قدرتی آفات

ایک گمنام مگر حقیقی ہیرو کی داستان

سیلاب زدہ علاقے میں خاندان کے بچھڑے ہوئے افراد کو ملانے کی سچی کہانی سیلاب چونکہ پہاڑوں سے شروع ہوا تھا سو ہمیں سیلاب کے ساتھ ساتھ بہنا تھا۔
کسی بھی نئے فضائی مستقر پر ہمیں اپنا شمال سیدھا کرنے میں بھی دس پندرہ دن لگتے ہیں۔ جب کہ ریسکیو مشن کے علاقوں میں ہر لحظہ نئی جگہ پر چند منٹوں میں ایریا اورنٹیشن ممکن بنانا پائلٹ کے لیے کسی جوکھم سے کم نہیں ہوتا ۔ کون سی سمت سے آ رہے ہیں، کس سمت کو پانی بہہ رہا ہے۔ کہاں آبادی ہے، کہاں فقط کھنڈر ہیں، ٹیلہ کہاں ہے اور سڑک کہاں ؟یہ سب فوراً سمجھنا اور اگر بجلی کے کھمبے موجود ہیں تو بچ بچا کر نیچے کہیں اترنا یا فقط ہیلی کاپٹرکے گھٹنے ٹکا کر (بسا اوقات ہیلی کی ناک کی ٹیک کا آسرا) متاثرین کو ریسکیو کرنا وہ کام ہے جس کا مداوا دنیا کی کوئی تنخواہ نہیں کر سکتی ۔ ہاں مداوا ہو رہا تھا متاثرین سے ملنے والی دعائیں ہی میرا مداوا تھیں۔ اور وہ دعائیں ایسی قیمتی ہیں کہ میں اس لکھت میں اپنا نام لکھوا کر کسی قسم کی شہرت سے اس مداوے کو گدلا نہیں کر سکتا۔



شمالی علاقہ جات میں ریسکیو مشنز مکمل ہوئے ہی تھے کہ ریلے نے خیبر پختونخوا میں حاضری لگوانی شروع کر دی۔
رن وے پر کھڑے ایم آئی 17 کی ایال کو تھپتھپایا اور ہیلی کی مہار اپنی مرضی سے موڑ کاٹتے ریلے کے اوپر اوپر زیریں  علاقوں کو موڑ دی۔
وہاں آبادی زیادہ تھی سو کچھ ریسکیو مشنز کیے تو ریلے نے ملتان میں اپنی تباہی کی للکار بڑھا دی۔
علی الصبح ملتان روانہ ہوئے۔ راستے ہی میں کچھ آبادیوں کو ریسکیو کیا اور انہیں اتارنے کے وقفے میں اپنا اور جہاز کا تیل پانی پورا کیا اور لگ گئے ارد گرد سے آئی آوازوں پر پہنچنے میں۔ان علاقوں میں زمینی وسائل نسبتاً بہتر تھے مزید کمک یہاں پہنچ چکی تھی۔ اتنے میں پانی کا خطرناک ریلا سندھ کو سمندر بنانے پر تلنے لگا۔
ایس او پی اور ایل او پی کا اختلاف پائلٹ کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے جہاں اس نے موجود و میسر میں سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر یا لوکل آپریٹنگ پروسیجر میں سے کسی ایک کا چناؤ کرنا ہوتا ہے۔پائلٹ کی ساری زندگی ایسے ہی اچانک، تند اور مثبت فیصلوں سے عبارت ہوتی ہے۔
سکھر کے آس  پاس ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں میرا آہنی گھوڑا بنا چوں چراں منہمک تھا اور ہر بار زمین چھوتے ہی اپنی پیٹھ پر میری تھپکی لینا کبھی نہ بھولتا تھا۔
جیکب آباد کی طرف حالات بہت خراب تھے ، ہیلی اس طرف موڑا تو یوں لگا جیسے ہم وسیع و عریض سمندر پر سفر کر رہے ہیں ، کسی قسم کا حادثہ ہمیں موت اور گمنامی عطا کرنے کے سوا کچھ نہ کر سکے گا۔
یہ سہ پہر کا وقت تھا۔ حکم تھا کہ سکھر مغرب سے قبل پہنچنا ہے مگر جیکب آباد سے مغرب میں ایک ٹیلہ ہلال کی شکل کا عوام سے بھرا ہے ،انہیں ریسکیو کرنا ہے۔
پیٹ خالی ہے یا بھرا، متاثرین کی حالت دیکھ کر کسی شے کا ہوش ہی نہ رہتا تھا ۔ بھوک محسوس فقط تب ہوتی جب میں ہیلی کو گھما کر نیچے لاتا تو خالی پیٹ متذبذب ہونے لگتا تھا۔
ٹیلے سے تمام افراد ریسکیو کر کے محفوظ مقام تک ڈراپ کرتے رہے۔ آخری جتھے کو ہیلی سے اٹھایا اور سوچا انہیں کہیں ڈراپ کرنے کی بجائے مستقر پر لے جایا جائے کہ وقت کم ہے، وہاں سے سرکاری گاڑیاں انہیں آگے پہنچا دیں گی اور میں بھی اپنے آہنی گھوڑے سمیت سخت سرکاری احکامات کے عین مطابق مغرب سے پہلے پہلے سکھر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہو جاؤں گا۔
ہیلی کو نیچے اتارا تو مجھ سے پہلے ایک بزرگ بھاگ کر نیچے اترا اور نزدیک کھڑے صاف ستھری وردی والے ایک جوان کو کچھ کہنے لگا۔
میں نے پروپیلر رکنے کا انتظار کیا تو تب تک وہ دو چار افسران کے پاس جا چکا تھا۔
crew staff  ہیلی کی ضروری انسپکشن اور تیل پانی ڈلوا رہا تھا۔ میں ریسٹ روم گیا ۔عصر کی جاتی نماز ادا کرنے کی نیت کرنے کی لگا  تو مجھے محسوس ہوا کہ شیشے کے باہر بابا غیر روایتی اذان دے رہا ہے۔
مجھے نماز روکنا پڑی اور بابے کو باہر نکل کر پاس آنے کا اشارہ کیا اور خود بھی باہر نکل گیا۔
وہ شاید اسی انتظار میں تھا ۔ فوراً بھاگا ہوا آیا اور سہمے ہوئے انداز میں بتایا کہ سائیں کوئی ہماری بات پہ یقین نہیں کر رہا مگر میری بیوی اور بیٹی اسی ٹیلے پہ رہ گئے۔
مجھے موسمی حالات کا علم تھا کہ ٹیلے نے دو تین گھنٹے میں مکمل ڈوب جانا تھا سو میں نے اس سے دوبارہ استفسار کیا تو اس نے سادھوں کی طرح  ہاتھ باندھتے ہوئے نہایت لجاجت سے بتایا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔
میرے پاس دو آپشن تھے 
ایس او پی کا حکم کہ مغرب سے پہلے سکھر بڑے صاحب کو لازمی رپورٹ 
اور ایل او پی (لوکل آرڈر پروسیجر )یعنی موقع محل کے مطابق بہترین فیصلہ کرنا ۔
میں نے سوچا جب نماز عصر پر کمپرومائز کر لیا تو بڑے صاحب کا حکم بھی اس اذان پہ ٹالا جا سکتا ہے۔
میں نے کو پائلٹ کو اعتماد میں لیا، ائیر کریو کو پانچ منٹ دیے، بابے کو ساتھ لیا اور براق کی ایال تھپتھپا کر اذان کی جوابی نماز میں اڑنے لگا۔ کچھ ہی دیر میںوہاںجا پہنچا ۔
ایریا اورنٹیشن کو سیدھا کر کے ٹیلے کے دو چکر لگا دیے مگر کوئی ذی روح نظر نہ پڑا 
ہمیں مغرب کے اندھیرے کی خوشبو باقاعدہ محسوس ہو چکی تھی۔
میں نے بابے کو کو پائلٹ کی جگہ پاس بلا کر سرزنش سے پوچھا کہ بابا تم تو کہتے تھے وہ وہیں ہوں گے۔
بابا پہلے ہی بہت شرمسار تھا فوراً  کہنے لگا صاحب واپس چلو ۔
میں نے دل پر گھونسا کھایا اور اسے وہیں پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھنے کا کہا اور ایک اور چکر لگا لیا۔
اس بار بابے نے بھی پوری توجہ سے دیکھا اور کچھ نظر نہ آیا ۔ تو کہنے لگا صاحب مجھے معاف کر دیں واپس چلیں وہ شاید بہہ گئی ہیں ۔
میرے ساتھ ساتھ ہیلی نے بھی مایوسی کی ہونک بھری اور میں نے واپسی کے لیے ہیلی کا ٹرن لیا ۔
ابھی مڑا ہی تھا کہ کریو چیف پیچھے سے چیخ اٹھا سر دو آدمی ، دو آدمی ۔
میں مائیک کی پروا کیے بنا دھاڑا ، نظر نہ ہٹے تیری وہاں سے ۔
اور پھر نظر کہاں ہٹنا تھی۔
نیچے دیکھا تو ہلالی ٹیلے سے الگ ایک  ٹیلے پر راجستھانی رنگ کے شوخ گلابی رنگ کپڑوں میں دو انسان اڑسے ہوئے تھے ان کی طرف متوجہ ہوئے تو اس کے بالکل ساتھ اندھیرے میں منحنی سے گیلے زمینی ٹکڑے پر دونوں ماں بیٹی دبکے دکھائی دیے ۔
راجستھانی رنگ والے بابوں کے پاس جگہ آسان تھی وہاں ہیلی کے پورے پیر جما کر انہیں اندر آنے کا کہا مگر وہ دونوں اپنی بکری کے بنا اندر آنے کو تیار نہ تھے۔ 
اور جانور کو اندر لانے کی سہولت ہیلی یا میرے پاس بالکل نہ تھی۔نہ ہی یہ مناسب تھا  کیونکہ ہمیں راستے میں مزید انسانوں کے ملنے کی توقع ہمیشہ رہی ہے۔
سو بابوں نے انکار کیا 
میں نے ہیلی ہوا میں لے کر ننھے سے ٹیلے پر سہمی سمٹی دونوں ماں بیٹی کی جگہ کا جائزہ لیا اور کریو کو اعصاب مضبوط کرنے کا  کہہ کر دونوں ہاتھوں اور سارے انہماک سے کنٹرول کالم کو تھامنے میں جت گیا۔
میں پیچھے مڑ کر ایک لحظہ بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
ہیلی اور میں منجمد ہو چکے تھے جب میں نے فقط ریڈیائی ذریعے سے ریسکیو شروع کرنے کا حکم دیا ۔
اتنی مشکل اور احتیاط میں نے ٹریننگ کے بعد فقط آج کی تھی۔
میں ، کنٹرول کالم، ہیلی اور میرا عملہ ۔ یہ ہم سب کی مشترکہ نماز تھی ۔ ایک لمحے کی غفلت یا ہلچل ہم سب کو وہیں ڈھیر کر سکتی تھی۔
ہیلی معمولی سی ناک کے سہارے ٹکا ہوا تھا۔
جیسے سجدے میں ہو 
ہم سب نے اپنی نماز کا قیمتی ترین سجدہ وہیں کیا۔
دس سے پندرہ سیکنڈ میں دل کی دھڑکن کنپٹی اور آنکھوں تک محسوس کی ۔ مشن مکمل ہوا تو نسبتاً وسیع ٹیلے پر بیٹھے بابوں نے بھی ساتھ آنے کا عندیہ دیا ۔
ان کے پاس بآسانی التحیات کی شکل میں لینڈ کیا ۔
بابوں کی مہربانی کہ وہ بکری کو چھوڑنے پر آمادہ ہوئے ۔
مغرب ہمیں وہیں ہوئی سب کو جیکب آباد اتارا تو میں دیکھ رہا تھا کہ بابا بیٹی اور بیوی کے پاس کھڑا مجھ سے فقط ایک نظر اپنی طرف دیکھنے کے مراقبے جیسی خواہش میں گم تھا۔
پیشہ ورانہ طبیعت کے مطابق عین روبوٹک موڈ چہرے پر سجائے میں اپنے جہاز کو سکھر کے لیے تیار تو کر رہا تھا مگر میری نظریں بھی اس کو دیکھنے کی خواہش کرنے لگیں۔
اچانک نظریں ملیں ۔
سادھو صاحب نظروں نے مجھے وہ دعا دی کہ میں وہ دعا آج بھی سنبھالے ہوئے ہوں۔
میری زندگی کی قیمتی ترین دعا میری زندگی کی وہ نعمت ہے جس کا متبادل میرے پاس پوری کائنات لے کر بھی نہیں ہو سکتا۔
میں ہمیشہ اسی دعا کا دیا کھاتا ہوں 
اسی دعا کا دیا جیتا ہوں 
اسی دعا کا دیا پہنتاہوں 
اور اسی دعا کے دیے سے اپنے ننھے بچوں کے دانے دنکے کا بندوبست کرتا ہوں۔ 
وہ دعا اس قدر اہم ہے کہ آپ سے اتنے سالوں کی رفاقت کے باوجود کبھی ا س کا تذکرہ نہیں کیا۔
ان دنوں پھر سیلاب آیا ہوا ہے تو مجھ سے یہ واقعہ سنانا سرزد ہو گیا۔
مجھے اس دعا کا اجر خدا سے ہی لیتے رہنا ہے لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ کسی صورت اس واقعے کو میرے نام کے ساتھ نہ سنائیے گا۔ ||


مضمون نگار مختلف موضوعات پر قلم کشائی کرتے ہیں۔
[email protected] 
    
 

یہ تحریر 790مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP