لسبیلہ ہیلی کریش میں جامِ شہادت نوش کرنے والے نائیک مدثرفیاض کے حوالے سے رانا نعیم صفدرکی تحریر
14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آنے والا ملک پاکستان، پاک فوج کے جوانوں کی قربانیوں کے تسلسل سے آج پوری آب و تاب سے دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر چمک رہا ہے۔1948 کا معرکہ ہو یا 1965 کی فتح ، 1971 کی سازش ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، سیلابی ریلے ہوں یا زلزلے، پاک فوج کی قربانیوں کو کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتااور قربانیوں کا یہ لازوال سلسلہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔
ضلع ناروول کی تحصیل شکرگڑھ پاکستان کے شمال مشرق میں واقع مکمل سرحدی علاقہ ہے۔تحصیل شکرگڑھ کے عوام انتہائی غیور، بہادر اور جنگجو شمار ہوتے ہیں جو ہمہ وقت کسی بھی قسم کے جنگی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ تیار رہتے ہیں۔ جنگ ستمبر میں جب انڈین آرمی نے ٹینکوں اور توپوں سے لیس کانوائے کے ساتھ شکر گڑھ بارڈر کے ساتھ ملحقہ چونڈہ سیکٹر سے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو یہی وہ بہادر اور غیور عوام تھے جس نے حب الوطنی اور اسلام کے جذبہ سے سرشار اپنی افواج کأ ساتھ دیا اورپاک فوج کے شانہ بشانہ انڈین آرمی کے سارے کانوائے کو مکمل طور پر تباہ کر کیبھارتی غرور کو خاک میں ملانے میں اپنا کردار ادا کیا اور دشمن کو بتا دیا کہ اس سیکٹر پر سوائے اس کے دانت کھٹے ہونے کے ،اسکے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
حال ہی میں شکرگڑھ دھرتی کے ایک سپوت نے وطن پراپنی جان قربان کرتے ہوئے لازوال قربانیوں کا تسلسل برقرار رکھا۔نائیک مدثر فیاض شہید کا تعلق تحصیل شکرگڑھ کے نواحی گائوں بھیکا چک سے تھا ۔مدثر فیاض نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں سے ہی حاصل کی اور میٹرک کرنے کے بعد پاک فوج میں بھرتی ہو گئے۔ان کے چار بھائی اور ایک بہن ہے، مدثر شہید کا بھائیوں میں تیسرا نمبر تھا ۔ تقریباً دو سال قبل مدثر فیاض شہید کی شادی ہوئی تھی تاہم شہید کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ان کے والد گرامی کا تعلق بھی پاکستان رینجرز سے تھا۔ وہ رینجر سے ڈی ایس آر ریٹائرہوئے تھے۔ فوجی ہونے کے ناتے وہ مدثر کے ہر مشن کی کامیابی پر بہت فخر کرتے اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتے۔مدثر شرم و حیا کا پیکر تھے والدین کے ساتھ کبھی اونچی آواز میں بات تک نہ کی اور فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ تھے۔سنجیدہ سوچ ،وطن پر مر مٹنے کا جذبہ انہیں راتوں کو سونے نہ دیتا۔ ہر قسم کے مشن کے لیے مدثر کے سنیئرز نے انہیں ہمیشہ تیار پایا۔مشن پر جانے سے پہلے ہمیشہ اپنے والد محترم کی خدمت میں فون کر کے دعائیں لیتے، پھر جب والد وفات پا گئے تو یہ سلسلہ بڑے بھائی مصور فیاض کے ساتھ شروع ہوا۔ بتاتا چلوں کی مدثر شہید کی والدہ ماجدہ کا انتقال پہلے ہی ہو چکا تھا۔آخری مشن پر جانے کا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ اسے بیان کرتے ہوئے شہید کے بھائی مصور کا کہنا تھا کہ قسمت کس طرح اپنا کام کرتی ہے۔مشن پر جانے سے قبل مدثر کی چھٹی کنفرم ہو گئی ہوئی تھی اور واپسی کا ٹکٹ بھی کروالیا ہوا تھا کہ 9 اگست کو اچانک اس مشن کی کال ہوئی اور مشن دوسرے ساتھیوں کے حصے میں آگیا تو مدثر شہید نیا یونیفارم پہنے اپنے صوبیدار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشن پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا توانہوں نے چھٹی کا یاد دلایا لیکن مدثر نے یہ کہتے ہوئے اصرار کیا کہ سر میرے بعد آپ سب نے ہی مشن پر جایا کرنا ہے آج مجھے جانے دیں۔ ان کے جذبے اور شوق کو دیکھتے ہوئے سینئرز نے بھی ہامی بھر لی۔ مدثر نے مجھے(مصور فیاض)کو فون کیا اور خوشی خوشی بتایا بھائی میں مشن پر جا رہا ہوں دعائوں سے نوازیں۔ ساتھ مشن کی سنگینی کا بھی بتایا کہ افسران بالا ساتھ ہیں معمول سے وقت زیادہ لگے گا پریشان نہ ہونا لیکن کسی کو کیا پتا تھا کہ وقت تھم جائے گا اور ہمارا بھائی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائے گا۔وقت گزرتا گیا، مدثر سے رابطہ کرنے کی کوششوں میں تیزی آتی گئی پھر یوں ہوا کہ ٹیلی وثرن پر ہیلی کاپٹر حادثہ کی خبر سنی اور دھڑکنوں کی تیزی کے ساتھ مدثر کے قریبی ساتھیوں سے رابطہ کیا وہ بھی ہماری طرح کسی اچھی اطلاع کے منتظر تھے ۔
مدثر شہید سے ایک درجہ بڑے بھائی تصور فیاض کا کہنا تھا کہ میرے بھائی کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ میرے بھائی نے کبھی تمیز اور اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیا۔
سب سے چھوٹے بھائی اسد فیاض کا کہنا تھا کہ بھائی مدثر اور میں ہمیشہ دوستوں کی طرح رہتے تھے، وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نصیحتوں سے نوازتے تھے۔ میری زندگی میں کبھی ان کی کمی پوری نہیں ہو سکتی۔ میں بھائی کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست سے بچھڑ گیا ہوں ۔بھائی سے بچھڑنے کا صدمہ تو کبھی کم نہیں ہو گا لیکن بھائی کی شہادت کی خوشی بھی ہے کہ یہ مقدر والوں کو نصیب ہوتی ہے۔بچوں کے ساتھ محبت کا یہ عالم تھا کہ راقم نے جتنا وقت ان کے ساتھ گزارا، بچوں کو اپنے چاچو مدثر کی باتوں سے فرصت کہاں !چاچو کی یاد کو دل میں بسائے معصوم آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھتے کہ شاید آنے والوں کے ساتھ ان کا چاچا مدثر بھی ہو۔
9 اگست 2022 کو نائیک مدثر فیاض شہید اپنے افسران بالا کے ہمراہ بلوچستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے اس ہیلی کاپٹر میں موجود تھیلسبیلہ کے مقام پر موسم کی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر حادثہ میں جام شہادت نوش کر گئے ۔ اس حادثہ میں نائیک مدثر شہید کے علاوہ پاک فوج کے اعلیٰ افسران نے بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اللہ تعالی تمام شہدا کی قربانیوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے آمین۔
شہید مدثر کا جسد خاکی جب ان کے آبائی گائوں پہنچا تو ان کی بیوہ اور اہل خانہ تابوت سے لپٹ کر بے اختیار رو پڑے۔ان کی آنکھوں سے نکلے آنسوئوں کو شہید کے کفن نے جذب کر لیا اور انہیں شہادت پر قابل فخر بنا دیا۔شہید مدثر فیاض اپنے گھر والوں کے سامنے اشکوں سے بے نیاز شہادت کا کفن اوڑھے ابدی نیند سو رہا تھا۔شہید اپنے گھر والوں کے سامنے بے خواب راتوں اور بے نور صبح سے عاجز ہو کر شہادت کا بڑا مقام پا کر ساری عوام کے سامنے لیٹا سو رہا تھا ۔ ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں محبان وطن نے شرکت کی۔ شکرگڑھ کی فضا نعرہ تکبیر اور پاک فوج زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔پاک فوج کے چاق چوبند دستے نے شہید مدثر فیاض کو اپنے خوبصورت انداز میں سلامی پیش کی ۔ شکرگڑھ کے عوام کی طرف سے پاک فوج سے محبت کے ولولے کو پاک فوج نے سراہا۔شہید کے جنازہ میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی اور پھو ل چڑھائے۔عوام اور پاک فوج نے شہید کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں ملک و ملت کے شہدا اور وطن عزیز کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی شکر گڑھ میں نائیک مدثر فیاض شہید کے اہل خانہ سے تعزیت کی اور شہید کی قبر پہ دعا کی۔انہوں نے پوری قوم کی طرف سے انہیں سلام پیش کیا۔
راقم نے شہید کے گھر جانے کا شرف حاصل کیا شہید کے درجات کی بلندی کی دعائیں کیں۔شہید کے گھرانے نے بھی اپنی چاہت کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے مدثر فیاض شہید کے یونیفارم کا دیدار کروایا۔
مضمون نگار کا تعلق شعبۂ صحافت سے ہے اور وہ ضلع نارووال سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر ہیں۔
[email protected]
یہ تحریر 651مرتبہ پڑھی گئی۔