شہید اس پاکیزہ روح کا مالک ہے جس نے اللہ تبارک تعالیٰ کے کلمے کو سربلند کرنے کے لیے خود کو قربان کیا۔شہادت ایک اعزاز ہے۔ شہید اللہ کا مقرب ہے۔ وہ اس رزق کو حاصل کرتاہے جو شہادت کے بعد اللہ کی طرف سے دیاجاتاہے۔شہید کو مردہ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔وہ تو ایک ابدی حیات کے مالک ہیں لیکن ہم اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔وطن کے شہیدوں کو سلام، اپنے جگر گوشوں،آنکھوں کے نور، دل کے قرار کو وطن کی حرمت پہ قربان ہونے کے لیے تیار کرنے والے والدین کو سلام۔
شہیدوںمیں ایک اور شہید کیپٹن محمدفہدخان کا اضافہ ہوگیا اور افواج پاکستان کے قبرستان (راولپنڈی) میں چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ودیگر کے ساتھ سلامی پیش کرتے اورپھولوں کے دستوں کے ساتھ محمدفہدخان شہیدکو سپردخاک کردیاگیا۔
میں نے جب سے لکھنا شروع کیا، شمار نہیں کہ کتنے لوگوں کے تاثرات اور انٹرویوز مختلف موضوعات اور مسائل پہ لیے، مگر جب بھی کسی شہید کے خاندان والوں سے بات ہوئی تو دل کی تڑپ اور آنسوئوں کی لڑی بے قابوہی رہی۔
میجرتوفیق خان(ر)41بلوچ کے قابل آفیسر،8ستمبر1989ء کو انہوں نے کمیشن لیا اور پھر مختلف علاقوںمیں تبادلے کے حوالے سے قیام پذیر رہے، اللہ نے تین بچوں سے نوازا،محمدولید خان، محمدفہدخان اور بیٹی گلالئی توفیق خان۔ننھامنا سا خوبصورت فہد جب ماں کی گود میں1اگست1996ء کوتحصیل ٹوپی ضلع صوابی میں آیاتو باپ کی نظروں نے اسی وقت پہچان لیا کہ یہ شہزادہ فوج کی وردی ضرور پہنے گا۔ پھر محمدفہد خان جیسے جیسے بڑا ہونے لگا۔ اس کے دل میں فوج میں جانے کا خیال بھی بڑا ہونے لگا وہ لاہور سے گرائمر سکول، پھر کوئٹہ Seven Stream،پھر گیریژن بوائے سکول سے سفرمکمل کرکے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ گیا۔ خواہش کا پرندہ بھی پرواز کرتا رہا اورپھر باپ کے دل کی آرزو اور محمدفہدخان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور فہدخان 11مئی2016کو 137پی ایم اے کورس کا حصہ بنے۔
کیپٹن فہد(شہید) کے والد بتانے لگے کہ فہد شروع سے ہی اپنے اندر ایثار کا جذبہ رکھتا تھا۔ سکول، کالج اور خاندان میں اپنی اسی عادت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔اپنی چیزیں بانٹ دیتا اور کسی کو مشکل میں دیکھ کر حتیٰ الامکان اس کی مدد کرنے سے شہید کو دلی سکون حاصل ہوتا۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ کبھی ڈانٹنے کا موقعہ ملا ہو، بھائی کا تو وہ دوست تھا ہی مگر بہن کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتیں اورکھیل چلتا رہتا، ایک ہی بہن تھی تو اس سے دوستی بھی بہت تھی۔ وہ اپنے والد کیلئے تو ایک قیمتی رشتہ تھا مگر ماں کے ساتھ اس کا پیار، لاڈ اور دوستی مثالی تھی ۔وہ اپنی ماں کو اکثر یہی کہتا کہ ماں میرا سب کچھ آپ کا ہے، وہ اپنے آپ کو خوش رکھنیکے لیے ہمیشہ اللہ کی مخلوق کے کام کرتا۔ کھیل کا بہت شیدائی تھا۔ ٹینس، تیراکی اور گھڑسواری میں ہمیشہ ٹرافی جیتتا، فہدITکاماسٹرتھاگھرمیں سب کےLaptopاورموبائل فون کے مسائل وہ چٹکی بجاتے حل کردیتا۔
کیپٹن فہد اپنی ماں کے ساتھ شیشے کے سامنے کھڑاہوکر بڑی محبت سے کہتا، ماں اللہ نے مجھ پہ کتنی رحمت کی ہے مجھے میری ماں جیسے نین نقش دیے ہیںا ور واقعی فہدشہید ہوبہوماں کا ہم شکل تھا۔ فہد نے اتنی چھوٹی عمر میں ہی اپنی ماں کا اتنا پیار سمیٹا ایسے لگتا تھا جیسے وہ جانتاہے کہ وہ مختصرعمر لے کے آیاہے، ماں باپ کے کمرے میں کپڑے کی الماری میں آدھے کپڑے فہد کے لٹکے ہوتے، وہ خودکوکبھی الگ کمرے کے باوجود ماں باپ سے الگ نہیں کرتا تھا۔ والد توفیق خان جب بھی گوادر سے آتے تو ان کے کمرے میں محمدفہدکی چیزیں نظرآتیں تو وہ مسکرا کے رہ جاتے، اب بھی فہدشہید کی چیزیں اسی طرح انہوں نے اپنے کمرے اور الماری میںرکھ لی ہیں۔ ماں کہتی ہے میرے لاڈلے کی روح میرے پاس یہیں آئے گی اپنی چیزوں کو دیکھ کے اسے محسوس ہوگاکہ وہ ہمارے ساتھ ہی اس کمرے میں رہتاہے۔
ماں کے ہاتھ کی بریانی اور چائنیز کا دلدادہ تھا۔ فہدشہید کے لیے سب سے خوبصورت لمحہ وہ ہوتا جب وہ ماں باپ کے درمیان بستر پہ بیٹھا ہوتا اور وہ ولید اور گلالئی بھی ساتھ میں بیٹھ کر گپ شپ کررہے ہوتے، ماں کے ہاتھ سے کھانا ماں نے نوالے بنابناکے دینا، وہ خوبصورت یادیں آج سب کو رلارہی ہیں۔ ماں کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ مجھے فہد سے جتنا پیار ہے اس کا مکمل اظہارمیں کرہی نہیں رہی۔ اگر بتادوں تو ایک لمحیکے لیے بھی فہدشہید کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دوں مگر اب ان آنکھوں کا انتظار کبھی ختم نہیں ہوگا۔
PMAکی ٹریننگ کے دوران جو سختی برداشت کرنی پڑتی ہے، اس کے متعلق فہد نے کبھی بات نہیں کی تھی۔ ایک مرتبہ ہاتھوں پہ چھالے دیکھے تو ماں نے کہا یہ کیا ہوا میری جان تومسکرا کے کہنے لگا'' انہی ہاتھوںسے جھنڈا اٹھاناہے اس لیے ان کو مضبوط کررہاہوں''۔
میجرتوفیق خان(ر)کی بڑی خواہش تھی کہ محمدفہد 41بلوچ میں آئے اور یونٹ بھی اس خوبرو اور نڈرفوجی کا انتظارکررہی تھی مگر میجرذیشان نے فہدشہید کے والد میجرتوفیق(ر)سے کہاآپ کا خوبصورت شہزادہ'چھ فٹ تین انچ کی قدوقامت رکھتاہے، وہ Armoured کا آفیسرہی بنے گا۔ کالی وردی میں چاند کی طرح جگمگائے گا۔
فہد خان نے 15 اپریل 2018ء کو کمیشن حاصل کیا اور پاکستان آرمی کی مایہ ناز رجمنٹ11 کیولری (فرنٹیر فورس) میں شمولیت اختیار کی جو ملتان گیریژن میں عسکری خدمات سرانجام دے رہی تھی ۔ 11 کیولری (فرنٹیرفورس) پاکستان آرمی کی یہ تاریخی اور مایہ ناز رجمنٹ ہے جس نے 28 محاذوں پر جنگ میں حصہ لیا۔ 11 کیولری (فرنٹیر فورس) پاکستان کی وہ مایہ ناز رجمنٹ ہے جس نے پاکستان بننے کے بعد ہونے والی تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ 11 کیولری کے آفیسر صاحبان سردار صاحبان اور جوانوں نے ان گنت قربانیاں دے کر شہادت کا رتبہ حاصل کر کے 11 کیولری فرنٹیئرفورس کا نام سربلند رکھا۔
کیپٹن فہد نے کور لیول کریو کمبٹ ایفیشنسی 2018ء میں بطور ٹیم کپتان حصہ لیا۔ ان کی محنت اور لگن کی وجہ سے رجمنٹ نے نمایاں پوزیشن حاصل کی اور جنرل قمر جاوید باجوہ چیف آف آرمی سٹاف سے اول پوزیشن کی ٹرافی وصول کی۔ اپنی رجمنٹ کو اول پوزیشن دلوا کر پاک آرمی میں رجمنٹ کا نام فخر سے بلند کیا۔ اس کے علاوہ یونٹ کے کئی مقابلوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا جس میں پولو' ٹینس اور تیراکی قابل ذکر ہیں۔
کھیلوں کے ساتھ ساتھ اپنا عسکری سفر جاری رکھتے ہوئے 8 جولائی 2019 کو انفنٹری بنیادی کورس 74 کے لیے انفنٹری سکول کوئٹہ چلے گئے اور احسن طریقے سے مکمل کیا۔ رجمنٹ میں واپس آنے کے بعد 27 دسمبر 2020 کوبنیادی آرمر کورس 124 کرنیکے لیے آرمر سکول نوشہرہ چلے گئے۔ انہوں نے اس میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الفا گریڈ حاصل کیا۔
8 مارچ 2020 کو کرنل آف دی رجمنٹ کی تقریب رکھی گئی جس میںانہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ اس تقریب میں وہ جنرل گارڈ کے کمانڈر تھے۔ رجمنٹ میںرہتے ہوئے آپ معمول کے کاموں کو بہترین طریقے سے نبھاتے رہے اور ہمیشہ یونٹ کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔
11 کیولری (فرنٹیئر فورس) کی پوسٹنگ ملتان سے کھاریاں گیریژن ہوئی۔ وہ مین پارٹی کے ساتھ آئے۔ معمول کے مطابق مزید عسکری خدمات انجام دینے کے لیے 8 جون 2021 کو 84 ونگ مہوند رائفل ایف سی نارتھ چلے گئے۔ وہاں اپنی خدمات کے دوران دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے رہے امن کی فضا کو قائم رکھا۔ وہ کسی بھی مشکل وقت میں سب سے آگے رہتے اور اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
24 دسمبر2022 کو 11کیولری (فرنٹیئر فورس) کا چمکدار ستارہ کیپٹن محمد فہد خان معمول کے مطابق اپنی عسکری خدمات سر انجام دیتے ہوئے کوہلو کے مقام کہان پر فوجی دستوں کے گزرنے کے لیے روڈ کو کلیئر کر رہے تھے کہ اچانک بارودی مواد ان کی گاڑی کے نیچے آ گیا۔پاک آرمی کا یہ جوان ساتھیوں سمیت شہید ہوگیا۔
جس طرح سب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ساتھ مل کے رہیں اسی طرح فہد شہید کے گھر والوں کی بھی یہ خواہش تھی اور جب بھی یہ اکٹھے ہوتے تو ہر جگہ ساتھ میں جاتے۔ لاہور میں سروسز کلب ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ محمد فہد شہید وطن اور وردی سے ماں جتنی محبت کرتے تھے۔ نٹ کھٹ شرارتی اور ذہین محمد فہدشہید مایوسی کو گناہ تصور کرتے اور اللہ پر بھروسے کا یہ عالم تھا کہ اگر تکلیف بھی پہنچتی تو ''الحمدللہ'' ہی کہا کرتے۔ 2جنوری کو فہد شہید نے لاہور چھٹی آنا تھا۔ بھائی ولید کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں اور فہد کی منگنی کرنے کا ارادہ بھی والدین رکھتے تھے۔ 24 دسمبر کی رات کو فون پر سب بیٹھے رشتے داروں کے نام اور ایڈریس ایک دوسرے کو بتا رہے تھے کہ شادی پہ کس کس کو بلانا ہے۔ ساتھ میں ہنسی مذاق چل رہا تھا۔ والد گوادر میں تھے۔ فہد کی ماں کا صبح فہد سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا کہ وہ ''کہان'' (Kahan) جا رہا ہے۔ اُس کے بعد ماں پریشان رہنے لگی کہ بار بار فون کرنے پر رابطہ نہیں ہو رہا۔
FC میں اکثر افسر شام کو ٹریک سوٹ میں گھوما کرتے محمد فہد بھی ایسا ہی کرتے مگر اُس دن وہ خاص طور پر مکمل وردی پہن کے نکلے۔ میجر توفیق کو محمد فہد کے یونٹ آفیسر نے بتایا کہ ایک ماہ سے ہم دیکھ رہے تھے کہ فہد کے چہرے سے نور نکل رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ جوان بچہ ہے ماشاء ا للہ نیک ہے، اس لیے چہرہ پُرنور ہوتا جا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ تو شہادت کے نور کا پرتو تھا۔
25 دسمبر کو ڈیڑھ بجے محمد فہد (شہید) اپنے ساتھیوں سمیت اس وطن پہ قربان ہوگئے۔ 4 بجے والد میجر توفیق کو اطلاع ملی وہ گوادر میں تھے۔ اُن کو یقین کیسے آتا، رات کو وہ مستقبل کی خوشیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اور اب… یہ خبر سنا دی گئی۔
نقارہ بج اُٹھا ''محمد فہد شہید ہو گئے۔ اُن کی ابدی حیات مبارک ہو، وہ اللہ کے مقربین میں سے ہیں۔ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔'' ایک باپ جو تنہا گوادر میں بیٹھا ہے اُس نے اس غمناک خبر کے بعد 750کلومیٹر کا سفر طے کر کے کراچی پہنچنا تھا۔ پھر جہاز سے لاہور۔ وہ سفر شاید ''سفرِ مرگ'' تھا۔ وہ لمحے خوفناک بلائوں کے پنجوں کی طرح اُن کے وجود کو زخمی کر رہے تھے مگر اُنہیں اکیلے گھر پہنچنا تھا، ہمت کر کے ،اپنے پائوں پہ چل کے، اپنے جگر گوشے کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے ،جو اس وطن عزیز پر اپنی جوانی نچھاور کر گیا تھا۔ جو اس مٹی پہ ماں کی محبت قربان کر گیا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ اُس فوجی جوان کو افواج پاکستان کے قبرستان میں بڑی شان و شوکت کے ساتھ مٹی کی گود میں لٹا دیا گیا۔ ماں کا دل جو گھبرا رہا تھا وہ ویسے ہی نہیں گھبرا رہا تھا کچھ توتھا جو ماں بے قرار تھی۔ بہن کو سنبھالنا یا بھائی کو سنبھالنا کہاں آسان تھا یا میجر توفیق (والد) خود کو سنبھالتے مگر اُنہیں فکر تھی محمد فہد شہید کی ''ماں'' کی جو اُن کے بغیر ایک نوالا نہیں کھایا کرتی تھیں، مگر موت کا غم شاید کربناک ہو لیکن شہادت اپنے ساتھ صبر کا پیغام لاتی ہے، اسی لیے اگر آج سانحہ پشاور یا وزیرستان یا مہمند ایجنسی کہیں بھی شہید ہونے والوں کی مائیں ،بہنیں، بھائی اور والد خاموش زندگی کے سفر پہ بناشکوہ کئے جیتے جارہے ہیں تویہی خیال ان کو جیتنے پر مجبور کرتاہے کہ شہادت مصیبت نہیں انعام ہے، اس انعام کے حقدار صرف شہید ہی نہیں ان کا پورا خاندان ہواکرتاہے۔
محمدفہدشہید کی قربت کے لیے ان کے والدین لاہور سے راولپنڈی منتقل ہوگئے اور فہدشہید کا سارا سامان انہوں نے اپنے کمرے میں سجالیاہے۔ الماری کھولتے ہیں تو اس کے کپڑوں سے لپٹ جاتے ہیں، دراز کھولتے ہیں تو وہاں اس کی مسکراتی آنکھوں سے زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بھری تصویریں نظرآتی ہیں۔ والدین کہتے ہیں کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم گہری نیند سے جاگیں تو فہد زندہ سلامت سامنے نظرآئے یا پھر ہمارے درمیان لپٹ کرسویا ہوا ملے۔ محمد فہدشہید کے والد میجرتوفیق نے کہا کہ بے شک ہمیں بیٹے کی شہادت پہ فخرہے لیکن ایک سوال ہے کہ کیا ہمارے بیٹے کی کیپٹن محمدفہدخان(شہید) کی کمی کبھی پوری ہوسکتی ہے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 333مرتبہ پڑھی گئی۔