متفرقات

خطباتِ اقبال۔۔۔تعارف اورپسِ منظر 

خطبات کا سب سے پہلا اردو ترجمہ علامہ اقبال کے دوست، سید نذیر نیازی نے علامہ اقبال  کے ایما پر ان کی زندگی ہی میں "تشکیل جدید  الہیات اسلامیہ" کے عنوان سے کر دیا تھا لیکن اس ترجمے کی اشاعت اقبال کی وفات کے بیس سال بعد 1958 میں عمل میں آئی۔یہ ترجمہ صوبائی حکومتی ادارے،بزم اقبال لاہور نے شائع کیا ہے۔علامہ کے یہ خطبات  چھپتے ہی دنیا بھر کے اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔


 ہمارے عظیم قومی شاعر، مفکرِ اسلام، مصور پاکستان،ترجمان حقیقت اور دانائے راز علامہ محمد اقبال نے بیسویں صدی میں اپنے شاندار افکار و خیالات اور بے مثال شاعری کے ذریعے برصغیر کی مسلم قوم کے تنِ مردہ میں ایک نئی روح پھونکی اور امت مسلمہ کو تگ و تازِ زندگی میں سر اٹھا کر جینے کے قرینوں سے آگاہ کیا۔ آپ کا یہ کارنامہ انسانی تاریخ کا ایک نادر اور شاندار واقعہ ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی فلسفیانہ شاعری کے ذریعے جہاں امت مسلمہ کو ایک ولولہ تازہ دیا اور اسے رازہائے الوندی بتائے وہاں اپنے انگریزی خطبات کے ذریعے الہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کا وہ عظیم کارنامہ بھی انجام دیا جس کا فکر اسلامی صدیوں سے راستہ دیکھ رہی تھی۔اسلامی فکر کی تشکیل جدید کی یہی وہ خدمت ہے جو علامہ اقبال کو انسانی تاریخ کے نابغوں اور اسلامی مفکرین کی صفِ اول میں لا کھڑا کرتی ہے۔
علامہ اقبال حرکت و عمل پر پختہ یقین رکھنے والے اور تحرک کا سبق دینے والے مفکر ہیں۔ان کے لیے مذہب ترجیح اولی ہی نہیں بلکہ سب کچھ ہے۔ 
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں 
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں 
اور 
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت 
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا 
 
ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ اسلام کا تصور حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ وہ اسلامی عقائد اور تصورات کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے،اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے جدید دور کے مسائل دینی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے اور دینی عقائد کی حقانیت کو جدید علوم کی زبان میں ثابت کر کے روحانیت سے دور ہوتی ہوئی انسانیت،مسلم قوم اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنے کے شدید آرزو مند تھے۔علامہ اقبال کی ساری زندگی مذہب کو زندگی کے تمام شعبوں میں اصل اصول کے طور پر تسلیم کروانے میں بسر ہوئی۔ زندگی کے حوالے سے علامہ اقبال کا تصور سکون کے برعکس حرکی تھا۔وہ جدید دور میں زندگی کے مسلسل بدلتے ہوئے منظر نامے میں مذہب کے بھرپور کردار کے حامی تھے اسی لیے مذہب میں بھی اصولِ حرکت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اسلام میں اصولِ حرکت کا ظہور صرف اور صرف اجتہاد میں ہوا ہے۔مگر علامہ دیکھ رہے تھے کہ ہمارے علماایک مدت سے اجتہاد کے دروازے بند کر چکے ہیں۔وہ جدید دور کے تقاضوں اور مسائل سے عہدہ برا ہونے اور مذہبی عقائد و تصورات کو جدید علوم کی زبان میں بیان کرنے سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند 
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی 
لہٰذا اقبال ابتدا  ہی سے اجتہاد میں گہری دلچسپی رکھتے تھے اور دینی عقائد و تصورات کو جدید دور کے مسائل سے عہدہ برا اور ہم آہنگ کرنے کے متمنی تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں جدید سائنس اور جدید فلسفے کی بنیاد پر تشکیل پانے والے لادین اور الحاد پر مبنی مغربی فلسفے کا چیلنج بھی درپیش تھا جس سے مسلم نوجوان بڑی شدت سے  متاثر ہو رہے تھے۔
     ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم 
    کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
پس اقبال نے یہ چیلنج کھلے دل سے قبول کیا اور ہستی باری تعالی کے وجود اور مابعدالطبیعات یعنی مذہب کے اثبات کو اپنی فکر و نظر کا مرکز و محور بناکر اسلامی عقائد کی ترجمانی، دفاع  اور تشکیلِ جدید کا اہم فریضہ انجام کی فکر میں منہمک ہو گئے۔
    علامہ اقبال نے 1924 میں "اسلام میں اجتہاد" کے عنوان سے ایک مقالہ اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبیہ ہال میں پڑھا۔اجتہاد، جسے کئی صدیوں سے علما فراموش کیے بیٹھے تھے، جیسے اہم موضوع کی اہمیت اور ضرورت پر ایک بڑے مفکر کی زبانی  مدلل گفتگو سن کر اہل علم حضرات نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور مقالے کے اہم نکات چھپ جانے کے بعد مقالے کی شہرت ہندوستان بھر میں دور دور تک پہنچ گئی۔یہی شہرت جب جنوبی ہند کے سیٹھ جمال محمد تک پہنچی تو انہوں نے علامہ اقبال کو مدراس میں خطبات پیش کرنے کی دعوت دی جسے اقبال نے قبول کرلیا۔سیٹھ جمال محمد مدراس کے ایک بہت بڑے تاجر اور علم وادب کے رسیا اور قدر دان تھے۔انہوں نے اپنے خرچ پر کئی خیراتی اداروں کے علاوہ ایک مسلم ایسوسی ایشن بھی قائم کر رکھی تھی جس کا مقصد معروف مسلم علمی شخصیتوں کو مدراس میں مدعو کر کے ان سے اسلام سے متعلق موضوعات پر خطبات دلوانا تھا۔یہاں اسی ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سید سلیمان ندوی اور محمد مارماڈیوک پکتھال بھی سیرت النبی اور تمدن اسلام پر عالمانہ خطبات دے چکے تھے۔یہ تھے وہ حقائق اور پس منظر جو ان معرکةا لآرا خطبات کے نزول کا سبب بنا۔  


ان کا پختہ عقیدہ تھا کہ اسلام کا تصور حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ وہ اسلامی عقائد اور تصورات کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے،اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے جدید دور کے مسائل دینی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے اور دینی عقائد کی حقانیت کو جدید علوم کی زبان میں ثابت کر کے روحانیت سے دور ہوتی ہوئی انسانیت،مسلم قوم اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنے کے شدید آرزو مند تھے۔


  پہلے تین خطبات جنوری 1929 میں مدراس،بنگلور، میسور اور حیدرآباد دکن میں ارشاد فرمائے گئے جبکہ اگلے تین خطبات نومبر 1929 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دیے گئے۔ان چھ خطبات پر مشتمل کتاب پہلی بار 
"Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam"  کے عنوان سے 1930 میں لاہور سے شائع ہوئی۔ساتواں اور آخری خطبہ 1932 میں تیسری گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن کی ارسطاطیلین سوسائٹی کی دعوت پر دیا گیا۔اس خطبے کا عنوان"Is Religion Possible" 
  تھا۔انگلستان کے علمی حلقوں کو اس خطبے نے بہت متاثر کیا اور ان پر بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔چنانچہ اقبال کے ایک برطانوی مداح لارڈ لوتھین کے ایما پر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے اس خطبے کے اضافے کے ساتھ، سات خطبات پر مشتمل کتاب 
" The Reconstruction of Religious Thought in Islam"
کے عنوان سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں شامل اقبال کے انگریزی خطبات کے  عنوانات درج ذیل ہیں: 
1. Knowledge and Religious Experience 
2. The Philosophical Test of Religious  
     Experience 
3. The Conception of God and the Meaning of 
    Prayer 
4. The Human Ego His Freedom and Immortality 
5. The Spirit of Muslim Culture 
6. The Principle of Movement in Structure of 
    Islam 
7. ls Religion possible?  
  ان عنوانات کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے :
  ١۔     علم اور مذہبی مشاہدات  
٢۔     مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار 
٣۔      ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا 
٤۔     خودی،جبروقدر اور حیات بعدالموت 
٥۔     اسلامی ثقافت کی روح 
٦۔     الاجتہاد فی الاسلام 
٧۔    کیا مذہب کا امکان ہے؟ 
    خطبات کا سب سے پہلا اردو ترجمہ علامہ اقبال کے دوست، سید نذیر نیازی نے علامہ اقبال  کے ایما پر ان کی زندگی ہی میں "تشکیل جدید  الہیات اسلامیہ" کے عنوان سے کر دیا تھا لیکن اس ترجمے کی اشاعت اقبال کی وفات کے بیس سال بعد 1958 میں عمل میں آئی۔یہ ترجمہ صوبائی حکومتی ادارے،بزم اقبال لاہور نے شائع کیا ہے۔علامہ کے یہ خطبات  چھپتے ہی دنیا بھر کے اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔
  لہٰذا اب تک ان خطبات کے کئی دوسری زبانوں مثلاً فارسی، فرانسیسی، عربی، ترکی، پشتو، بنگالی اور پنجابی وغیرہ میں ترجمے ہو چکے ہیں۔
      پاکستان میں ان خطبات کا معیاری انگریزی متن ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے شائع کیا ہے جسے پروفیسر محمد سعید شیخ نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے مرتب کیا۔اس پر مفید حواشی لکھے ہیں اور انتہائی قیمتی حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں ۔
سید نذیر نیازی کے پہلے اردو ترجمے بعنوان'تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ' کے علاوہ اب اور بھی بہت سے اہل علم اور ماہرین اقبالیات، ان خطبات کا اردو ترجمہ کر چکے ہیں۔ان میں 'تجدید فکریاتِ اسلام'از ڈاکٹر وحید عشرت،'اسلامی فکر کی نئی تشکیل' از  ڈاکٹر شہزاد احمد،'مذہبی افکار کی تعمیر نو' از پروفیسر شریف کنجاہی اور'تفکیرِ دینی پر تجدیدِ نظر' از ڈاکٹر محمد سمیع الحق معیاری اور معروف تراجم ہیں۔
    تراجم کے ساتھ ساتھ ان خطبات کی تلخیصات  یعنی خلاصے بھی مرتب کیے گئے۔ معروف اقبال شناس اور ماہر اقبالیات خلیفہ عبدالحکیم کی تلخیص 'تلخیص خطباتِ اقبال'کے نام سے بزم اقبال لاہور سے چھپی ہے جبکہ ایک تلخیص 'تسہیل خطبات اقبال'کے نام سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے شائع کی ہے۔ان معر کةا لآرا خطبات کی تفہیم و تشریح اور توضیح کے ضمن میں بھی بہت سے اہل علم حضرات اور اقبال شناسوں نے بہت اہم کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں ڈاکٹر سید عبداللہ کی 'متعلقات خطبات اقبال'، ڈاکٹر جاوید اقبال کی 'خطباتِ اقبال۔تسہیل و تفہیم' محمد شریف بقا کی 'خطبات اقبال ایک مطالعہ'مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی 'خطبات اقبال پر ایک نظر' اور ڈاکٹر آصف اقبال اعوان کی'معارف خطبات اقبال'انتہائی مفید اور عمدہ کتابیں ہیں۔
    علامہ اقبال کے یہ خطبات علم و حکمت کا گراں بہا خزانہ ہیں۔ان میں مشرق و مغرب کے ڈیڑھ سو سے زائد قدیم و جدید فلسفیوں، سائنس دانوں، عالموں، فقیہوں اور صوفیا کے اقوال و نظریات کے حوالے پیش کیے گئے اور ان پر عالمانہ بحث کرتے ہوئے تائید یا تردید کی گئی ہے۔ان خطبات میں روحانیت، روحانی تجربہ، وجود باری تعالیٰ کے فلسفیانہ دلائل، تصوف، وجدان، تقدیر، جبر و قدر، زمان و مکان، وحدت الوجود، اسلامی ثقافت، ولایت، نبوت، نماز، اجتہاد اور خودی جیسے اہم مذہبی اور فلسفیانہ  موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے اور علامہ نے علم و حکمت کے دریا بہا دیے  ہیں۔انہوں نے اپنے ان بے مثال خطبات میں اسلامی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے، جدید فکری انداز میں، الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ نو کا فریضہ انجام دیا اور جدید سائنسی اور فلسفیانہ انداز میں مذہب کی حقانیت اور وجود باری تعالیٰ کے ادراک اور اثبات کے مراحل طے کرنے میں پوری طرح کامیاب دکھائی دیے۔ علامہ اقبال کے یہ خطبات مغربی فلسفیوں کے انکار خدا اور انکارِ مذہب کے فلسفے کے خلاف ایک توانا آواز اور ان کا مسکت جواب ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے ان خطبات میں قرآن و حدیث، اسلامی فلسفے، اسلامی صوفیانہ روایت اور جدید فلسفے اور سائنس کی روشنی میں روحانی تجربے کی حقیقت،وقعت ثروت اور ثقاہت واضح کرکے دراصل مابعدالطبعیات یعنی مذہب، وجود باری تعالی اور مذہبی عقائد کا اثبات کیا ہے اور مغرب کے لادین اور الحاد پر مبنی فلسفیانہ اور سائنسی نظریات کو بھرپور جواب دیا ہے۔وہ ادراک و قربِ ذاتِ الٰہی کے لیے علمِ باطن کی اہمیت،آفاقیت اور رسائی کے دل سے قائل ہیں اور یہی ان کا عظیم اور شاندار کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے ان خطبات کے ذریعے، علم بالحواس اور حسی تجربے ہی کو سب کچھ سمجھنے والی سائنس اور مغرب کے الحادی اور لادینی فلسفے کی پروردہ، مادہ پرست دنیا میں روحانیت  کے چراغ روشن کیے اور اسے مذہب کی حقانیت اور قرب الٰہی کی منزلوں سے ہمکنار ہونے کے طریقوں سے آشنا کیا۔ ||


مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
 

یہ تحریر 504مرتبہ پڑھی گئی۔

TOP