزور شمشیر نافذ کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔راء (RAW)، موساد ، شیو سینا، فری میسن اور ایسی ہی تنظیموں نے شدت پسندی کے پس منظر میں دنیا کا امن تباہ کر دیا ہے ۔ بھارت میں مسلم کُش فسادات اس کی بہت بڑی مثال ہے ۔ اسی شدت پسندی نے قناعت ، محبت اور اخوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ انسانی تشخص کا دارو مدار تحمل و برداشت اور بردباری میں مضمر ہے ۔ اِن جذبات سے عاری ہو کر ہم اخلاقی طور پر غرق ہو رہے ہیں ۔ ہوسِ ملک گیری شدت پسندی کی وبا کا حصہ ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک دوسرے علاقوں پر فوج کشی کر کے اپنے ہزارو ں فوجیوں اور شہریوں کا خون کر چکے ہیں ۔ دنیا کے کئی ایک ممالک تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی حکمت عملی اپنا چکے ہیں ۔ افغانستان ، کشمیر ، فلسطین ، بوسنیا ، عراق ، ایران ، کویت ، شام ، لبنان اور کئی ایک ممالک میں در اندازی کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد اندرونی اور بیرونی شدت پسندوں نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ 
 باہمی نفاق درحقیقت شد ت پسندی کی وجہ سے رونما ہو رہا ہے ۔ انسانی زندگی اعتدال سے عبارت ہے ۔ جب انسان اپنی حدودو قیود سے باہر نکلتا ہے تو اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمارے چاروں طرف آج نفرتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں ۔ ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے قوت کا استعمال جاری ہے ۔ دہشت گردی کے پس منظر میں شدت پسندی کا ر فرما ہے ۔ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔  مذہب او رغیرت کے نام پر آج انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے ۔ ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ '' جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا ، جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔'' پاکستان میں سیاسی ، سماجی ، اعلیٰ افسران اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی شہادت بھی ہمارے لیے سوالیہ نشان ہے۔ 
بھارتی متشدد قوتوں نے جنت نظیر کشمیر کو شعلوں میں بدل دیا ہے ۔ خون آشام طوفان نے ایک طرف بھارت کا چہرہ بے نقاب کیا ہے تو دوسری طرف کشمیریوں کے صبر و تحمل اور برداشت کی عکاسی بھی کی ہے ۔ پاکستان کا قیام ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی بصیرت اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کا ثمر ہے ۔ اسلام دین فطرت ہے اس لیے انسانی فکر کی انتہا پسندیوں کے اعتدالی راستے پر چلتا ہے ۔ زندگی کا کوئی پہلو ہو سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، علمی ، ادبی ، اسلام اعتدال کی راہ دکھاتا ہے ۔ آج ہم حصولِ آزادی کے مقاصد بھول چکے ہیں ۔ سائنسی اور مادی ترقی کے باوجود ہم روحانی و قلبی سکون سے محروم ہیں ۔ صوبائی تعصب سمِ قاتل بن چکا ہے ۔ ذاتی مفادات کے لیے ملکی مفادات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ لسانی اور مذہبی گروہ بندی نے نفاق میں اضافہ کیا ہے ۔ اس شدت پسندی نے ملکی سالمیت اور بقا ء کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔  مذہبی شدت پسندی نے فرقہ واریت کی چنگاریاں سلگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شدت پسندوں نے کئی گھروں کے چراغ گل کر دیے ہیں ۔ بم دھماکوں ، بارودی سرنگوں اور فائرنگ سے سکیورٹی فورسز کے سیکڑوں جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ مذہبی جلوسوں پر فائرنگ کرنے والے کسی طرح بھی مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں ۔بہت سے مذہبی سکالرز فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔مساجد ، امام بارگاہوں، خانقاہوں ،درگاہوں اور دیگر مذہبی مراکز پر ہونے والے حملوں کے پیچھے شدت پسندی کے محرکات ہیں۔ یہ سلسلہ دھیرے دھیرے گھروں تک آپہنچا ہے ۔ اعتدال ، برداشت اور صبر و تحمل کے فقدان سے معمولی باتوں پر قتل و غارت عام ہو چکا ہے ۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے متشدد کارکنان قوانین کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے ۔ منافقت ، جھوٹ ، دھوکہ اور پراپیگنڈہ آج سوشل میڈیا کا حصہ بن چکے ہیں۔ فروعی اختلافات شدت پکڑ رہے ہیں۔ دور مت جایے نوجوان پسند کی شادی کے لیے جس شدت پسندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اُس سے بہت سے خاندان تباہ ہو چکے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے لیکن اُن کے پاس کوئی خاص لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ کئی جماعتوں کا آلۂ کار بن کر مختلف منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو چکے ہیں۔ منشیات، رشوت ، اقرباء پروری ، کرپشن، ذاتی مفادات اورفرقہ پرستی نے نوجوانوں کو فرائض سے غافل کر دیا ہے۔ انسدادِ کرپشن کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہم ذہنی کرپشن کا شکار ہیں۔ ہوسِ زر میں مبتلا رہنے والوں کا انجام ہم سب کے سامنے ہے۔ مادیت میں اُلجھے ہوئے سرمایہ دار جز وقتی سکون کے پیچھے اپنا ذہنی اور قلبی اطمینان کھو رہے ہیں۔ اُنھیں اپنی معاشرتی تذلیل کا احساس تک نہیں ہے۔ سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی وجہ سے کچھ لوگ امیر تو ہو گئے ہیں لیکن پاکستان کو غربت اور نفاق میں دھکیل دیا ہے ۔ 
پاکستان کے لیے فلاح و بہبود کا راستہ اجتماعیت میں مضمر ہے لیکن جھوٹی انا اور ضد نے معاشرے میں عدم استحکام پیدا کیا ہے ۔  دہشت گردی ، بے اطمینانی ، خوف ، بے یقینی، عدم تحفظ اورا عتدال کی کمی نے معاشرتی استحکام پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ اسلام ہمیں صبر و تحمل اور برداشت کا درس دیتا ہے ۔مقامِ افسوس ہے گزشتہ چند سال سے ہمارے ملک میں جلسے ، جلوسوں ، ہڑتالوں ، ریلیوں اوردھرنوں کے دوران پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ کبھی ڈاکٹر اور وکلاء دست و گریباں نظر آتے ہیں تو کبھی پولیس اور اہل قانون آمنے سامنے آجاتے ہیں۔ سڑکوں اور خصوصاً موٹر وے پر مختلف تنظیمیں پُر تشدد احتجاج میں مصروف رہتی ہیں۔مختلف تنظیموں کے پریشر گروپ قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ انسانی جانوں کی پروا تک نہیں کرتے اوریہ سب کچھ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہے ۔ 
 برعظیم پاک و ہند میں فرقہ واریت کا جو بیج انگریز حکمرانوں نے بویا تھا آج وہ نفرت کا پودا بن چکا ہے ۔ نفرت کی اس شدت نے عدم تعاون کو ہوا دی ہے ۔ علاقہ پرستی سے خود غرضی میں اضافہ ہوا ہے۔ قومی ہم آہنگی کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے ۔ شدت پسندی اور نفاق کے خاتمہ کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ میڈیا ، علماء اور اساتذہ کرام کا فرض ہے کہ وہ نفاق کے خلاف اپنا فریضہ ادا کریں۔ ہم ایک مکمل ضابطۂ حیات رکھتے ہیں ، اسلام صبر و رضا اور صبر و تحمل کی دعوت دیتاہے ۔یہی وجہ ہے اعتدال پسندی ہمارا آئین ہے ۔ ذہنی، فکری اور عملی روشن خیالی کے بل بوتے پر ہم شدت پسندی کا گلا دبا سکتے ہیں۔ دنیا کی سب بڑی عدالت ہمارا ضمیر ہے ، اسے جگانے کے لیے دانشوروں کو میدانِ عمل میں آنا ہوگا۔ دائیں ہاتھ میں کتاب اور بائیں ہاتھ میں مشاہدہ ہمیں اعتدال کا راستہ دکھا سکتاہے۔ پاکستان میں اچھا سوچنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ اسلام کی روح اعتدال میں ہے ۔ متوازن معاشرے کی تشکیل ایک اچھے تعلیمی نظام سے ہی ہو سکتی ہے ۔ ہمیں تعلیم سے کہیں زیادہ تربیت کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے تربیت کا جو معیار ہمارے لیے تجویز کیا ہے اُسے عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کی قوتِ عمل سے فائدہ اُٹھانا بہت ضروری ہے ۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے ، آئین جامع ہے ۔ اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے ۔ عدالتوں کا تقدس اور فوری انصاف مہیا کرنے سے ہم شدت پسندی پر قابو پا سکتے ہیں۔ عسکری قوتیں سرحدی دفاع کے علاوہ ارضی و سماوی تغیر میں عوام الناس کی خدمت کر کے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ شدت پسندی اور نفاق پیدا کرنے والوں کی سرکوبی کے لیے ہمیں اپنے مفادات قومی مفادات پر قربان کرنا ہوں گے۔ ایک مستحکم اور اسلامی روایات سے مزین پاکستان کے لیے ہمیں اپنا آج کل کے لیے قربان کرنا ہو گا۔ اِسی طرح نفاق کا خاتمہ اعتدال ، صبر و تحمل ، برداشت، انسان دوستی اور محبت پر عمل پیرا ہونے میں ممکن ہے۔ دنیا میں بڑا کام کرنا مشکل ضرور ہوتاہے لیکن ناممکن نہیں ۔ شدت پسندی اور نفاق کا خاتمہ رفیع الشان بصیرت سے ممکن ہے ۔ تعلیمی اداروں ، دینی مدارس اور میڈیا پر مساوات ، انصاف ، رواداری اور صبر و تحمل کے حوالے سے پُر اثر گفت گو کا اہتمام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ہماری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے ۔ پاکستانیوں میں ملک کے ربط و ضبط کا احساس موجزن ہے ۔ آج تعمیرِ وطن کے لیے اُسی جذبے کی ضرورت ہے جو تحریکِ پاکستان اور 1965ء کی جنگ میں دیکھنے کو ملا تھا۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے دفاع اور اندرونی شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے ہمیں مکانوں سے ایوانوں تک جذبۂ حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنا عقیدہ چھوڑیے مت اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑیے مت پر عمل کرنا بہت ضروری ہے ۔ قانون کی بالا دستی ، فوری انصاف، سماجی مساوات اور جرائم کا قلع قمع مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے ۔ سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا جس میں تمام تنظیموں کے سربراہان نے دستخط بھی کیے۔ اُسے سرد خانے سے نکالنا بہت ضروری ہے ۔ شدت پسندی اور نفاق کے خلاف عملی اقدامات کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کوآہنی اقدامات  کو برداشت کرنا ہوگا۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اہلِ وطن پاکستان سے نفاق کو جڑوں سے اُکھاڑ پھینکیں گے۔ ||


مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]


 

یہ تحریر 117مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP